Islam Times:
2025-11-03@17:27:40 GMT

بھارت میں مسلمانوں کی عبادتگاہیں اور مسجدیں نشانے پر

اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT

بھارت میں مسلمانوں کی عبادتگاہیں اور مسجدیں نشانے پر

اسلام ٹائمز: حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، علیگڑھ کی جامع مسجد کی جگہ مندر ہونے کا شوشہ، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، بس وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارت میں مساجد میں مندروں کی تلاش کا معاملہ حالیہ دہائیوں میں شدّت سے سامنے آیا ہے۔ مسجدوں میں مندروں کی تلاش کے پیچھے ایک اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کرکے ان کی جگہ مسجدیں تعمیر کی تھیں۔ اگرچہ قرونِ وسطیٰ میں بعض مسلم حکمرانوں کی طرف سے مندروں کو نقصان پہنچانے کے واقعات ضرور پیش آئے، لیکن یہ واقعات عمومی پالیسی کا حصّہ نہیں تھے۔ بہت سے مسلم حکمرانوں نے مندروں کو تحفّظ فراہم کیا اور ہندوؤں کو اپنے مذہبی مقامات پر عبادت کی آزادی دی۔ مغل شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کے دور میں مندروں کو مالی امداد دی گئی، جبکہ اورنگزیب جیسے حکمرانوں نے بھی کئی مندروں کو تحفّظ دیا، اس کے باوجود کہ انہیں ایک سخت گیر حکمران کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے ان واقعات کو موجودہ دور میں غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقے میں ماضی کے مظالم کا احساس پیدا کیا جا سکے اور مسلمانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے۔

مساجد میں مندروں کی تلاش ایک خاص منصوبے اور سیاسی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے، جو ووٹ بینک کی سیاست پر مبنی ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ ان کا مذہب اور ثقافت خطرے میں ہے۔ اس جذباتی بیانیے کو استعمال کرکے سیاسی جماعتیں اپنی حمایت مضبوط کرتی ہیں۔ اکثریتی طبقے اور اقلیتوں کے درمیان نفرت پیدا کرکے سماجی تقسیم کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بابری مسجد کا مسئلہ اس حکمتِ عملی کی نمایاں مثال ہے، جہاں مسجد کے نیچے مبینہ رام مندر کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا۔ اس تنازعہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، جس کا اختتام مسجد کی شہادت اور فرقہ وارانہ فسادات پر ہوا۔

مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے مسجدوں میں مندروں کی تلاش کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کی علامت ہیں۔ ان پر حملہ دراصل ان کی مجموعی شناخت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ مذہبی مقامات پر تنازعات کھڑے کرنے سے معاشرے میں جذباتی کشیدگی پیدا ہوتی ہے، جسے فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ کاشی وشوناتھ مندر، وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد کو ایک متنازعہ مقام قرار دے کر اس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ قدیم شیو مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ کو کرشن کی جائے پیدائش سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے۔ سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، معاملے کی سماعت 8 اگست 2022ء سے جاری ہے، وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔

مسجدوں کے سامنے جلسے یا جلوس منعقد کئے جاتے ہیں۔ مذہبی جنون پر مبنی نعرے بازی، اشتعال انگیز تقاریر، یا بلند آواز میں موسیقی، اس عمل کے ذریعے اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی ثقافت اور مذہب خطرے میں ہے۔ طاقت کے مظاہرے کے ذریعے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے اور وہ محفوظ نہیں ہیں۔ مذہبی جذبات کو استعمال کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جاتی ہے، جس سے سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کی سیاست میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ایسے مظاہروں کا مقصد مسلمانوں اور اکثریتی طبقے کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ سماج میں مذہبی منافرت بڑھائی جا سکے۔ مسجدوں کے سامنے مظاہرے اکثر فرقہ وارانہ فسادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جس سے سماجی امن و امان متاثر ہوتا ہے۔

عوامی مقامات پر مذہبی منافرت پیدا کرنا اور کسی عبادت گاہ کے قریب مظاہرے کرنا عام طور پر یہاں کے قانون کے خلاف ہے، لیکن ان معاملات میں اکثر قانون نافذ کرنے والے ادارے بے عملی یا جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی شکایات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور ان کے ردّعمل کو قانون کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے مظاہرے اقلیتوں کو یہ باور کرانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ وہ معاشرتی اور سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ اقلیتی طبقے کی مذہبی آزادی پر حملہ کرکے ان کے اندر خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے، جس کا مقصد انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کے عقیدے، تہذیب، اور روحانی زندگی کا مرکز ہیں۔ ان کے انہدام کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ مسجد کی شہادت سے مسلمانوں کے دلوں میں گہرے زخم ڈالے جاتے ہیں تاکہ ان کا مذہبی اعتماد متزلزل ہو۔ مسجدیں اسلامی تہذیب اور ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے انہدام سے مسلمانوں کی اجتماعی شناخت پر حملہ کیا جاتا ہے۔

اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ بینک سیاست سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے، جیسے بابری مسجد کے معاملے میں دیکھنے کو ملا۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے ہندو اور مسلم طبقات کے درمیان خلیج پیدا کی جاتی ہے تاکہ اقلیتوں کو الگ تھلگ اور کمزور کیا جا سکے۔ بعض جماعتیں اس حکمتِ عملی سے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کیونکہ مذہبی جذبات کو قابو میں رکھنا عوامی حمایت حاصل کرنے کا مؤثر ذریعہ ہوتا ہے۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے مسلمانوں میں خوف پیدا کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ یہ عمل مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک کمزور اقلیت ہیں، جو اپنی عبادت گاہوں تک کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں۔ بعض اوقات مسجدوں کو "مسخ شدہ مندر” قرار دیا جاتا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلمانوں نے تاریخ میں دیگر مذاہب پر مظالم کئے۔ تاریخی عمارتوں پر جھوٹے دعوے کرکے اکثریتی طبقے کو باور کرایا جاتا ہے کہ ماضی میں ان کے مذہبی مقامات پر حملے ہوئے تھے، حالانکہ اکثر اوقات یہ دعوے بے بنیاد ہوتے ہیں۔

مین اسٹریم میڈیا، سیاست اور، فلم انڈسٹری، سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے بھارت کے مسلمانوں کو ہمیشہ منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے خلاف عام عوام کے جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔ عالمی اور مقامی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کی جدوجہد اور مشکلات کو کمزور کیا جا سکے۔ مسلمانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں کو بڑھاوا دے کر انہیں دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ نفرت انگیزی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کو "دوسرے درجے” کے طور پر پیش کر کے اکثریتی طبقے کو ان کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انہیں دشمن کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ جلسے، جلوس اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے دعوے اور نفرت آمیز بیانات پھیلائے جاتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت فسادات کو بھڑکا کر مسلمانوں کو جسمانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ مسلسل دباؤ اور خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں کمزور اور غیر مؤثر بنایا جاتا ہے تاکہ ان کی آواز نہ سنی جائے۔

مسجدوں کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہبی تنازعات پیدا کر کے اکثریتی طبقے کو متحد کرنا اور ان کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنا اکثریتی قوتوں کی عام حکمت عملی ہے۔ مسجدوں کو مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اس لئے انہیں ہدف بنا کر اکثریتی طبقے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی بالادستی قائم ہو رہی ہے۔ ہجومی تشدّد اور فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں ملوث افراد کو اکثر سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، جس سے انصاف کا عمل کمزور ہوتا ہے۔ پولیس اور عدلیہ جیسے ریاستی ادارے اکثر و بیشتر اکثریتی طبقے کے دباؤ میں آ کر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ یہ جانبداری اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفّظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومتیں بعض اوقات فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لئے ہوا دیتی ہیں اور پروان چڑھاتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے طور پر پیش کیا جا میں مندروں کی تلاش مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ مسلمانوں کی مسلمانوں کو کیا جا سکے کے انہدام مسجدوں کو مسجدوں کے مندروں کو مقامات پر مندر ہونے کی مذہبی کے ذریعے کو نشانہ کہ ان کی پیدا کر پیدا کی کی کوشش ہوتا ہے کے لئے

پڑھیں:

بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان

معصوم مرادآبادی

بہار میں چناؤ کا اسٹیج پوری طرح تیار ہے ۔یہاں اصل مقابلہ’این ڈی اے ‘ اور’انڈیا اتحاد’ کے درمیان ہے ۔انڈیا اتحاد’مہا گٹھ بندھن’ کے نام سے چناؤ لڑرہا ہے ، جس میں سات پارٹیاں شامل ہیں۔ اس اتحاد کی ساری امیدیں مسلم رائے دہندگان کے ساتھ ہیں جو ریاست کے 13 کروڑ ووٹروں میں اٹھارہ فیصد کے قریب ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ بہار کا ووٹر دیگر صوبوں کے مقابلہ میں زیادہ باشعور اور بالغ ہے اور وہ اپنا ووٹ ضائع نہیں کرتا۔ انڈیا اتحاد کی طرف سے اس الیکشن میں لالو پرشاد یادو کے بیٹے تیجسوی یادو وزیراعلیٰ کا چہرہ ہیں اور ان کے ساتھ ہی ملاح سماج کے مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے طورپر پیش کیا گیا ہے ۔ یہیں سے دراصل مسلم حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئی ہیں کہ جب دوتین فیصد ووٹوں والے ملاح برادری کے لیڈر کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر اٹھارہ فیصد مسلم رائے دہندگان کی نمائندگی کرنے والے کسی مسلمان کو یہ عہدہ کیوں نہیں مل سکتا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ نائب وزیراعلیٰ سے ہوتی ہوئی مسلم وزیراعلیٰ تک پہنچ گئی ہے ۔
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے بہار میں اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہریاست میں مسلم وزیراعلیٰ کیوں نہیں ہوسکتا؟ حالانکہ ریاست کی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 17/فیصد ہے ۔’ بیرسٹر اویسی نے مسلمانوں کے ساتھ برے سلوک کے لیے حکمراں این ڈی اے اور اپوزیشن انڈیا اتحاد دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ مجلس اتحاد المسلمین اس بار بہار کی32/اسمبلی نشستوں پر چناؤ لڑرہی ہے ۔ بہار کیگزشتہ چناؤ میں مجلس کوپانچ نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور یہ تلنگانہ کے باہر کسی ریاست میں اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی، لیکن درمیان میں مجلس کے چار ممبران اسمبلی نے بغاوت کرکے آرجے ڈی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور اس واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اب شاید ہی بیرسٹر اویسی بہار کا رخ کریں گے ، لیکن اب وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ بہار اسمبلی الیکشن لڑرہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ بیرسٹر اویسی نے گوپال گنج سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سوال کیا کہ”بہار میں مسلمان وزیراعلیٰ کیوں نہیں بن سکتا؟ جہاں 17فیصد مسلمان رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ان جماعتوں کو ایک ایسے شخص کو نائب وزیراعلیٰ بنانے میں کوئی دقت نہیں ہے ، جو آبادی کے صرف تین فیصد حصے کی نمائندگی کرتا ہو۔ بیرسٹر اویسی نے اس سلسلہ میں انڈیا اتحاد کی جانب سے نشاد لیڈر مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کی پیشکش کا حوالہ دیا جو وکاس شیل انسان پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بیرسٹر اویسی نے یہ بھی کہا کہ کانگریس، آرجے ڈی اور سماجوادی پارٹی جیسی جماعتوں کو مسلمانوں کے ووٹ چاہئیں، وہ بی جے پی سے ڈراکر مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرتی ہیں لیکن یہ بی جے پی کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں سے ووٹ مانگتی ہیں، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان پارٹیوں کے جھوٹ کو بے نقاب کیا جائے ۔ یہ پارٹیاں ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ نہیں دے سکتیں۔ مسلمانوں کو اپنی قیادت بنانے پر توجہ دینی چاہئے ۔بہار میں کسی مسلمان کو نائب وزیراعلیٰ کا چہرہ بنانا اس وقت انڈیا اتحاد کی مجبوری ہے کیونکہ یہ مسئلہ اب سنگین رخ اختیار کرتا جارہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بہار کانگریس کے انچارج کرشنا الاورو نے یہ اشارہ دیا ہے کہ”مہاگٹھ بندھن کی سرکار میں کانگریس سے دوسرا نائب وزیراعلیٰ مسلمان ہوسکتا ہے ۔ ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہار میں مہا گٹھ بندھن کی طرف سے مسلمانوں کو نظرانداز کئے جانے کی بات گھر گئی ہے اور انڈیا اتحاد اس معاملے میں فکر مند نظر آتا ہے ۔ فکر مندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہار میں پولنگ کے دن سرپر ہیں اور اگر ایسے میں مسلمان تذبذب کا شکار ہوگئے تو اس کا بڑا نقصان مہا گٹھ بندھن کو پہنچ سکتا ہے ۔حالانکہ عام خیال یہی ہے کہ بہار میں مسلم ووٹوں کی اکثریت آرجے ڈی کے حق میں جائے گی۔
ایسا نہیں ہے کہ بہار میں کبھی کوئی مسلمان وزیراعلیٰ نہ رہا ہو۔ جن لوگوں کی یادداشت اچھی ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ چچا عبدالغفور بہار میں 1973 سے 1975تک کانگریس کے وزیراعلیٰ رہے ۔بہار ہی نہیں آسام میں بھی انورہ تیمور کانگریس کی وزیراعلیٰ ر ہیں۔ اتنا ہی نہیں مہاراشٹر جیسی ریاست جہاں مسلم آبادی دس فیصد سے بھی کم ہے عبدالرحمن انتولے کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا،جو آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے معتمد خاص تھے ، لیکن ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ مسلمان حاشئے پر پہنچادئیے گئے ہیں کشمیر کے علاوہ کسی مسلمان کو کسی اورریاست کا وزیراعلیٰ پروجیکٹ کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔ ماضی میں ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی اہمیت اس درجہ رہی ہے کہ سیکولر اسٹیج پر کسی مسلمان لیڈر کو بٹھانا سیاسی ضرورت سمجھی جاتی تھی، لیکن جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی مسلمان’اچھوت’ بن گئے ہیں۔یہ پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہتی ہیں، لیکن انھیں حصہ داری نہیں دینا چاہتیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان بی جے پی سے خوفزدہ ہوکر انھیں ووٹ دے گا۔
بہار میں کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کا مطالبہ نیا نہیں ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان نے سب سے پہلے یہ موضوع اچھالا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیٹے اور لوک جن شکتی پارٹی کے موجودہ صدر چراغ پاسوان نے کہا ہے کہ”میرے والد رام ولاس پاسوان نے کسی مسلمان کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے اپنی پارٹی تک قربان کردی تھی، لیکن مسلمانوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ انھوں نے راشٹریہ جنتا دل پر الزام عائد کیا کہ وہ2005میں بھی مسلم وزیراعلیٰ کے لیے تیار نہیں تھی۔ اسی لیے 2025کے چناؤ میں بھی ڈپٹی سی ایم کے عہدے کے لیے کسی مسلمان کی حصہ داری یقینی نہیں ہے ۔ انھوں نے کہا کہ مسلمان اگر صرف ووٹ بینک بن کررہیں گے تو انھیں عزت اور اقتدار میں حصہ داری نہیں ملے گی۔
راشٹریہ جنتا دل بہار میں مسلم ووٹوں کی سب سے بڑی دعویدار پارٹی ہے اور وہ اس مرحلے میں جبکہ چناؤبالکل سرپر ہیں یہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ انتخابی ماحول میں کوئی بدمزگی پیدا ہو۔آرجے ڈی کے لیے کسی مسلمان کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کرنے کے خطرات اور بھی ہیں۔ آرجے ڈی میں نئے اور پرانے مسلم لیڈروں کی بھرمار ہے اور یہ سب ذات پات کے حصار میں قید ہیں۔ بہار میں اونچے اور نیچے طبقوں کی تفریق اتنی زیادہ ہے کہ اگر کسی ایک طبقہ کے مسلم لیڈر کانام نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے پیش کیا گیا تو دوسرا طبقہ لازمی طورپر ناراض ہوجائے گا۔اس لیے راشٹریہ جنتا دل یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔بہرحال بہار کے انتخابی میدان میں بی جے پی کو چھوڑ کر تمام ہی سیکولر اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے ۔سبھی کو یہ امید ہے کہ مسلمان اسے ووٹ دیں گے اور سبھی مسلمانوں کی خیرخواہی کے دعویدار بھی ہیں۔6/اور11/ نومبر کو دومرحلوں میں ہونے والے بہار اسمبلی انتخابات میں آرجے ڈی نے اپنے 143/ امیدواروں میں 18/ مسلم امیدوار میدان میں اتارے ہیں جبکہ کانگریس کے مسلم امیدواروں کی تعداد دس ہے ۔جنتا دل (یو) کے 101/امیدواروں میں مسلمانوں کی تعداد محض چار ہے ۔ جبکہ چراغ پاسوان کی پارٹی نے اپنے 29 امیدواروں میں صرف ایک مسلمان محمد کلیم الدین کو بہادر گنج سے ٹکٹ دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کتنے مسلمان کامیاب ہوکر اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔2020کے اسمبلی چناؤ میں 24/ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ بہار میں کم وبیش پچاس سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمان ہارجیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مسلم اکثریتی حلقے سیمانچل میں واقع ہیں اور سبھی پارٹیاں یہاں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پیر ماررہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • بہار کے انتخابی دنگل میں مسلمان
  • ٹرمپ نے نائجیریا میں ممکنہ فوجی کارروائی کی تیاری کا حکم دیدیا
  • یشونت سنہا کی قیادت میں کنسرنڈ سیٹیزنز گروپ کا وفد میرواعظ کشمیر ڈاکٹر عمر فاروق سے ملاقی
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں، مقبوضہ کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدر مملکت
  • کشمیر کی آزادی ناگزیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم کا بازار گرم ہے: صدر مملکت
  • پنجاب : لاؤڈ سپیکر ایکٹ سختی سے نافذ کرنے کا فیصلہ
  • ماں کے دورانِ حمل کووڈ کا شکار ہونے پر بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ پایا گیا، امریکی تحقیق
  • بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات کیلیے سیکورٹی پلان پر مشاورت