پاکستان اسٹاک ، اتار چڑھائو کے بعد تیزی کا رجحان غالب
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں کاروباری ہفتے کے پانچویں دن اتار چڑھاو کے بعد تیزی کا رجحان غالب آگیا،انڈیکس 600پوائنٹس بڑھ کر1لاکھ13ہزارکی نفسیاتی حد پر بحال ہو گیااور مارکیٹ کے سرمائے میں 73ارب روپے سے زاید کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ 48.44فیصد حصص کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔جمعہ کو کاروبار کا آغاز مثبت ہواتاہم کچھ دیر بعد ہی مارکیٹ منفی زون میں چلی گئی اور انڈیکس 1لاکھ12ہزار13پوائنٹس کی پست سطح پر ٹریڈ ہوتا دیکھا گیا بعد ازاں کم قیمت حصص کی خریداری بڑھنے سے مارکیٹ میں تیزی کارجحان غالب آگیااور کاربار کا اختتام مثبت ہوا۔ماہرین کے مطابق انفلیشن کم ہونے سے اگلی مانیٹری پالیسی میں شرح سودمزید کم ہو جائے گا۔اسٹاک مارکیٹ میں جمعہ کو کے ایس ای 100انڈیکس میں 609پوائنٹس کااضافہ ہواجس سے انڈٰکس 1لاکھ12ہزار638 پوائنٹس سے بڑھ کر1لاکھ13ہزار247پوائنٹس ہو گیا اسی طرح 253پوائنٹس کے اضافے سے کے ایس ای 30انڈیکس 35ہزار711پوائنٹس پر بند ہوا جبکہ کے ایس ای آل شیئرز انڈیکس 69ہزار946پوائنٹس سے بڑھ کر 70ہزار 317 پوائنٹس پرجا پہنچا۔جمعہ کو مارکیٹ میں 24ارب روپے مالیت کے49کروڑ98لاکھ46ہزار حصص کے سودے ہوئے جبکہ جمعرات کو 24ارب روپے مالیت کے 69کروڑ51لاکھ42ہزار حصص کے سودے ہوئے تھے۔گذشتہ روزمارکیٹ میں 450کمپنیوں کا کاروبار ہوا جس میں سے 177کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ،218میں کمی اور55کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں استحکام رہا۔کاروبار کے لحاظ سے ورلڈ کال ٹیلی کام،فوجی فوڈز لمیٹڈ،سنر جیکو پاک ،پیس پاک لمیٹڈاور کے الیکٹرک لمیٹڈ سر فہرست رہے۔قیمتوں میں اتار چڑھاو کے اعتبار سے نیسلے پاکستان لمیٹڈ کابھاو351.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مارکیٹ میں حصص کی
پڑھیں:
لاہور میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی نے شدید گرمی کے بحران کو سنگین بنا دیا
کبھی لاہور کے باسی چاروں موسموں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ خوشگوار گرمی، خنک خزاں، سردیاں اور بہار کی رونقیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں تیزی سے بڑھتی شہری آبادی اور موسمیاتی تبدیلیوں نے شہر کو صرف دو موسموں، دم گھٹاتی اسموگ اور جھلسا دینے والی گرمی تک محدود کر دیا ہے۔
پنجاب کے مختلف اضلاع سمیت لاہور میں شدید گرمی کی نئی لہر کا آغاز ہو چکا ہے اور محکمہ موسمیات نے آئندہ دس دنوں کے دوران غیر معمولی درجہ حرارت کی پیش گوئی کی ہے۔ اپریل میں عمومی طور پر درجہ حرارت 30 سے 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے، تاہم پچھلے چند سالوں میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اپریل 2020 میں اوسط درجہ حرارت 33 ڈگری تھا، جو 2021 میں 35، 2022 میں 42، 2023 میں 35 اور 2024 میں 37 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔ رواں برس 2025 میں یہ درجہ حرارت 40 ڈگری تک پہنچنے کا امکان ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں بڑھتی آبادی اور تیز رفتار تعمیرات درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔ تحقیق کے مطابق 1990 سے 2020 کے دوران شہر کے بڑے حصے پر موجود سبزہ ختم ہو کر کنکریٹ، سڑکوں اور عمارتوں میں تبدیل ہو گیا۔ 2010 سے 2017 کے درمیان لاہور کا 70 فیصد درختوں کا احاطہ ختم ہو چکا ہے۔
پنجاب اربن یونٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں میں لاہور کا تعمیراتی رقبہ 438 مربع کلومیٹر سے بڑھ کر 759 مربع کلومیٹر تک جا پہنچا ہے جبکہ شہر کے مجموعی رقبے کا صرف 2.8 فیصد حصہ اب سبزہ زاروں پر مشتمل ہے۔ درختوں کی کٹائی کے باعث لاہور ’’اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ‘‘ کا شکار ہو چکا ہے، جہاں عمارتیں اور سڑکیں دن بھر گرمی جذب کر کے رات کو اسے آہستہ آہستہ خارج کرتی ہیں، جس سے درجہ حرارت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
محکمہ موسمیات کے ماہرین نے عالمی حدت، سبزہ زاروں کی کمی، صنعتی آلودگی اور ناقص شہری منصوبہ بندی کو گرمی کی لہروں کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ جامعہ پنجاب کے پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ ’’جب کئی دن تک درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہتا ہے اور قدرتی ٹھنڈک کے ذرائع موجود نہ ہوں، تو گرمی کی شدت مزید بڑھ جاتی ہے۔‘‘
شدید گرمی کی ممکنہ لہر کے پیش نظر، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے شہریوں کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں۔
شہریوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ دن 11 بجے سے 4 بجے کے دوران غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، زیادہ پانی پئیں، ہلکے اور ڈھیلے کپڑے پہنیں، ٹھنڈے مشروبات استعمال کریں اور بچوں و بزرگوں کا خصوصی خیال رکھیں۔ گرمی کی شدت سے چکر آنا، بخار، نقاہت، متلی یا بے ہوشی کی شکایت ہو تو متاثرہ شخص کو فوراً سائے میں لے جاکر پانی یا او آر ایس پلایا جائے، اور ضرورت پڑنے پر طبی امداد حاصل کی جائے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ عارضی احتیاطی تدابیر وقتی ریلیف تو دے سکتی ہیں، لیکن اس سنگین ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مستقل اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں، جن میں سبزہ زاروں کا تحفظ، نئے درختوں کی شجر کاری، موسمیاتی تبدیلی کو شہری منصوبہ بندی کا حصہ بنانا اور عوامی آگاہی شامل ہیں۔
اگر فوری اور جامع اقدامات نہ کیے گئے، تو گرمی کی یہ شدید لہریں لاہور جیسے بڑے شہروں میں معمول کا حصہ بن سکتی ہیں، جس کے اثرات نہ صرف انسانی صحت بلکہ معیشت، زراعت اور شہری زندگی کے دیگر شعبوں پر بھی مرتب ہوں گے۔