Express News:
2025-07-25@14:12:43 GMT

پیپلز پارٹی کا سیاسی فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

  ایکسپریس رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی نے موجودہ حکومتی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کا فیصلہ کیا ہے جو اتحادی جماعت ہونے کے باعث غیر مناسب بھی سمجھا جائے گا اور موجودہ اپوزیشن یہ کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ پیپلز پارٹی اگر واقعی حکومتی پالیسیوں سے ناخوش ہے تو پی پی کو حکومت کی حمایت چھوڑ دینی چاہیے۔

یہ مطالبہ پی ٹی آئی کے مفاد میں ہو سکتا ہے اور پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مل کر حکومت بھی بنا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں بلاول بھٹو زرداری کے والد آصف زرداری کی خواہش مشروط طور پر پوری بھی ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو نئی حکومت موجودہ حکومت سے کچھ بہتر بھی ثابت ہو سکے گی اور انتقامی اور بدترین بھی کیونکہ اسیر بانی پی ٹی آئی انتقام کے عادی ہیں۔

 2008 میں جب پیپلز پارٹی نے وفاق میں اپنی زیادہ نشستوں کے باعث مجبوری میں (ن) لیگ سے مل کر حکومت بنائی تھی جس میں پنجاب میں پھر شہباز شریف وزیر اعلیٰ بنے تھے تو اس وقت آصف زرداری صدر مملکت تھے اور انھوں نے میاں نواز شریف سے کیے گئے باہمی معاہدے کے بارے میں کہا تھا کہ سیاسی معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ ان پر مکمل عمل کیا جائے، اسی لیے صدر زرداری نے ججوں کی بحالی سے انکار کر دیا تھا جس پر (ن) لیگ، پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی اور پی پی حکومت نے ایم کیو ایم اور (ق) لیگ کو ساتھ ملا کر حکومت قائم رکھی تھی۔

مسلم لیگ (ن) ججز بحالی سے صدر آصف زرداری کے انکار پر پی پی حکومت سے علیحدہ ہو کر اپوزیشن میں چلی گئی تھی مگر اس کی اپوزیشن ماضی جیسی نہیں تھی کیونکہ دونوں پارٹیوں میں لندن میں میثاق جمہوریت تھا اور پی پی حکومت نے پہلی بار اپنی مقررہ مدت پوری کی تھی اور پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ رہے تھے جنھیں ہٹانے میں ناکام رہنے کے بعد صدر زرداری نے پنجاب میں گورنر راج لگا کر (ن) لیگ پر وار ضرور کیا تھا مگر عدالت عالیہ سے (ن) لیگی حکومت بحال ہوگئی تھی اور سندھ اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ تھے اور کے پی میں پی پی نے اے این پی کا وزیر اعلیٰ بنایا ہوا تھا۔

2013 تک پنجاب میں پی پی حکومت نہ ہونے کے باوجود پی پی کی وفاقی اور (ن) لیگ کی پنجاب حکومت میں اتنی دوریاں نہیں تھیں جتنی کے پی میں اب تک کی تین پی ٹی آئی حکومتوں اور وفاق میں (ن) لیگ کی حکومت میں ہیں اور پی پی سندھ اور بلوچستان حکومتوں کے ساتھ انجوائے کر رہی تھی اور آج بھی سندھ، بلوچستان میں پی پی کی حکومت ہے مگر جس طرح وفاقی حکومت پی پی کی حمایت کے بغیر نہیں چل سکتی اسی طرح بلوچستان میں پی پی حکومت مسلم لیگ(ن) کی حمایت کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتی اور ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت کے رویے کے خلاف پی پی نے اس پر کھل کر تنقید کا فیصلہ کیا ہے جو ایک مثبت فیصلہ بھی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کی حمایت سے کیوں بنی، کس نے بنوائی سب کو پتا ہے۔ 2018 میں پی ٹی آئی حکومت (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے بغیر جس طرح بنوائی گئی تھی، اسی طرح مجبور ہو کر پی پی اور (ن) لیگ نے مل کر حکومت بنائی جس میں ملک کا سب سے بڑا صدر مملکت کا عہدہ پی پی کے پاس ہے اور دوسرا بڑا وزیر اعظم کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے اور دس ماہ سے دونوں پارٹیاں مل کر بھی چل رہی ہیں اور دونوں میں اختلافات بھی چل رہے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کرتے آ رہے ہیں جس پر دونوں پارٹیوں کے رہنما پی پی شکایات دور کرنے کے لیے ملتے بھی ہیں مگر پیپلز پارٹی کو (ن) لیگ نہ جانے کیوں مطمئن نہیں کر پا رہی کہ اب پی پی کو یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔

ایک طرف حکومت اور پی ٹی آئی سے مذاکرات چل رہے ہیں جن کی کامیابی کی امید دونوں فریقوں کو بھی نہیں ہے جس پر پی پی رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کو ڈیل کا رنگ نہیں دینا چاہیے اور وزیر دفاع خواجہ آصف کو پی ٹی آئی کی نیت میں فتور نظر آ رہا ہے اور حکومت سے پیپلز پارٹی کی شکایات پر وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا ہے کہ اتحادی حکومت پر ہلکی پھلکی موسیقی چلتی رہتی ہے مگر پی پی نے حکومت پر کھل کر تنقید کا جو فیصلہ کیا ہے۔

اس سے لگتا ہے کہ دونوں پارٹیوں میں اہم مسائل پر اتفاق نہیں ہو رہا اور پیپلز پارٹی جو چاہتی ہے حکومت اسے وہ نہیں دے پا رہی جس سے نقصان حکومت اور (ن) لیگ کو ہی ہو سکتا ہے اور دونوں کو حکومت میں برقرار رکھنے والوں کو بھی دونوں پارٹیوں کے رویوں پر تشویش بھی ہو گی کیونکہ حکومت کے لیے پی ٹی آئی کے مطالبات بھی مسئلہ ہیں جس پر صدر اور وزیر اعظم کو مل کر حل نکالنا ہوگا اور وزیر اعظم کو بھی اپنی وزیر اعلیٰ پنجاب جیسی پالیسی بدل کر پی پی اور اتحادیوں کی مشاورت سے اہم فیصلے کرنے ہوں گے اور پی پی کے تحفظات دور کرنے ہوں گے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

اپوزیشن جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی کا بائیکاٹ، علی امین گنڈاپور کا ردعمل

خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے کل بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں اپوزیشن جماعتوں نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے کانفرنس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی بلائی گئی اے پی سی کا حصہ نہیں بنے گی۔ جے یو آئی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اس کانفرنس کا بائیکاٹ کرے گی۔

یہ بھی پڑھیے: بلوچستان نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس، کیا اہم فیصلے کیے گئے؟

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ کانفرنس تحریک انصاف کی نہیں بلکہ صوبائی حکومت کی جانب سے بلائی گئی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت پہلے ہی تمام فیصلے کرچکی ہے اس لیے اب اے پی سی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اے این پی حکومت کی بلائی گئی کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گی۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر محمد علی شاہ باچا نے کہا کہ صوبائی حکومت غیر سنجیدہ ہے اور آل پارٹیز کانفرنس محض ایک نمائشی اقدام ہے، لہٰذا پیپلز پارٹی اس میں شرکت نہیں کرے گی۔

اپوزیشن جماعتوں کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ امن و امان سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، اے پی سی کا بائیکاٹ سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ بھی پڑھیے: خیبرپختونخوا کو درپیش سیکیورٹی اور گورننس چیلنجز

انہوں نے کہا کہ کل اے پی سی میں بریفنگ دیں گے کہ جب ہماری حکومت آئی تو صوبے کے حالات کیا تھے، جو جماعت اے پی سی میں شرکت نہیں کرے گی ان کا پتا چلے گا کہ انہیں عوام کا کوئی احساس نہیں۔

واضح رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور امن و امان کی خراب صورتحال پر تمام سیاسی جماعتوں کو مدعو کرتے ہوئے کل آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان آل پارٹیز کانفرنس اے پی سی بدامنی خیبرپختونخوا دہشتگردی

متعلقہ مضامین

  • 5اگست کے احتجاج کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آرہا،جس نے پارٹی میں گروہ بندی کی اسے نکال دوں گا،عمران خان
  • خیبرپختونخوا حکومت کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں کن سیاسی جماعتوں نے آنے سے انکار کیا؟
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی آل پارٹیز کانفرنس آج، اپوزیشن کا بائیکاٹ کا اعلان
  • سینیٹ انتخاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے: نعیم الرحمٰن
  • پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت سے انکار
  • پیپلز پارٹی، ن لیگ، جے یو آئی اور اے این پی کا پی ٹی آئی کی اے پی سی میں شرکت سے انکار
  • اپوزیشن جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی کا بائیکاٹ، علی امین گنڈاپور کا ردعمل
  • تین اہم سیاسی جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت سنبھالیں گے یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا. سلمان اکرم راجہ
  • ’’ سیاسی بیانات‘‘