لاس اینجلس میں لگنے والی تاریخ کی خوفناک اوربے قابو آگ نے درختوں سمیت گھروںکو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے چھوٹی تصویر میں ایک جوڑا خاکستر ہونے والے مکان کو دیکھ کر افسردہ ہے

کیلی فورنیا(مانیٹرنگ ڈیسک،خبر ایجنسیاں) امریکا میں جہنم کا منظر۔ 10ہزار سے زایدگھرجل گئے،150ارب ڈالر کانقصان۔ایسا لگتا ہے ’’ایٹم بم ‘‘گرادیا گیا ہو‘حکام پریشان۔غزہ میں قتل عام کاحامی اداکار اپنا عالیشان گھرراکھ ہونے پر لائیو شو میں رو پڑا۔تفصیلات کے مطابقامریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس کے جنگل میں لگنے والی آگ پر دو روز گزر جانے کے باوجود قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق جنگل میں خوفناک
آتشزدگی سے ہلاکت خیزی کو دیکھتے ہوئے نیشنل گارڈ کو بھی طلب کریا گیا۔صرف پیسیفک پیلیسیڈس میں آگ نے تقریباً 20 ہزار ایکڑ جنگلات کو جلا کر بھسم کردیا جب کہ الٹاڈینا کے آس پاس ایک اور آگ نے 13 ہزار 700 ایکڑ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔گزشتہ شب کلاباساس اور امیر پوشیدہ ہلز انکلیو کے قریب بھی آگ بھڑک اٹھی تھی جو دنیا کی سب سے مہنگی پراپرٹی کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ان علاقوں میں کم کارڈیشین، پیرس ہلٹن، انتھونی ہاپکنز اور بلی کرسٹل جیسی مشہور شخصیات کے گھر ہیں اب جہاں ویرانی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔کینتھ فائر چند گھنٹوں کے اندر تقریباً ایک ہزار ایکڑ تک پھیل گئی۔ اب تک مجموعی طور پر ان علاقوں سے ایک لاکھ 80 ہزار افراد بے گھر ہوگئے۔آگ بجھانے کے لیے درجنوں فائر بریگیڈ کی گاڑیاں اور عملہ چوبیس گھنٹے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہوائیں آگ کو مزید پھیلا رہی ہیں۔تیز ہوائوں کے تھمنے پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے آگ بجھانے کے لیے پانی اور کیمیکل کا چھڑکائو کیا جاتا ہے تاہم مختصر وقت کے لیے کی گئی اس کارروائی سے اب تک موثر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔آتشزگی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 سے زائد ہوگئی جب کہ زخمیوں کی تعداد 20 کے قریب ہے۔ متعدد افراد کو دھوئیں کے باعث دم گھٹنے کی شکایت پر اسپتال لایا گیا ہے۔ امریکی تاریخ میں اس آگ کو سب سے مہنگی آفت قرار دیا جا رہا ہے جس میں آگ سے نقصان کا ابتدائی تخمینہ 150 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق فائر حکام کا کہنا ہے کہ10 ہزار سے زائد گھر اور عمارتیں تباہ ہو چکے جبکہ 4 سے 5 ہزار مکانات کو نقصان پہنچا ہے، آتشزدگی کے باعث انشورنس انڈسٹری کو تقریباً 8 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہواہے۔امریکی میڈیا کے مطابق منگل سے لگی آگ نے 36 ہزار ایکڑ سے زائد رقبے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس وقت جنگلات میں 5 مختلف مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے جبکہ آسٹریلین حکام نے لاس اینجلس حکام کو مدد کی پیشکش کی ہے۔ دوسری جانب صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ لاس اینجلس میں آگ سے تباہی پر 6 ماہ تک 100 فیصد اخراجات اٹھائیں گے۔امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق شہر کے 10 ہزار سے زائد مکانات خاکستر ہو چکے ہیں، بڑے علاقے میں بلند شعلے اب بھی اٹھ رہے ہیں، جن میں سے زیادہ تر پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔لاس اینجلس کے شیرف رابرٹ لونا کا کہنا ہے کہ آگ سے متاثرہ علاقے دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان علاقوں میں ’ایٹم بم گرایا گیا ہے‘۔رابرٹ لونا نے جمعرات کو نیوز کانفرنس میں کہا کہ اگرچہ میں آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ 5 افراد ہلاک ہوچکے، لیکن یہ میرے ہونٹوں سے نکل رہا ہے، میں اس نمبر کے بارے میں پریشان ہوں۔شیرف نے کہا کہ وہ دعا کر رہے ہیں کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو، لیکن جو تباہی واضح ہے اس کی بنیاد پر ’اچھی خبر‘ کی توقع نہیں ہے۔موسم اور اس کے اثرات کے بارے میں ڈیٹا فراہم کرنے والی نجی کمپنی ’ایکو ویدر‘ نے گزشتہ روز آگ سے مالی نقصان کے تخمینے کو 150 ارب ڈالر تک بڑھا دیا ہے۔اس سے قبل کمپنی نے اندازہ لگایا تھا کہ نقصان 57 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔لاس اینجلس کے جنگل میں لگی آگ پھیلنے سے ہالی وڈ کے مشہور اداکاروں اور اداکاراؤں کے گھروں کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ کے مطابق اداکار انتھونی ہاپکنز، اینا فارس، مینڈی مور، رکی لیک اور یوجین لیوی کی جائیدادیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں۔گھر سے محروم ہونے والوں میں مشہور شخصیت بلی کرسٹل بھی شامل ہیں، جو 46 سال سے اس گھر میں رہ رہے تھے، جو آگ سے مکمل تباہ ہوگیا۔پیرس ہلٹن کا 84 لاکھ ڈالر مالیت کا ساحل سمندر والا گھر بھی جل گیا، جس کی فوٹیج دیکھنے کے بعد اداکارہ نے گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ حکام کا کہنا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ہلاک افراد کی اصل تعداد کیا ہوگی، آگ کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔دوسری جانب آتشزدگی کے باعث خالی گھروں میں ڈکیتوں کی جانب سے لوٹ مار کا سلسلہ بھی جاری ہے اور پولیس نے اب تک گھروں میں لوٹ مار کرنے والے 20 ملزمان کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ خوفناک آگ پر قابو پانے کے لیے فائر فائٹرز کو کیلیفورنیا کے جیل نظام سے بھی مدد مل رہی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق لاس اینجلس میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے تقریباً 14 ہزار فائر فائٹر کام کررہے ہیں جن میں تقریباً 400 قیدی بھی شامل ہیں۔امریکی اخبار کے مطابق فی الحال ریاست کیلیفورنیا کی فائر فائٹنگ فورس کا تقریباً 30 فیصد حصہ قیدیوں پر مشتمل ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے لاس اینجلس میں آگ لگنے سے ہونے والی تباہی پر اگلے 6 ماہ تک 100 فیصد اخراجات اٹھانے کا اعلان کردیا۔غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق لاس اینجلس کے جنگلات میں لگنے والی آگ پر بریفنگ کے دوران صدر بائیڈن نے کہا کہ فنڈنگ کی رقم سے متاثرہ علاقوں سے ملبہ ہٹایا جائے گا، عارضی پناہ گاہیں قائم کی جائیں گی، ریسکیو ورکرز کی تنخواہوں سمیت جان و مال کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات پورے کیے جائیں گے۔صدر جو بائیڈن نے کہا کہ تعمیراتی کام کے لیے اضافی فنڈز پاس کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس کے لیے وہ کانگریس سے اپیل کریں گے۔دوسری جانب نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گورنرکیلیفورنیا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کے خوبصورت ترین علاقوں میں سے ایک جل کر راکھ ہوگیا،ذمہ دار ڈیموکریٹ گورنر نیوسم ہیں۔علاوہ ازیںنیوز چینل سی این این کے لائیو شو میں آسکر ایوارڈ کے لیے 2 بار نامزد ہونے والے اور 3 ایمی ایوارڈز کے فاتح جیمز ووڈ یہ بتاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے کہ ان کا عالیشان گھر جل کر خاکستر ہوگیا۔جیمز ووڈ کا گھر بھی لاس اینجلس کے جنگلات سے گھرے پْرفضا مقام پیسیفک پیلیسیڈز پر واقع تھا جو دیگر متعدد شوبز ستاروں کا بھی مسکن ہے۔جیمز ووڈ نے روہانسے ہوتے ہوئے انٹرویو میں کہا کہ کیسا المیہ ہے، ایک دن آپ گھر کے سوئمنگ پول میں نہا رہے ہوتے ہیں اور اگلے ہی روز پورا گھر راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے۔یاد رہے کہ یہ وہی امریکی اداکار ہیں جنھوں نے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فلسطینی نسل کشی پر حوصلہ افزائی کی تھی۔جیمز ووڈ نے اْس وقت اپنی ٹوئٹس میں لکھا تھا کہ ان سب کو مار ڈالو، شاباش نیتن یاہو، آپ نے امریکی کٹھ پتلیوں کی ایک نہ سنی۔ غزہ پر حملے جاری رکھیں۔سی این این انٹرویو میں جیمز ووڈ کی روتے ہوئے ویڈیو وائرل ہوئی تو صارفین نے اداکار کو یاد دلایا کہ کس طرح وہ مجبور اور بے کس غزہ کے فلسطینیوں پر مظالم پر خوش ہوا کرتے تھے۔سوشل میڈیا صارفین نے پوچھا کہ ظلم کی حمایت کرنے پر پچھتاوا تو ہوتا ہوگا؟ بے گھر ہونے کی تکلیف اور اپنے گھر کو اپنے سامنے جلتا دیکھ کر فلسطینی یاد تو آتے ہوں گے۔دریں اثناء آگ معروف تاجروں اور شوبز ستاروں کے مہنگے محلات تک پہنچ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے عالیشان گھر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لاس اینجلس کے پْرتعیش علاقے پیسیفک پیلیسیڈز میں امریکا کی مشہور شخصیات کے قیمتی محلات ہیں۔گلوکارہ اور اداکارہ پیرس ہلٹن کا بھی ایسے ہی گھروں میں شامل ہے جو آتشزدگی میں تباہ ہوگئے۔ 15 بار آسکر کے لیے نامزد ہونے والی گیت نگار ڈیان وارن کا بیچ ہاؤس بھی راکھ ڈھیر بن گیا۔ اداکارہ اینا فیرس کا گھر مکمل طور پر جل گیا۔ جمز ووڈ، رکی لیک، یڈی مونٹگ اور اسپینسر پراٹ کے گھر بھی خوفناک آتشزدگی میں راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ اسی طرح مائلز ٹیلر اور ان کی اہلیہ کیلیگ کا 75 لاکھ ڈالر مالیت کا گھر بھی جل گیا۔اداکارہ مینڈی مور کو اپنا جلتا ہوا گھر چھوڑ چھاڑ کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ اداکار بین افلیک کا بھی 20 لاکھ ڈالر کا گھر بھی نذر آتش ہوگیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: لاس اینجلس میں لاس اینجلس کے بائیڈن نے ا تشزدگی کے مطابق گھر بھی کا گھر کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض

زرمبادلہ کے ذخائر ایک ایسی کہانی ہے جس پر حکومتوں کی سانسیں اور قوم کی امیدیں ٹکی رہتی ہیں اس پر گہری نظر رکھنے والے امپورٹرز بھی ہوتے ہیں کیونکہ ذخائر جتنے زیادہ ہوں گے، روپے کی قدر کو اسی قدر استحکام ملے گا۔ لیکن اسے غارت کرنے میں درآمدات کا ہی ہاتھ ہوتا ہے ملک پر اتنا زیادہ درآمدی بل کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے کہ زرمبادلہ ذخائر کی بلند سطح گرنے لگتی ہے۔

اس وقت ملک کے طول و عرض میں یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر 19.9 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اس سے قبل گزشتہ دہائی میں ذخائر 6 ارب ڈالر تک بھی جا پہنچے تھے۔ جب ڈالر اڑنے لگا اور روپیہ تیزی سے گرنے لگا تھا، پھر کہیں یہ ذخائر 24 ارب ڈالر تک جا پہنچے تھے تو حکومت کامیابی کے دعوے کر رہی تھی کہ اچانک معلوم ہوا کہ درآمدات اتنی زیادہ ہو چکی ہیں جوکہ ذخائر کو کھا رہی ہیں۔

اب جب کہ اسٹیٹ بینک کے پاس 13.5 ارب ڈالر ہیں اور کمرشل بینکوں کے پاس 6.4 ارب ڈالر کا ذخیرہ ہے، اس کا پہلا باب آئی ایم ایف کی مہربانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی قسط آئی ہے، دوسری طرف اس قسط کا بڑا حصہ بیرونی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے کوئی دریا بھرا ہو اور اگلے لمحے سمندر میں بہہ گیا، یعنی دریا جیسا پہلے خالی تھا اسی طرح قرض لینے کے بعد ادائیگی کرکے پھر خالی ہاتھ رہا۔

پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ درآمدی بل کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ پھر درآمدات گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہوئے چلی جا رہی ہیں جس کا ابھی تک کوئی شافی علاج تجویز نہیں کیا جا سکا۔ غذائی درآمدات کا تعلق زراعت سے گہرا ہے۔

اس مرتبہ اس بات کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید 25 یا 30 لاکھ ٹن گندم کی پیداوار کم ہوگی جس کے لیے پھر درآمد کنندگان درآمد کرکے منافع کمانے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ اتنی گندم کی درآمد جب چند سال قبل 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تو ایک ارب ڈالر خرچ ہوگئے تھے۔ اس مرتبہ یہ تو سوچا جا رہا ہے کہ گندم کی پیداوار کم ہوگی اور درآمد کی ضرورت پیش آئے گی۔

گندم کی 8 فی صد یا 10 فی صد کمی کا آسان علاج ہے۔ ہر وہ جگہ جوکہ قابل کاشت ہو سکتی ہے، وہاں پر گندم کی کاشت کرکے اس کمی کو دور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر مقام پر خالی قطعہ زمین وافر مقدار میں موجود ہے کسی طرح سے اس پر گندم کی کاشت کی جائے۔ خاص طور پر بعض علاقے ایسے ہیں جہاں گندم کی کاشت ممکن ہے مجھے نورپور تھل قصبہ ’’چن‘‘ کے زمیندار فہیم راجپوت نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کبھی سفیدے کے درخت لگائے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج حاصل ہوئے۔

لیکن اب سفیدے کے درختوں کی زیادتی کے باعث گندم کی فصل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس کے باعث پہلے کے مقابلے میں گندم کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ اس طرح کے بھی مسائل ہیں محکمہ ریلوے اور دیگر محکموں کے پاس وافر مقدار میں زمین موجود ہے جس پر گندم کاشت کی جا سکتی ہے۔ ہمیں درآمدات کے لیے بھی قرض لینا پڑتا ہے اس طرح ملک اور عوام پر قرض کا بار بڑھتا چلا جا رہا ہے اور پھر ڈالرز میں اس کی ادائیگی حکومت کے لیے چیلنج بن جاتی ہے۔

رواں مالی سال 23 ارب ڈالرز کی ادائیگی حکومت کے لیے ایک چیلنج بن کر رہ جائے گی۔ اتنی رقم کی ادائی کے لیے معیشت پر بہت بڑا بوجھ پڑے گا اور اس بوجھ کا بیشتر حصہ ترقیاتی منصوبے برداشت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں پر ایسے منصوبے بھی ہیں جو کئی سالوں سے زیر التوا ہیں۔ کہیں تمام منصوبے مکمل کرنے کے بعد معمولی کام کے رہنے کے باعث پورا منصوبہ ہی جام کر دیا جاتا ہے۔

اب ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے لیے اس مرتبہ امداد بہت کم رکھی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے سیلاب کے بعد بحالی کی خاطر بہت کچھ کرنے کے منصوبے ہیں لیکن حکومت کو ان منصوبوں کے مکمل کرنے کی خاطر اچھی خاصی رقوم درکار ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے ملک کے مختلف منصوبوں کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں، پھر ان معلومات کی روشنی میں جو منصوبے اعلان کر دیے گئے ہیں اولین ترجیح ایسے منصوبوں کے لیے دینی چاہیے اور ایسے منصوبے جیسا کہ پانی کی سپلائی قائم کرنے کے لیے K-4 کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح سرکولر ٹرین کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے جسے چلانے کے لیے ان علاقوں کے لوگ اپنی حیثیت کے مطابق سرکار کے ساتھ تعاون کریں۔

یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کی معیشت پر سیلاب کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔البتہ حکومت پاکستان نے اس سلسلے میں فوری اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 5.8 ارب روپے کا فوری ریلیف پیکیج منظور کیا گیا ہے اور 4 ارب روپے فوری جاری کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی صوبائی سطح پر امدادی پیکیج کی منظوری دی ہے مزید یہ کہ 2855 دیہاتوں کے لیے آبیانہ اور زرعی آمدنی ٹیکس معاف کرنے کا کہا گیا ہے۔

وزیر اعظم نے اعلان کیا ہے کہ سیلاب متاثرین کے گھروں کے بجلی کے بل برائے اگست معاف کر دیے گئے ہیں۔ بیرونی امداد کے سلسلے میں ایشیائی ترقیاتی بینک نے 3 ملین ڈالر کی ایمرجنسی گرانٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یعنی 30 کروڑ وفاقی حکومت کو فوری ملنے کا امکان ہے۔ حکومت کو ماحولیاتی مزاحمت اور تیاری کے طریق کار لائحہ عمل اور منصوبے کا اعلان کرنا چاہیے اور تمام شہریوں کو اس میں شمولیت آگاہی پروگرام تیاری اور دیگر اقدامات سے آگاہ کرنا چاہیے۔

اس وقت ایک بار پھر قرض کا مسئلہ اور زرمبادلہ کے برائے نام بڑھتے ذخائر کا کس طرح سے استعمال کیا جائے یہ مسئلہ اہم ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے غیر ضروری اخراجات جس سے ڈالر کی برآمد ہوتی ہے یعنی بعض اوقات درآمد کے ذریعے ڈالر جاتا ہے اور کبھی بہت سی غیر ملکی کمپنیاں اپنا منافع ڈالر کی شکل میں لے کر چلے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ جتنے بھی تجارتی معاہدے کیے جائیں اس بات کو ترجیح دی جائے کہ بارٹر سسٹم کا استعمال ہو، یعنی ہم ان سے جو چیز خریدیں اس کے بدلے میں اپنا مال ان کو دیں۔ اس طرح مال دے کر مال حاصل کرنے سے ڈالر کی بچت ہو گی اور یوں جتنے بھی زرمبادلہ اسٹاک میں ہوں گے اس کا انتہائی مناسب استعمال کیا جاسکے گا۔ اس طرح بار بار ڈالر کو اڑان کا موقع نہیں ملے گا اور بار بار روپے کی کم قدری نہیں ہوگی، لہٰذا اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں معمولی اضافہ ہوا ہے تو اب خرچ میں بھرپور احتیاط کی جائے تو یہ معاشی استحکام کا ذریعہ بن سکتا ہے اور زیادہ قرض لینے کی ضرورت میں کمی واقع ہو کر رہے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ’تمام سوشل میڈیا کریئیٹرز جہنم میں جلیں گے‘، اداکار زاہد حسین نے اپنے بیان کی کیا وضاحت کی؟
  • امریکا کے 10 امیر ترین افراد کی دولت میں ایک سال میں 700 ارب ڈالر کا اضافہ، آکسفیم کا انکشاف
  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض
  • اسرائیلی فوج نے فوجی پراسیکیوٹر کو ہٹا دیا
  • وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا: اختیار ولی
  • ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
  • سونے کی قیمت میں کمی کا تسلسل برقرار،مزید فی تولہ 1600روپے سستا
  • سعودی عرب سے فنانسنگ سہولت، امارات سے تجارتی معاہدہ؛ پاکستانی روپیہ مستحکم ہونے لگا
  • بھارتی پروپیگنڈے کا نیا حربہ ناکام، اعجاز ملاح کا اعترافی بیان منظر عام پر، عطا تارڑ و طلال چوہدری کی مشترکہ پریس کانفرنس