لاس اینجلس میں انگاروں کے ڈھیر ،سلگتی گاڑیاں،پگھلے اے ٹی ایم، آگ نہ بجھائی جاسکی
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
کیلی فورنیا(مانیٹرنگ ڈیسک،خبر ایجنسیاں) لاس اینجلس میں انگاروں کے ڈھیر ،سلگتی گاڑیاں، پگھلے اے ٹی ایم، آگ نہ بجھائی جا سکی۔ تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں چار روز قبل لگنے والی آگ پر اب بھی قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں اب تک 11 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔متاثرہ علاقوں سے سامنے آنے والی تباہی کے مناظر پر تبصرہ کرتے ہوئے لاس اینجلس کاؤئنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے شہر کا موازنہ ایٹم بم کے بعد کی تباہی کے مناظر سے کیا۔انھوں نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسے لگ رہا ہے جیسے ان علاقوں پر کسی نے ایٹم بم گرایا ہو۔خیال رہے کہ اب تک ان علاقوں میں رہنے والے ایک لاکھ 80 ہزار افراد کو نقل مکانی کے احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔کیلی ورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے پانی کی قلت کے باعث آگ بھجانے کے عمل میں مشکلات کی اطلاعات کے بعد اس حوالے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔نقل مکانی کرنے والوں میں سے ایک کلائمیٹ رپورٹر لوسی شیرف بھی شامل تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لاس اینجلس کو ایک دوزخ نما مقام میں تبدیل ہوئے چار روز گزر چکے ہیں لیکن میرا گھر اب بھی دہکتے انگاروں کا ڈھیر ہے۔انھوں نے کہا کہ ’میں اب شہر کے شمال میں ایک علاقے میں اپنی دوست کے گھر پر موجود ہوں جو پیلیسڈز جہاں اب تک کی سب سے بڑی آگ لی ہے، سے 30 میل کے فاصلے پر ہے۔میں نے سوچا تھا کہ ہم یہاں محفوظ ہوں گے لیکن کیونکہ پورے شہر میں اب بھی چھ مقامات پر آگ لگی ہوئی جو پھیل رہی ہے اس لیے کوئی جگہ بھی محفوظ نہیں۔ امریکی حکام کو لگتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی پانی کا نظام‘ لاس اینجلس کی آگ بجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق فائر بریگیڈ کے حکام نے نقصانات کا اندازہ لگانے اور آگ کیسے شروع ہوئی، اس کا تعین کرنے کی کوشش کی، ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوا کہ کیا اس سطح کی تباہی کو کسی طرح کم کیا جا سکتا تھا، یا یہ آب و ہوا سے متعلق آفات کے دور میں نیا معمول ہے؟حکومتی رپورٹس اور ایک درجن سے زائد ماہرین کے انٹرویوز کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ حتمی جواب دونوں کا ’مرکب‘ ہے۔لاس اینجلس شہر اور کاؤنٹی کے حکام نے آگ کو ایک ’عظیم طوفان‘ قرار دیا ہے، جس میں 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی طوفانی ہواؤں نے انہیں ایسے اہم طیارے تعینات کرنے سے روک دیا، جو خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں پانی اور آگ کو روکنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے تھے۔لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے مکمل تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یقین رکھو‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ محکموں، افراد یا سب کو جوابدہ بنانے کے لیے کیا کام کیا جاسکتا ہے اور کیا کام نہیں کرنا۔عالمی ماہرین اور اداروں کے مطابق اس آگ سے نقصانات کا تخمینہ 150 ارب ڈالر سے بڑھنے کا خدشہ ہے، تاہم ابھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ نقصانات کہاں تک پہنچیں گے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا کے تاریخی شہر میں منگل سے لگی آگ پر اب تک نہ قابو پایا جا سکا ہے جب کہ حکام نے اب تک آتشزدگی سے 11 ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے جن کے بڑھنے کا خدشہ ہے۔حکام کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ہلاک افراد کی اصل تعداد کیا ہوگی البتہ آگ کی وجہ سے 2 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں جب کہ نقصان کا ابتدائی تخمینہ تقریباً 150 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ پیسیفک پیلی سیڈس کا علاقہ آگ سے بری طرح تباہ ہوگیا ہے، یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہالی وڈ کے اے لسٹرز اور ارب پتی افراد کے گھر ہیں۔ بعض علاقوں میں لوٹ مارکے واقعات بھی ہوئے ہیں۔دوسری جانب صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکام نے پیلی سیڈس اور ایٹون کے علاقوں میں رات کے وقت کرفیو نافذ کردیا ہے۔ادھر ہوا کا دباؤ کم ہونے پر فائرفائٹرزکو آگ پر قابو پانے میں بھی کسی حد تک کامیابی ملی ہے۔ لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے تصدیق کی ہے کہ آگ کے باعث خالی کرائی گئی املاک میں لوٹ مار اور چوریوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گھروں میں چوریاں اور لوٹ مار کرنے کے الزام میں 20 افراد کو گرفتار کیا گیا۔لاس اینجلس کاؤنٹی میں تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار رہائشیوں کو آگ کے باعث انخلا پر مجبور ہونا پڑا۔ ان میں سے بہت سے افراد بس ضروری سامنا لے کر گھروں کو چھوڑ گئے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے مزید 2 لاکھ رہائشیوں کو گھر چھوڑنے کے احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں۔دوسری جانب انشورنس انڈسٹری کو خدشہ ہے کہ لاس اینجلس کے جنگلات سے نکل کر مہنگے ترین رہائشی علاقوں کو خاکستر کرنے والی آتشزدگی امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی آگ ثابت ہو سکتی ہے جس میں بیمہ شدہ نقصانات آٹھ بلین ڈالر سے زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ لاس اینجلس میں امریکا کے مہنگے ترین گھر بنے ہوئے ہیں۔ آگ کے نتیجے میں اپنے گھروں سے محروم ہونے والی مشہور شخصیات میں لیٹن میسٹر اور ایڈم بروڈی اور پیرس ہلٹن شامل ہیں۔علاوہ ازیں ریاست کے گورنرنیوسم نے استعفا مانگنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو متاثرہ ریاست آکر خود جائزہ لینے کی دعوت دیدی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: لاس اینجلس میں علاقوں میں کے مطابق حکام نے نے والی کہا کہ
پڑھیں:
افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
افغانستان میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی پر کریک ڈاؤن مزید سخت کرتے ہوئے ملک کے کئی صوبوں میں فائبر آپٹک کنکشن منقطع کردیے۔ طالبان حکام کے مطابق یہ اقدام ملک میں ’برائی کے خاتمے‘ کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی ہدایت پر کی گئی اس کارروائی کے نتیجے میں گزشتہ 2 دن کے دوران کئی علاقوں میں تیز رفتار انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہو چکا ہے، جس سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: شاعری میں حکومتی فیصلوں پر تنقید اور رومانوی اشعار پر پابندی، افغانستان میں انوکھا قانون منظور
صوبہ بلخ کے ترجمان عطااللہ زاہد نے بتایا کہ صوبے میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ برائی کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے، تاہم ملک بھر میں رابطے قائم رکھنے کے لیے متبادل ذرائع فراہم کیے جائیں گے۔
اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلخ میں اب صرف ٹیلی فون نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ دستیاب ہے، وہ بھی غیر مستحکم اور اکثر معطل رہتا ہے۔ اسی نوعیت کی بندش بدخشاں، تخار، قندھار، ہلمند اور ارزگان میں بھی دیکھی گئی ہے۔
کابل میں ایک نجی انٹرنیٹ کمپنی کے ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فائبر آپٹک افغانستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے، لیکن انہیں اس پابندی کی وجوہات کا علم نہیں۔
قندھار میں کام کرنے والے ایک سنگ مرمر کے کاروباری شخص عطا محمد نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہم اپنے دبئی اور بھارت کے کلائنٹس کو بروقت ای میل کا جواب نہ دے سکے تو ہمارا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔ میں پوری رات نہیں سو سکا۔
یہ پابندی تاحال ننگرہار میں نافذ نہیں کی گئی، تاہم صوبائی ترجمان نے پیش گوئی کی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں یہ فیصلہ پورے ملک میں نافذ کیا جائے گا۔
انہوں نے منگل کے روز ایک بیان میں کہاکہ افغانستان میں حالیہ مطالعات سے ظاہر ہوا ہے کہ آن لائن ایپلیکیشنز نے معیشت، سماج، ثقافت اور مذہب کو منفی طور پر متاثر کیا ہے اور معاشرے کو اخلاقی بگاڑ کی طرف لے جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان حکومت نے کھڑکیوں پر پابندی کیوں لگائی؟
یاد رہے کہ 2024 میں طالبان حکومت نے 9 ہزار 350 کلومیٹر پر مشتمل فائبر آپٹک نیٹ ورک کو ایک ’ترجیحی منصوبہ‘ قرار دیا تھا، جو سابق امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس نیٹ ورک کو افغانستان کو دنیا سے جوڑنے اور غربت سے نکالنے کا ذریعہ قرار دیا گیا تھا۔
طالبان نے اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں کئی سخت گیر پالیسیاں نافذ کی ہیں، جو ان کے اسلامی قوانین کی تشریح کے مطابق ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغانستان طالبان حکومت فائبر آپٹک انٹرنیٹ وی نیوز