آسٹریلیا، برطانیہ کے بعد اب جنوبی افریقا میں بھی چیمپئنز ٹرافی کے خاص میچز کے بائیکاٹ کے حوالے سے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔

آسٹریلیا کے چیمئنز ٹرافی میں افغانستان کے خلاف دو میچز نہ کھیلنے کے فیصلے کے بعد برطانیہ کے سیاست دانوں نے انگلینڈ ٹیم جبکہ جنوبی افریقا کے وزیر کھیل نے پروٹیز سے بھی افغانستان کے خلاف میچز نہ کھیلنے کے عوامی مطالبے کی حمایت کردی ہے۔

جنوبی افریقا کے وزیر کھیل نے چیمپئنز ٹرافی میں افغانستان کے خلاف میچز کے بائیکاٹ کے مطالبے کی حمایت کردی۔

جنوبی افریقا کے وزیر کھیل گیٹن میکنزی نے کہا کہ میں عوامی مطالبے کی حمایت کرتا ہوں اور اپنی ٹیم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اخلاقی طور پر میچ کا بائیکاٹ کردیں۔

انہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کو اپنے قوانین کی پاسداری نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
گیٹن میک میکنزی نے جمعرات کو کہا کہ وہ میچ کے بائیکاٹ کی "اخلاقی طور پر حمایت کرنے کے پابند ہیں" کیونکہ طالبان حکومت نے خواتین کے کھیل پر پابندی عائد کر دی ہے اور خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کو ختم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "بطور وزیر کھیل میرے لیے یہ نہیں ہے کہ میں حتمی فیصلہ کروں کہ آیا جنوبی افریقہ کی ٹیم کو افغانستان کے خلاف کرکٹ میچز کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر یہ میرا اختیار ہوتا تو ٹیم کو میچ کھیلنے سے روک دیتا‘۔

میک نے کہا کہ ’’ افغانستان کی طالبان حکومت نے خواتین کو مساوی حقوق فراہم نہیں کیے اور اُن پر کھیلوں سمیت بہت ساری چیزوں کی پابندی لگا دی ہے‘‘۔

چیمپئنز ٹرافی کے شیڈول کے مطابق جنوبی افریقا اور افغانستان کی ٹیمیں 21 فروری کو کراچی میں مدمقابل آئیں گی۔

میک کینزی کا خیال تھا کہ آئی سی سی بھی اپنے مینڈیٹ کو برقرار نہ رکھنے کے لیے منافقانہ رویہ اختیار کر رہا ہے کہ ممبر ممالک مردوں اور خواتین کی کرکٹ کو ترقی دیتے ہیں۔

میک کینزی نے کہا کہ سری لنکا کرکٹ کو آئی سی سی نے نومبر 2023 سے جنوری 2024 تک حکومتی مداخلت کی وجہ سے معطل کر دیا تھا۔

میک کینزی نے کہا ’’افغانستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کھیلوں کی انتظامیہ میں سیاسی مداخلت کو برداشت کیا جا رہا ہے۔‘‘۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقا خواتین کو کھیلوں اور بالخصوص کرکٹ میں خود مختار بنانا چاہتا ہے، دیگر ممالک اور آئی سی سی کو اس حوالے سے سوچنا ہوگا کہ وہ خواتین کے حقوق کیلیے کتنی آوازیں اٹھاتے ہیں۔

میک نے امید ظاہر کی کہ ’کرکٹ سے وابستہ تمام لوگوں کے ضمیر بشمول سپورٹرز، کھلاڑیوں اور منتظمین، افغانستان کی خواتین کے ساتھ یکجہتی کے لیے مضبوط موقف اختیار کریں گے‘‘۔

پیر کے روز برطانیہ کے 160 سے زیادہ سیاست دانوں نے بھی خواتین کو حقوق نہ دینے اور پابندیوں پر انگلینڈ کو افغانستان کے خلاف میچ کا بائیکاٹ کرنے اور اس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

دریں اثنا آسٹریلیا میں بھی افغانستان کے خلاف میچ کے بائیکاٹ کے مطالبے کی آوازیں اٹھی ہیں جس پر کینگروز نے اپنے دونوں شیڈول میچز نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم کسی بھی ملک کی جانب سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنوبی افریقا مطالبے کی ا وازیں

پڑھیں:

انکار کیوں کیا؟

ثناء یوسف، ایک 17سالہ لڑکی جو 22سالہ نوجوان کی ضد اور انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پھر کہنے والوں نے وہ وہ کہا کہ جس سے انسانیت شرما جائے۔ 

’اچھا ہوا، مار دیا۔۔۔ معاشرے کا گند صاف ہوگیا۔۔’۔

’جس نے بھی کیا، اچھا کیا‘۔ 

’یہ ٹک ٹاکرز اسی قابل ہیں‘۔ 

’بے حیائی پھیلاتی تھی۔ اچھا ہوا، صفائی ہوگئی‘۔

’برے کام کا برا نتیجہ ہی ہوتا ہے‘۔

انسانیت کی اس سے زیادہ توہین کیا ہی ہوسکتی ہے جو یہ رذیل اور پست ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں۔  

اپنی اس نیچ سوچ سے اس گھناونے جرم کو تقویت دینے والے یہ وہ ہی لوگ ہیں کہ جن کی عورت کو دیکھ کر رال ٹپکتی ہے۔ جو اسے عیاشی کا سامان اور ضرورت کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔ اس پہ جملے کسنا ، اس کا تعاقب کرنا، اس تک پہنچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنا، اور اگر حاصل نہ ہو پا رہی ہو تو اسے ہراساں کرنا یا اس کی کردار کشی کرنا، یہ ان کا عام رویہ ہے۔

جب گیم ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے تو یا یہ  اپنی فرسٹریشن میں پستی کی آخری حد تک گر جاتے ہیں یا جعلی مولوی بن کر دوسروں کو اخلاقی اور دینی اسباق پڑھانے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے گھر کی عورتوں کو چھوڑ کر ہر عورت گندی ہے۔ جس پر کیچڑ اچھالنا یہ واجب سمجھتے ہیں۔ 

یہ ایک واقعہ نہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ کئی دہائیوں سے مسلسل کتنی ہی عورتیں اس غلاظت بھری سوچ کا نشانہ بن رہی ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر، کبھی کسی کی جنسی ہوس کا شکار ہوکر، کبھی کسی کی نفسیاتی بیماری کا نشانہ بن کر، کبھی کسی کی انا کی تسکین کے طور پر۔ یہ تو وہ کیسز ہیں جو کسی نہ کسی طور منظر عام پر آ رہے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں چپ چاپ کسی کی ہراسانی، بلیک میلنگ،  اور نفسیاتی، اور جنسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں یا غیرت کے نام پر مار کرگھر کے صحنوں میں دفن کر دی جاتی ہیں۔

ثنا ایک ٹین ایجر بچی تھی، جس کی آنکھوں میں خواب تھے، کچھ شوق تھے۔ کسی قسم کی بری حرکات نہیں کر رہی تھی۔ مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ جس معاشرے میں رہ رہی ہے یہ انسانیت سوز معاشرہ ہے، یہ کسی بھی طرح سے محفوظ نہیں۔ 

وہ اس معاشرے میں رہ رہی تھی جہاں کچھ لوگوں کی جانب سے انکار کو ایک منفی رویہ مانا جاتا ہے۔ نہ تو انکار کرنا سکھایا جاتا ہے نا انکار کو سہنا سکھایا جاتا ہے۔ بلکہ ان کے ہاں ایک عورت کا انکار ان کی مردانگی پہ وار ہے۔ 

پھر یہ کسی نا مرد کی انا پر تازیانہ بن کر، کسی کی جان لے لینے پر ختم ہوتا ہے۔ ایسا ہی ثناء یوسف کے ساتھ ہوا۔

 دوسری حل طلب بات ہے جہالت اور جہالت پر ڈھٹائی۔ اگر اس جہالت کو اپنی حد تک رکھا جائے تب بھی ٹھیک ہے مگر بھئی جو خود دنیا میں رہنے کے قابل نہیں وہ دوسروں کی تقدیروں کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

یہ وہی ہیں  جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ان کی جنسی خواہش دبا کے بیٹھی ہے،  وہ کہہ رہے ہیں کہ ٹک ٹاکر تھی تو اسی قابل تھی کہ مار دی جاتی۔

جب ایک عورت سڑک پہ چلتی ہے تو ان مردوں کی آنکھیں اسکا بھرپور تعاقب کرتی ہیں، جسم تو کیا ! کچھ آنکھیں روح تک کو چیردینے کو بے قرار ہوتی ہیں، اور پھر یہ عورت کے ساتھ ہوئے ہر ظلم کو بے حیائی اور برے کاموں کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔

جبکہ یہ وہی ہیں جو ان کو دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، چاہتے ہیں۔ یہ سڑکوں پہ گاڑیاں روکتے ہیں تبھی عورت سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ان کے دام لگاتے ہیں تو وہ ذریعہ بناتی ہیں۔ انہیں مردوں کے گاہک بننے کی امید ہوتی ہے تو کوٹھوں پہ بیٹھتی ہیں۔ یہ استمعال کرتے ہیں تو وہ استمعال ہوتی ہیں۔ 

 دوسروں کی مرضی پر، ان کے افعال پر، ان کی زندگی پر حق جتانے کی یہ ذہنیت کہاں سے بن کرآ رہی ہے۔ کیا اولاد کی شخصیت کی، ان کی سوچ اور کردار کی صحیح تشکیل دی جا رہی ہے؟

یہاں قصور وار صرف اس معاشرے کی ‘تربیت’ ہے۔  خدارا اسے سمجھیں کہ نسل پیدا کرنے سے بڑی ذمہ داری اس نسل کی تربیت ہے۔ پہلے اپنی نسلوں کو جنس کی تفریق سے بالاترہو کر انسان کی تعظیم کرنا سکھائیں۔

کسی انسان کی شخصی آزادی، اس کی انفرادیت، اس کی مرضی کا احترام کرنا سکھائیں۔ اس کے اقرار کی قدر اور اس کے انکار کا احترام سکھائیں۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکنا سکھائیں، ان کو شعور دیں۔ 

کوئی عورت چاہے ٹک ٹاکر ہو، اداکارہ ہو ،رقاصہ ہو، کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتی ہو، یہاں تک کہ طوائف ہی کیوں نہ ہو اس کی زندگی پر اور اسکی مرضی پر صرف اس کا اور خدا کا حق ہے۔  وہ قابلِ لحاظ ہے ، قابلِ عزت و تکریم ہے ، صرف اس لیے کہ وہ عورت ہے۔ عورت کا پیشہ نہیں، اس کا کام نہیں، اس کی ذات قابلِ عزت ہے، اور عورت کی تعظیم ہی مردانگی کی نشانی ہے۔ 

انسان کی زندگی صرف خدا کی ملکیت ہے۔  جسکا وہ صرف اپنے خدا کو جوابدہ ہے۔ ایک عورت ہی کیا، کسی بھی انسان کی زندگی  پر،  اس کی عزت پر کسی دوسرے انسان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس کی تذلیل کرے یا اسے زندگی کے حق سے محروم کرے، چاہے وہ کسی کے لیے کتنی بھی باعثِ تکلیف اور باعثِ نفرت کیوں نہ ہو۔ 

یہ وہ وقت نہیں ہے جب خاموشی کو اقرار سمجھا جاتا تھا۔ اب اقرار کی گونج سنتی ہے۔ اس کی آواز ہے، اس کے جیسچرز ہیں، اس کی باڈی لینگویج ہے، اس کا ایکسپریشن ہے۔ اب خاموشی بھی انکار ہے۔ ‘نو’ اور ‘نہیں’ ہی نہیں کسی کے چہرے کا خوف، اس کی ہچکچاہٹ، اس کے چہرے کا ماند پڑ جانا اور اس کی انرجی کا گر جانا بھی انکار ہے۔ 

انکار ـــ شخصی حق ہے۔ وہ حق جو ہر انسان کو اپنی مرضی سے اپنی ذات پر، اپنی زندگی پر حاصل ہے۔ ہر انکار صرف انکار ہوتا ہے، جس میں کیوں، اگر، مگر کی بھی گنجائش نہیں کیوں کہ ہر شخص اپنی وجہ رکھتا ہے اور اس تک پہنچنا بھی دوسرے انسان کے لیے ضروری نہیں۔

کیا ثناء یوسف اس صورتحال پر قابو پا سکتی تھی؟  کسی بھی قسم کی ہراسانی، زبردستی یا خطرے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے، اگلے بلاگ میں پڑھیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سعدیہ سویرا

ثنا یوسف ٹک ٹاکر عورت مرد

متعلقہ مضامین

  • نیا بجٹ، نئے ٹیکس: کئی شعبوں پر چھوٹ ختم ! نئے ٹیکسز کن شعبوں پر لگیں گے؟
  • ورلڈ ٹیسٹ چیمپئین شپ؛ آسٹریلیا کو لارڈز میں پریکٹس سے منع کردیا گیا
  • نیا بجٹ، نئے ٹیکس:  کئی شعبوں پر چھوٹ ختم  ! نئے ٹیکسز کن شعبوں پر لگیں گے؟
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لامے کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لیم کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں، مرتضیٰ وہاب
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • ایم کیو ایم کو ہمارے کام سے مرچیں لگتی ہیں تو لگیں، میں کیا کروں: مرتضیٰ وہاب
  • انکار کیوں کیا؟
  • محمد عباس کے انگلش کاؤنٹی ناٹنگھم شائر سے معاہدے میں توسیع