مہنگی بجلی، جماعت اسلامی کا احتجاج اور حکومت
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
جماعت اسلامی نے بجلی کے بل کم نہ ہونے پر سترہ جنوری کو ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے، منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ وزیر اعظم اڑان پاکستان اور اسٹاک ایکسچینج کا انڈیکس بہتر ہونے کی خوشخبری تو دے رہے ہیں لیکن پٹرول، کھانے پینے کی اشیا کیوں سستی نہیں ہوئیں، معاشی حالات بد سے بدترین ہو رہے ہیں۔ آئی پی پیز کا مسئلہ اٹھانے، دھرنوں و احتجاج سے 5 آئی پی پیز بند کرنے اور 18 سے بات چیت کا دعویٰ کیا گیا، آئی پی پیز بند ہونے کے باوجود بجلی کے بل کم کیوں نہیں ہو رہے۔ حکومت صرف اعلانات کرتی ہے بجلی قیمتیں کم نہیں کرتی، فیصلہ کیا ہے کہ اپنی احتجاجی تحریک کو از سر نو شروع کریں، حکومت صنعت کاروں کو تباہ کر کے دو ہزار ارب روپے آئی پی پیز کو دے رہی ہے اور انہیں انکم ٹیکس سے بھی مستثنیٰ کر دیا۔ تنخواہ دار تو انکم ٹیکس دے لیکن آئی پی پیز والے نہ دیں جو بہت بڑا ظلم ہے۔ ملک میں بدترین سرمایا دارانہ نظام ہے، یہ طبقہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں میں ہوتا ہے اور مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی جماعت کا ایجنڈا نہیں کہ آئی پی پیز اور عوامی مسائل پر بات کرے۔ فارم 45 والے ہوں یا 47 والے، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ مقتدرہ کے لوگ ہر جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور عوام کا خون چوستے ہیں۔ ادھر وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں موقف اختیار کیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کیپٹو پاور پلانٹس پر بات چیت کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت 10 سے 12 روپے فی یونٹ کم کر سکتے ہیں، خواہش ہے بجلی کا ریٹ 50 روپے کم ہو جائے۔ بگاس کے 8 پلانٹس کا جائزہ لینے جا رہے ہیں، اس کے علاوہ مزید 16 پلانٹس کی نظر ثانی بھی کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد حکومتی پلانٹس کے ریٹرن آن ایکویٹی کی باری آئے گی۔ اس ماہ کے آخر تک کیپٹو پلانٹس کا معاملہ حل ہو جائے گا۔ گھریلو صارفین کے لیے بجلی 4 روپے تک سستی ہو چکی ہے۔ اویس لغاری نے کہا آئندہ پانچ سے سات سال میں کے الیکٹرک کا 500 ارب روپے منافع مانگا جا رہا ہے، ہمارے خیال میں یہ ناجائز ہے، اس سے خیبر پی کے کا صارف بھی متاثر ہو گا۔ بجلی کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور مزید کم ہوں گی۔ مزید 15 آئی پی پیز کے ساتھ نظر ثانی معاہدے وفاقی کابینہ کے اگلے اجلاس میں لے کر جا رہے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اویس لغاری نے کہا اب تک 1100 ارب روپے کی بچت کر چکے ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں اب حکومتی پاور پلانٹس کی باری ہے۔ تمام آئی پی پیزکے معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے گی۔ نظر ثانی کے بعد عوام کو بہت اچھی بچت ہو گی۔ کے الیکٹرک نے ملٹی ائر ٹیرف کی مد میں بہت بڑی رقم مانگی ہے۔ میرے خیال میں یہ ملٹی ائر ٹیرف اتنا نہیں بنتا، بہت کم ہونا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نیپرا پاکستان کے عوام کا مفاد مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا۔ جماعت اسلامی کا بجلی کے بلوں میں کمی نہ ہونے کے خلاف احتجاج کا فیصلہ نہایت بروقت اور ملک کے 24 کروڑ مظلومین کے دل کی آواز ہے۔ یوں تو تمام سیاسی جماعتیں عوام کی نمائندگی کی دعویدار ہیں اور عوام، عوام کی گردان کرتے نہیں تھکتیں تاہم اگر عملی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ملک کے غریب عوام کی ترجمان اور حامی صرف جماعت اسلامی ہے، جو ہر مشکل کے وقت عام آدمی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور غریبوں کے حقوق کے لیے جرأت اور ہمت سے آواز بلند کرتی ہے۔ ابھی چند ماہ قبل جماعت کے کارکنوں نے بجلی کے صارفین کو ناقابل برداشت بلوں میں خاطر خواہ کمی اور مہنگائی و بے روزگاری سمیت غریب عوام کے دیگر مسائل کے حل کی خاطر راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے کئی روز تک دھرنا دیا، جس کے دبائو سے مجبور ہو کر وفاقی کابینہ کے تین ارکان نے جماعت کی قیادت سے مذاکرات کیے اور 45 دنوں میں بجلی کے بلوں میں کمی اور دیگر مسائل کے حل کا باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا۔ یہ 45 دن گزرے کئی ہفتے ہو چکے ہیں، حکومت آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی کی خوش خبریاں تو عوام کو سنا رہی ہے مگر عملاً عوام کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق کوئی قابل ذکر پیش رفت سامنے نہیں آئی، حکومت کے اس طرز عمل اور وعدہ و معاہدہ خلافی پر مجبوراً جماعت اسلامی نے ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے پہلے قدم کے طور پر 17 جنوری کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔ حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ جماعت کی قیادت سے کیے ہوئے اپنے معاہدہ کو عملی جامہ پہنائے اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ حکومت ہر معاملہ میں متاثرین کے احتجاج کا انتظار کرے اور پھر اس احتجاج کی شدت کو دیکھ کر رد عمل ظاہر کرے، حکومت کو لوگوں کو آزمائش اور مشکلات میں ڈالے بغیر جائز مطالبات تسلیم کرنے اور مسائل کے حل کی مثبت روایت کو فروغ دینا چاہیے تاکہ خود اس کی اور عوام کی پریشانیوں میں کمی آ سکے اور سرکاری مشینری احتجاجی مظاہروں اور مظاہرین سے نمٹنے کے بجائے اپنا وقت اور وسائل مثبت سرگرمیوں میں صرف کر سکے اور ملکی نظام میں بہتری کی کوئی صورت سامنے آ سکے۔ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں یہ اعتراف اور انکشاف بھی کیا ہے کہ آئی پی پیز کو پیداواری گنجائش کی ادائیگیوں کے لیے حکومت نے فکسڈ چارجز کی وصولی کا نظام نافذ کیا ہے، فکسڈ چارجز کے نام پر کچھ عرصہ سے گیس کمپنیوں نے بھی بلوں کے ساتھ بھاری وصولیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بجلی اور گیس کے صارفین استعمال شدہ بجلی اور گیس کے مہنگے نرخوں پر پوری قیمت اور پھر اس پر درجنوں قسم کے حکومتی ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں تو پھر ’’فکسڈ چارجز‘‘ کا آخر کیا جواز ہے؟ ایسے ظالمانہ جبری ٹیکسوں کو کیا ’’غنڈہ ٹیکس‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے؟ وزیر موصوف نے قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کے۔ الیکٹرک نامی کمپنی پانچ سے سات سال کے لیے پانچ سو ارب روپے کے منافع کی طلب گار ہے جو خود وزیر صاحب کی رائے میں بھی ناجائز ہے۔ یہاں بھی سوال یہی ہے کہ جب خود وزیر صاحب کے بقول یہ مطالبہ سراسر غلط اور ناجائز ہے تو وہ اس کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کیوں نہیں کر دیتے۔ اگر حکومت اس طرح سے بلیک میلنگ کی شکار ہو گی تو پھر عوام کو ایسے بلیک میلروں سے نجات کون دلائے گا؟ وزیر توانائی نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا ہے کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی کے ضمن میں اب تک جو پیش رفت ہوئی ہے اس سے حکومت کو کم و بیش ڈیڑھ ہزار ارب روپے کی بچت ہوئی ہے اور حکومت لوگوں کو بارہ روپے فی یونٹ تک سستی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہو چکی ہے جب کہ وزیر صاحب کی خواہش وہ پچاس روپے فی یونٹ سستی بجلی عوام کو فراہم کریں۔ وزیر صاحب کے منہ میں گھی شکر۔ اللہ تعالیٰ انہیں پچاس روپے سے بھی زیادہ سستی بجلی فراہم کرنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے مگر ہماری گزارش ہو گی کہ وہ اپنی کوششیں جاری رکھیں کہ باقی ماندہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر بھی نظر ثانی کا کام جلد از جلد مکمل ہو جائے تاہم جب تک یہ نیک کام تکمیل کو نہیں پہنچتا وہ بارہ چودہ روپے فی یونٹ بجلی سستی کرنے کو معرض التوا میں نہ رکھیں بلکہ فوری طور پر اس نیک کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں تاکہ لوگ کسی حد تک تو سکھ کا سانس لے سکیں اور حافظ نعیم الرحمان کے ساتھ ساتھ ان کو بھی دعائیں دیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اویس لغاری نے جماعت اسلامی روپے فی یونٹ ا ئی پی پیز معاہدوں پر احتجاج کا اور عوام ارب روپے بجلی کے رہے ہیں کے ساتھ عوام کی عوام کو کہ ا ئی کے لیے ہے اور میں یہ
پڑھیں:
کراچی کو سرسبز بنانے کیلئے جماعت اسلامی کی ایک لاکھ درخت لگانے کی مہم کا آغاز
امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ آج لگایا گیا درخت آنے والی نسلوں کی حفاظت ہے، یہ مہم کراچی کی فضا کو بہتر بنانے کی ایک بڑی اور اہم کاوش ہے جو صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ ہر شہری کی شراکت سے کامیاب ہو سکتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر خان نے اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈوکیٹ اور گلشن اقبال ٹاؤن کے چیئرمین ڈاکٹر فواد کے ہمراہ ”آؤ کراچی سرسبز بنائیں“ کے عنوان سے شجرکاری مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔ افتتاحی تقریب گلشن اقبال بلاک 16 کے محمود غزنوی پارک میں منعقد ہوئی، جس میں جماعت اسلامی کے ٹاؤن چیئرمین، وائس چیئرمین اور دیگر بلدیاتی نمائندے بھی شریک ہوئے۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ جماعت اسلامی کراچی میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور گرم موسم کی شدت کے پیش نظر ایک لاکھ درخت لگائے گی، مہم کی نگرانی ٹاؤن اور یوسی چیئرمینوں سمیت بلدیاتی نمائندے کریں گے تاکہ یہ عمل مؤثر اور مربوط انداز میں آگے بڑھے۔ انہوں نے سندھ حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی بہتری کے وعدے صرف زبانی رہے، عملی اقدامات صفر ہیں، سندھ حکومت کے وعدے کے مطابق 50 ہزار درخت کہاں گئے؟ سندھ انوائیرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی اور دیگر متعلقہ ادارے کیوں غائب ہیں؟
منعم ظفر خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کرپشن اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جماعت اسلامی نے ماضی میں بھی ماحولیاتی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے، جن میں 9 ٹاؤنز میں 155 سے زائد پارکس کی بحالی، “روڈ سائیڈ جنگل” اور “اربن فارسٹ” کے منصوبے شامل ہیں۔ گلبرگ اور لیاقت آباد ٹاؤن میں ہزاروں پودے لگائے گئے اور ان کے تحفظ کے اقدامات بھی کیے گئے ہیں، ماحولیاتی تحفظ کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے پانی کے مسئلے پر بھی کام کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیڈرل بی ایریا بلاک 10 اور 20 میں “واٹر ہارویسٹنگ پروجیکٹ” کا آغاز کیا گیا ہے تاکہ بارش اور وضو کے پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے، کراچی جیسے میگا سٹی کو کم از کم 500 ارب روپے درکار ہیں۔ ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے کی ترقیاتی فنڈنگ ہونی چاہیئے، کراچی صوبائی بجٹ کا 96 فیصد فراہم کرتا ہے لیکن اسے اس کا جائز حصہ نہیں دیا جاتا، اور جو رقم ملتی ہے وہ بھی کرپشن کی نذر ہو جاتی ہے۔
منعم ظفر خان نے کہا کہ 749 میں سے 400 خطرناک عمارتیں صرف ضلع جنوبی میں واقع ہیں۔ انہوں نے وزیر بلدیات سے سوال کیا کہ 80 گز کے پلاٹ پر 8 منزلہ عمارت کی اجازت کون دیتا ہے؟ کراچی اب کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے، درختوں کی کمی خطرناک ماحولیاتی مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ انہوں نے عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر عالمی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا میں ہر 7 افراد کے لیے ایک درخت ہونا ضروری ہے جبکہ کراچی میں 1000 افراد کے لیے صرف ایک درخت ہے، 2016ء کی ہیٹ ویو میں ہزاروں افراد جان کی بازی ہار گئے تھے، ایسی صورتحال میں کمیونٹیز کو یکجا ہو کر شجرکاری کی ضرورت و اہمیت کو عام کرنا ہوگا، کیونکہ آج لگایا گیا درخت آنے والی نسلوں کی حفاظت ہے، یہ مہم کراچی کی فضا کو بہتر بنانے کی ایک بڑی اور اہم کاوش ہے جو صرف جماعت اسلامی نہیں بلکہ ہر شہری کی شراکت سے کامیاب ہو سکتی ہے۔