Jasarat News:
2025-06-10@01:33:27 GMT

مہنگی بجلی، جماعت اسلامی کا احتجاج اور حکومت

اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT

مہنگی بجلی، جماعت اسلامی کا احتجاج اور حکومت

جماعت اسلامی نے بجلی کے بل کم نہ ہونے پر سترہ جنوری کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے، منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیر اعظم اڑان پاکستان اور اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس بہتر ہونے کی خوشخبری تو دے رہے ہیں لیکن پٹرول، کھانے پینے کی اشیا کیوں سستی نہیں ہوئیں، معاشی حالات بد سے بدترین ہو رہے ہیں۔ آئی پی پیز کا مسئلہ اٹھانے، دھرنوں و احتجاج سے 5 آئی پی پیز بند کرنے اور 18 سے بات چیت کا دعویٰ کیا گیا، آئی پی پیز بند ہونے کے باوجود بجلی کے بل کم کیوں نہیں ہو رہے۔ حکومت صرف اعلانات کرتی ہے بجلی قیمتیں کم نہیں کرتی، فیصلہ کیا ہے کہ اپنی احتجاجی تحریک کو از سر نو شروع کریں، حکومت صنعت کاروں کو تباہ کر کے دو ہزار ارب روپے آئی پی پیز کو دے رہی ہے اور انہیں انکم ٹیکس سے بھی مستثنیٰ کر دیا۔ تنخواہ دار تو انکم ٹیکس دے لیکن آئی پی پیز والے نہ دیں جو بہت بڑا ظلم ہے۔ ملک میں بدترین سرمایا دارانہ نظام ہے، یہ طبقہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں میں ہوتا ہے اور مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی جماعت کا ایجنڈا نہیں کہ آئی پی پیز اور عوامی مسائل پر بات کرے۔ فارم 45 والے ہوں یا 47 والے، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مقتدرہ کے لوگ ہر جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور عوام کا خون چوستے ہیں۔ ادھر وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں موقف اختیار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیپٹو پاور پلانٹس پر بات چیت کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت 10 سے 12 روپے فی یونٹ کم کر سکتے ہیں، خواہش ہے بجلی کا ریٹ 50 روپے کم ہو جائے۔ بگاس کے 8 پلانٹس کا جائزہ لینے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ مزید 16 پلانٹس کی نظر ثانی بھی کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد حکومتی پلانٹس کے ریٹرن آن ایکویٹی کی باری آئے گی۔ اس ماہ کے آخر تک کیپٹو پلانٹس کا معاملہ حل ہو جائے گا۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی 4 روپے تک سستی ہو چکی ہے۔ اویس لغاری نے کہا آئندہ پانچ سے سات سال میں کے الیکٹرک کا 500 ارب روپے منافع مانگا جا رہا ہے، ہمارے خیال میں یہ ناجائز ہے، اس سے خیبر پی کے کا صارف بھی متاثر ہو گا۔ بجلی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور مزید کم ہوں گی۔ مزید 15 آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدے وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں لے کر جا رہے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اویس لغاری نے کہا اب تک 1100 ارب روپے کی بچت کر چکے ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں اب حکومتی پاور پلانٹس کی باری ہے۔ تمام آئی پی پیزکے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔ نظر ثانی کے بعد عوام کو بہت اچھی بچت ہو گی۔ کے الیکٹرک نے ملٹی ائر ٹیرف کی مد میں بہت بڑی رقم مانگی ہے۔ میرے خیال میں یہ ملٹی ائر ٹیرف اتنا نہیں بنتا، بہت کم ہونا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیپرا پاکستان کے عوام کا مفاد مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا۔ جماعت اسلامی کا بجلی کے بلوں میں کمی نہ ہونے کے خلاف احتجاج کا فیصلہ نہایت بروقت اور ملک کے 24 کروڑ مظلومین کے دل کی آواز ہے۔ یوں تو تمام سیاسی جماعتیں عوام کی نمائندگی کی دعویدار ہیں اور عوام، عوام کی گردان کرتے نہیں تھکتیں تاہم اگر عملی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ملک کے غریب عوام کی ترجمان اور حامی صرف جماعت اسلامی ہے، جو ہر مشکل کے وقت عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور غریبوں کے حقوق کے لیے جرأت اور ہمت سے آواز بلند کرتی ہے۔ ابھی چند ماہ قبل جماعت کے کارکنوں نے بجلی کے صارفین کو ناقابل برداشت بلوں میں خاطر خواہ کمی اور مہنگائی و بے روزگاری سمیت غریب عوام کے دیگر مسائل کے حل کی خاطر راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے کئی روز تک دھرنا دیا، جس کے دبائو سے مجبور ہو کر وفاقی کابینہ کے تین ارکان نے جماعت کی قیادت سے مذاکرات کیے اور 45 دنوں میں بجلی کے بلوں میں کمی اور دیگر مسائل کے حل کا باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا۔ یہ 45 دن گزرے کئی ہفتے ہو چکے ہیں، حکومت آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کی خوش خبریاں تو عوام کو سنا رہی ہے مگر عملاً عوام کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی، حکومت کے اس طرز عمل اور وعدہ و معاہدہ خلافی پر مجبوراً جماعت اسلامی نے ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے پہلے قدم کے طور پر 17 جنوری کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ جماعت کی قیادت سے کیے ہوئے اپنے معاہدہ کو عملی جامہ پہنائے اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ حکومت ہر معاملہ میں متاثرین کے احتجاج کا انتظار کرے اور پھر اس احتجاج کی شدت کو دیکھ کر رد عمل ظاہر کرے، حکومت کو لوگوں کو آزمائش اور مشکلات میں ڈالے بغیر جائز مطالبات تسلیم کرنے اور مسائل کے حل کی مثبت روایت کو فروغ دینا چاہیے تاکہ خود اس کی اور عوام کی پریشانیوں میں کمی آ سکے اور سرکاری مشینری احتجاجی مظاہروں اور مظاہرین سے نمٹنے کے بجائے اپنا وقت اور وسائل مثبت سرگرمیوں میں صرف کر سکے اور ملکی نظام میں بہتری کی کوئی صورت سامنے آ سکے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں یہ اعتراف اور انکشاف بھی کیا ہے کہ آئی پی پیز کو پیداواری گنجائش کی ادائیگیوں کے لیے حکومت نے فکسڈ چارجز کی وصولی کا نظام نافذ کیا ہے، فکسڈ چارجز کے نام پر کچھ عرصہ سے گیس کمپنیوں نے بھی بلوں کے ساتھ بھاری وصولیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بجلی اور گیس کے صارفین استعمال شدہ بجلی اور گیس کے مہنگے نرخوں پر پوری قیمت اور پھر اس پر درجنوں قسم کے حکومتی ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں تو پھر ’’فکسڈ چارجز‘‘ کا آخر کیا جواز ہے؟ ایسے ظالمانہ جبری ٹیکسوں کو کیا ’’غنڈہ ٹیکس‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے؟ وزیر موصوف نے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کے۔ الیکٹرک نامی کمپنی پانچ سے سات سال کے لیے پانچ سو ارب روپے کے منافع کی طلب گار ہے جو خود وزیر صاحب کی رائے میں بھی ناجائز ہے۔ یہاں بھی سوال یہی ہے کہ جب خود وزیر صاحب کے بقول یہ مطالبہ سراسر غلط اور ناجائز ہے تو وہ اس کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کیوں نہیں کر دیتے۔ اگر حکومت اس طرح سے بلیک میلنگ کی شکار ہو گی تو پھر عوام کو ایسے بلیک میلروں سے نجات کون دلائے گا؟ وزیر توانائی نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا ہے کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کے ضمن میں اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے اس سے حکومت کو کم و بیش ڈیڑھ ہزار ارب روپے کی بچت ہوئی ہے اور حکومت لوگوں کو بارہ روپے فی یونٹ تک سستی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو چکی ہے جب کہ وزیر صاحب کی خواہش وہ پچاس روپے فی یونٹ سستی بجلی عوام کو فراہم کریں۔ وزیر صاحب کے منہ میں گھی شکر۔ اللہ تعالیٰ انہیں پچاس روپے سے بھی زیادہ سستی بجلی فراہم کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے مگر ہماری گزارش ہو گی کہ وہ اپنی کوششیں جاری رکھیں کہ باقی ماندہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر بھی نظر ثانی کا کام جلد از جلد مکمل ہو جائے تاہم جب تک یہ نیک کام تکمیل کو نہیں پہنچتا وہ بارہ چودہ روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کو معرض التوا میں نہ رکھیں بلکہ فوری طور پر اس نیک کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں تاکہ لوگ کسی حد تک تو سکھ کا سانس لے سکیں اور حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ ساتھ ان کو بھی دعائیں دیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اویس لغاری نے جماعت اسلامی روپے فی یونٹ ا ئی پی پیز معاہدوں پر احتجاج کا اور عوام ارب روپے بجلی کے رہے ہیں کے ساتھ عوام کی عوام کو کہ ا ئی کے لیے ہے اور میں یہ

پڑھیں:

مہنگائی تھمی نہیں؛ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے

اسلام آباد:

ملک میں مہنگائی تھمنے کا نام نہیں لے رہی جب کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام کو سال بھر ذہنی کرب سے دوچار رکھا۔

وفاقی ادارہ شماریات نے ایک سال کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں رد و بدل پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق روزمرہ استعمال کی کئی اشیا مہنگی ہوئی ہیں جب کہ چند اشیا کی قیمتوں میں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق جہاں آٹا، پیاز اور ٹماٹر کی قیمتیں نیچے آئی ہیں، وہیں چکن، گوشت، چینی، انڈے اور گھی سمیت کئی ضروری اشیا مہنگی ہو گئی ہیں، جس سے عام شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔

اعدادوشمار میں بتایا گیاہ ے کہ گزشتہ ایک سال میں 20 کلو آٹے کا تھیلا 1907 روپے سے کم ہو کر 1509 روپے کا ہو گیا، یعنی 400 روپے کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی۔

اسی طرح پیاز کی قیمت 113.91 روپے سے گھٹ کر 45.51 روپے فی کلو، ٹماٹر 67.68 سے کم ہو کر 49 روپے اور آلو 87.85 سے کم ہو کر 62.85 روپے فی کلو ہو گئے ہیں۔ علاوہ ازیں دال ماش بھی 548 روپے سے کم ہو کر 457.78 روپے فی کلو ہو گئی۔

دوسری جانب بنیادی غذائی اشیا کی بڑی فہرست مسلسل مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔

چینی کی قیمت 143.78 روپے سے بڑھ کر 174.19 روپے فی کلو ہو گئی۔ اسی طرح چکن 347 روپے سے بڑھ کر 456.48 روپے، بڑا گوشت 933.39 سے 1105 روپے جب کہ چھوٹا گوشت 1877 سے بڑھ کر 2026 روپے فی کلو ہو گیا۔

علاوہ ازیں دودھ 187.15 سے بڑھ کر 198.39 روپے، دہی 219.26 سے بڑھ کر 231.51 روپے اور فارمی انڈے 252.43 سے بڑھ کر 295.78 روپے فی درجن ہو گئے۔

سرسوں کا تیل بھی 495.45 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 527.64 روپے اور گھی 503.29 روپے سے بڑھ کر 568.40 روپے فی کلو تک جا پہنچا ہے۔

اس کے علاوہ دالوں کی قیمتوں میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا، جہاں دال مونگ 308.75 سے بڑھ کر 400.82 روپے اور دال چنا 260 سے بڑھ کر 314.58 روپے فی کلو ہو گئی۔ اسی طرح دال مسور 320.94 سے کم ہو کر 293.52 روپے اور دال ماش میں بھی نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔

قیمتوں میں اضافے کو مزید دیکھا جائے تو کیلے کی فی درجن قیمت بھی 146.63 روپے سے بڑھ کر 176.55 روپے ہو چکی ہے، جس سے پھلوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔

عوام کا کہنا ہے کہ اگرچہ آٹے اور سبزیوں کی قیمتوں میں کمی خوش آئند ہے، مگر دیگر ضروری اشیا کی مہنگائی نے ان کے بجٹ کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو موثر اور پائیدار معاشی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک میں مہنگائی تھمی نہیں،ضروری اشیا عام آدمی کی پہنچ سے دور
  • عید الاضحی و شدید گرمی میں بھی عوام بجلی و پانی کے بحران کا شکار رہے‘ منعم ظفر خان
  • جماعت اسلامی ضلع عمرکوٹ کے امیر خلیل احمد کھوکھرسپرد خاک
  • عید الاضحیٰ و شدید گرمی میں بھی عوام بجلی و پانی کے بحران کا شکار رہے، منعم ظفر خان
  • عیدالاضحیٰ پر بھی عوام بجلی و پانی کے بحران میں مبتلا رہے،منعم ظفر خان
  • وزیراعظم سیاسی بحران کا خاتمہ اولین ترجیح بنائیں: لیاقت بلوچ
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف سیاسی بحران کا خاتمہ اولین ترجیح بنائیں: لیاقت بلوچ
  • ایک گھر میں بجلی کے 2 میٹرز پر پابندی کی خبر دیکھ سعد رفیق بھی پریشان، حکومت کو اہم مشورے دے دیئے
  • ایک گھر میں بجلی کے 2 میٹرز پر پابندی کی خبر دیکھ سعد رفیق بھی پریشان، حکومت کو اہم مشورے دے دیے
  • مہنگائی تھمی نہیں؛ اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے عوام سال بھر پریشان رہے