بجلی کی پیداوار کیساتھ ترسیل کا نظام بہتر بنا رہے ہیں، اویس لغاری
اشاعت کی تاریخ: 9th, January 2025 GMT
فائل فوٹو۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کیساتھ ترسیل کا نظام بہتر بنا رہے ہیں، بجلی کی پیداوار کے نئے پلانٹ لگانے جا رہے ہیں۔
چوتھی انٹرنیشنل ہائیڈرو پاور کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ توانائی کے منصوبوں میں عوام کے مفاد کو مقدم رکھا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سستی توانائی کا حصول ترجیح ہے، ہم نے 9 ماہ میں پاور سیکٹر میں ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگلے دس سال میں جو پاور پلانٹ آنے تھے وہ کیوں آنے چاہئیں، آج پاکستان میں کبھی بھی مقابلہ بازی میں بجلی نہیں خریدی گئی۔ آج تک ہم نے جو بجلی خریدی وہ کسی مجبوری میں خریدی۔
وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت 10 سے 12 روپے فی یونٹ کم کرسکتے ہیں۔
اویس لغاری نے کہا کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے بورڈ کی تنظیم نو کررہے ہیں، اگلے دس سال کے ہم 17 ہزارمیگاواٹ کے پلانٹس کے ساتھ کمٹمنٹ کرچکے ہیں، ان پاور پلانٹس میں سے 80 فیصد اہلیت پر پورا نہیں اترتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا سی پی پی اے نے بجلی خریدنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، مارچ سے بجلی خریداری میں کمپیٹیشن شروع ہوجائے گا۔
وفاقی وزیر توانائی نے کہا کہ رینیو ایبل ریوولوشن ملک میں آچکا ہے، مہنگی بجلی کی وجہ سے سولر ریوولوشن آیا ہے، دس سال میں نیٹ میٹرنگ پر 10 سے 12 ہزار میگاواٹ اور بڑھے گا، ابھی کوئی بھی مڈل کلاس شہری نیٹ میٹرنگ پر نہیں ہے، نیٹ میٹرنگ ملک کے امیر ترین لوگ کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔
کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔
اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔