اسلام آباد (خصوصی رپورٹر)  فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا  آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنادی جاتی ہے؟۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ 9 مئی کے مقدمات میں دفعات اے ٹی سی کی لگیں، پھر فوجی ٹرائل کیسے ہوگیا؟۔ سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بنچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق مقدمہ کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جمعہ کے روز بھی دلائل دیے۔  عدالتی کارروائی کے آغاز پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے طریقہ کار پر مطمئن کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو آفیسر ٹرائل چلاتا ہے کورٹ میں وہ خود فیصلہ نہیں سناتا، ٹرائل چلانے والا افسر دوسرے بڑے افسر کو کیس بھیجتا ہے وہ فیصلہ سناتا ہے، جس آفیسر نے ٹرائل سنا ہی نہیں وہ کیسے فیصلہ دیتا ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے 34 سال اس شعبے میں ہوگئے مگر پھر بھی خود کو مکمل نہیں سمجھتا، کیا اس آرمی افسر کو اتنا تجربہ اور عبور ہوتا ہے کہ سزائے موت تک سنا دی جاتی ہے۔ آرمی ایکٹ کا اطلاق صرف فوج پر ہوتا ہے، فوجی افسران کو بنیادی حقوق اور انصاف ملتے ہیں یا نہیں ہم سب کو مدنظر رکھیں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ اس نکتے پر بھی وضاحت کریں کہ فوجی عدالت میں فیصلہ کون لکھتا ہے؟ میری معلومات کے مطابق کیس کوئی اور سنتا ہے اور سزا جزا کا فیصلہ کمانڈنگ افسر کرتا ہے، جس نے مقدمہ سنا ہی نہیں وہ سزا جزا کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟۔ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ فیصلہ لکھنے کے لیے جیک برانچ کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ نے کوئی مثال دی تھی کہ امریکا میں بھی فوجی ٹرائل ہوئے، اگر کسی اور ملک میں ایسا ٹرائل ہوتا ہے تو جج کون ہوتا ہے؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پوری دنیا میں کورٹ مارشل میں آفیسر ہی بیٹھتے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل میں بیٹھنے والے افسران کو ٹرائل کا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال پوچھا ایک آرمی چیف کے طیارے کو ایئرپورٹ کی لائٹس بجھا کر کہا گیا ملک چھوڑ دو، اس واقعہ میں تمام مسافروں کو خطرے میں ڈالا گیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جو بندہ جہاز میں موجود نہیں تھا وہ ہائی جیک کیسے کر سکتا تھا؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس جہاز میں تھوڑا سا ایندھن باقی تھا پھر بھی رسک پر ڈالا گیا۔ خواجہ حارث نے کہا میں یہاں سیاسی بات نہیں کروں گا مگر بعد میں سپریم کورٹ نے جائزہ لیا تھا، سپریم کورٹ نے تسلیم کیا تھا جہاز میں کافی ایندھن باقی تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اس ایک واقعہ کے باعث ملک میں مارشل لا لگ گیا لیکن مارشل لا کے بعد بھی وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چلا۔ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ہائی جیکنگ آرمی ایکٹ میں درج جرم نہیں، اسی لیے وہ ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ چلیں اس نکتے پر فرق واضح ہو گیا آگے چلیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ٹھہریں ایک سوال اور اس میں بنتا ہے، اگر ہائی جیک جنگی یا فوجی طیارے کو کیا جائے پھر ٹرائل کہاں چلے گا؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ نو مئی واقعات میں کل ملزمان پانچ ہزار کے قریب تھے، جن 105 ملزمان کو فوجی عدالتوں میں لے کر جایا گیا۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ صرف ان افراد پر لاگو ہوتا ہے جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں، ہر دہشتگرد پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا تعزیرات پاکستان اور اے ٹی اے کے تحت درج مقدمات پر کارروائی فوجی عدالت کیسے کر سکتی؟۔ جو تین ایف آئی آرز کی کاپی ہمیں دی گئی ہے ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تفتیش کے بعد مزید دفعات شامل کی جا سکتی ہیں۔ خواجہ حارث نے بتایا کہ جب ملزم فوجی تحویل میں جائے تو وہاں تفتیش کا اپنا نظام ہے۔ مجموعی طور پر 9 مئی کے 35  ایف آئی آرز اور 5 ہزار ملزمان ہیں۔ فوجی عدالتوں میں صرف ان 105 افراد کا ٹرائل ہوا جن کی موجودگی ثابت تھی۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: خواجہ حارث نے کہا فوجی عدالتوں میں خواجہ حارث نے کہ فوجی عدالت سپریم کورٹ آرمی ایکٹ نے کہا کہ ہوتا ہے

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی

اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ کا عمر قید کی سزا کا فیصلہ برقرار رکھا۔ مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ میاں بیوی میں جھگڑا نہیں تھا تو ساس سسر کو قتل کیوں کیا؟ دن دیہاڑے 2 لوگوں کو قتل کر دیا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ بیوی ناراض ہوکر میکے بیٹھی تھی۔  ملزم کے وکیل پرنس ریحان نے عدالت کو بتایا کہ میرا موکل بیوی کو منانے کے لیے میکے گیا تھا۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب آپ تو لگتا ہے بغیر ریاست کے پرنس ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ 2 بندے مار دیے اور ملزم کہتا ہے مجھے غصہ آگیا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے سوال کیا کہ بیوی کو منانے گیا تھا تو ساتھ پستول لے کر کیوں گیا؟۔  جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ مدعی بھی ایف آئی آر کے اندراج میں جھوٹ بولتے ہیں۔ قتل شوہر نے کیا،  ایف آئی آر میں مجرم کے والد خالق کا نام بھی ڈال دیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو۔

واضح رہے کہ مجرم اکرم کو ساس سسر کے قتل پر ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی جب کہ لاہور ہائیکورٹ نے سزا کو سزائے موت سے عمرقید میں تبدیل کردیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے قتل کے مجرم سجاد کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی