بھارت میں مسلمانوں کی عبادتگاہیں اور مسجدیں نشانے پر
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، علیگڑھ کی جامع مسجد کی جگہ مندر ہونے کا شوشہ، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، بس وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارت میں مساجد میں مندروں کی تلاش کا معاملہ حالیہ دہائیوں میں شدّت سے سامنے آیا ہے۔ مسجدوں میں مندروں کی تلاش کے پیچھے ایک اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کرکے ان کی جگہ مسجدیں تعمیر کی تھیں۔ اگرچہ قرونِ وسطیٰ میں بعض مسلم حکمرانوں کی طرف سے مندروں کو نقصان پہنچانے کے واقعات ضرور پیش آئے، لیکن یہ واقعات عمومی پالیسی کا حصّہ نہیں تھے۔ بہت سے مسلم حکمرانوں نے مندروں کو تحفّظ فراہم کیا اور ہندوؤں کو اپنے مذہبی مقامات پر عبادت کی آزادی دی۔ مغل شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کے دور میں مندروں کو مالی امداد دی گئی، جبکہ اورنگزیب جیسے حکمرانوں نے بھی کئی مندروں کو تحفّظ دیا، اس کے باوجود کہ انہیں ایک سخت گیر حکمران کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے ان واقعات کو موجودہ دور میں غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقے میں ماضی کے مظالم کا احساس پیدا کیا جا سکے اور مسلمانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے۔
مساجد میں مندروں کی تلاش ایک خاص منصوبے اور سیاسی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے، جو ووٹ بینک کی سیاست پر مبنی ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ ان کا مذہب اور ثقافت خطرے میں ہے۔ اس جذباتی بیانیے کو استعمال کرکے سیاسی جماعتیں اپنی حمایت مضبوط کرتی ہیں۔ اکثریتی طبقے اور اقلیتوں کے درمیان نفرت پیدا کرکے سماجی تقسیم کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بابری مسجد کا مسئلہ اس حکمتِ عملی کی نمایاں مثال ہے، جہاں مسجد کے نیچے مبینہ رام مندر کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا۔ اس تنازعہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، جس کا اختتام مسجد کی شہادت اور فرقہ وارانہ فسادات پر ہوا۔
مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے مسجدوں میں مندروں کی تلاش کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کی علامت ہیں۔ ان پر حملہ دراصل ان کی مجموعی شناخت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ مذہبی مقامات پر تنازعات کھڑے کرنے سے معاشرے میں جذباتی کشیدگی پیدا ہوتی ہے، جسے فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ کاشی وشوناتھ مندر، وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد کو ایک متنازعہ مقام قرار دے کر اس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ قدیم شیو مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ کو کرشن کی جائے پیدائش سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے۔ سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، معاملے کی سماعت 8 اگست 2022ء سے جاری ہے، وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔
مسجدوں کے سامنے جلسے یا جلوس منعقد کئے جاتے ہیں۔ مذہبی جنون پر مبنی نعرے بازی، اشتعال انگیز تقاریر، یا بلند آواز میں موسیقی، اس عمل کے ذریعے اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی ثقافت اور مذہب خطرے میں ہے۔ طاقت کے مظاہرے کے ذریعے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے اور وہ محفوظ نہیں ہیں۔ مذہبی جذبات کو استعمال کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جاتی ہے، جس سے سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کی سیاست میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ایسے مظاہروں کا مقصد مسلمانوں اور اکثریتی طبقے کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ سماج میں مذہبی منافرت بڑھائی جا سکے۔ مسجدوں کے سامنے مظاہرے اکثر فرقہ وارانہ فسادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جس سے سماجی امن و امان متاثر ہوتا ہے۔
عوامی مقامات پر مذہبی منافرت پیدا کرنا اور کسی عبادت گاہ کے قریب مظاہرے کرنا عام طور پر یہاں کے قانون کے خلاف ہے، لیکن ان معاملات میں اکثر قانون نافذ کرنے والے ادارے بے عملی یا جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی شکایات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور ان کے ردّعمل کو قانون کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے مظاہرے اقلیتوں کو یہ باور کرانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ وہ معاشرتی اور سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ اقلیتی طبقے کی مذہبی آزادی پر حملہ کرکے ان کے اندر خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے، جس کا مقصد انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کے عقیدے، تہذیب، اور روحانی زندگی کا مرکز ہیں۔ ان کے انہدام کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ مسجد کی شہادت سے مسلمانوں کے دلوں میں گہرے زخم ڈالے جاتے ہیں تاکہ ان کا مذہبی اعتماد متزلزل ہو۔ مسجدیں اسلامی تہذیب اور ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے انہدام سے مسلمانوں کی اجتماعی شناخت پر حملہ کیا جاتا ہے۔
اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ بینک سیاست سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے، جیسے بابری مسجد کے معاملے میں دیکھنے کو ملا۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے ہندو اور مسلم طبقات کے درمیان خلیج پیدا کی جاتی ہے تاکہ اقلیتوں کو الگ تھلگ اور کمزور کیا جا سکے۔ بعض جماعتیں اس حکمتِ عملی سے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کیونکہ مذہبی جذبات کو قابو میں رکھنا عوامی حمایت حاصل کرنے کا مؤثر ذریعہ ہوتا ہے۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے مسلمانوں میں خوف پیدا کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ یہ عمل مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک کمزور اقلیت ہیں، جو اپنی عبادت گاہوں تک کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں۔ بعض اوقات مسجدوں کو "مسخ شدہ مندر” قرار دیا جاتا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلمانوں نے تاریخ میں دیگر مذاہب پر مظالم کئے۔ تاریخی عمارتوں پر جھوٹے دعوے کرکے اکثریتی طبقے کو باور کرایا جاتا ہے کہ ماضی میں ان کے مذہبی مقامات پر حملے ہوئے تھے، حالانکہ اکثر اوقات یہ دعوے بے بنیاد ہوتے ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا، سیاست اور، فلم انڈسٹری، سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے بھارت کے مسلمانوں کو ہمیشہ منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے خلاف عام عوام کے جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔ عالمی اور مقامی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کی جدوجہد اور مشکلات کو کمزور کیا جا سکے۔ مسلمانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں کو بڑھاوا دے کر انہیں دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ نفرت انگیزی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کو "دوسرے درجے” کے طور پر پیش کر کے اکثریتی طبقے کو ان کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انہیں دشمن کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ جلسے، جلوس اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے دعوے اور نفرت آمیز بیانات پھیلائے جاتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت فسادات کو بھڑکا کر مسلمانوں کو جسمانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ مسلسل دباؤ اور خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں کمزور اور غیر مؤثر بنایا جاتا ہے تاکہ ان کی آواز نہ سنی جائے۔
مسجدوں کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہبی تنازعات پیدا کر کے اکثریتی طبقے کو متحد کرنا اور ان کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنا اکثریتی قوتوں کی عام حکمت عملی ہے۔ مسجدوں کو مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اس لئے انہیں ہدف بنا کر اکثریتی طبقے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی بالادستی قائم ہو رہی ہے۔ ہجومی تشدّد اور فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں ملوث افراد کو اکثر سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، جس سے انصاف کا عمل کمزور ہوتا ہے۔ پولیس اور عدلیہ جیسے ریاستی ادارے اکثر و بیشتر اکثریتی طبقے کے دباؤ میں آ کر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ یہ جانبداری اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفّظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومتیں بعض اوقات فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لئے ہوا دیتی ہیں اور پروان چڑھاتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے طور پر پیش کیا جا میں مندروں کی تلاش مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ مسلمانوں کی مسلمانوں کو کیا جا سکے کے انہدام مسجدوں کو مسجدوں کے مندروں کو مقامات پر مندر ہونے کی مذہبی کے ذریعے کو نشانہ کہ ان کی پیدا کر پیدا کی کی کوشش ہوتا ہے کے لئے
پڑھیں:
جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 جولائی2025ء) عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے، وضو کیلئے دیے گئے پانی میں مٹی ملی ہوتی ہے، جس سے کوئی انسان وضو نہیں کر سکتا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے اہم پیغام سامنے آیا ہے۔ اپنے تفصیلی پیغام میں سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ "پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جیسا میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی مگر اسے ہر سہولت کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔کسی سیاسی رہنما کی بے گناہ غیر سیاسی اہلیہ کو کبھی ایسے جیل میں نہیں ڈالا گیا جیسے بشرٰی بیگم کے ساتھ کیا گیا ہے۔(جاری ہے)
میں صرف اور صرف اپنی قوم اور آئین کی بالادستی کے لیے ملکی تاریخ کی مشکل ترین جیل کاٹ رہا ہوں۔ جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے اور اس میں مٹی ملی ہوتی ہے، جس سے کوئی انسان وضو نہیں کر سکتا۔
میری کتابیں جو اہل خانہ کی جانب سے جیل حکام تک پہنچائی جاتی ہیں وہ بھی کئی ماہ سے نہیں دی گئیں، ٹی وی اور اخبار بھی بند ہے۔ بار بار پرانی کتب کا مطالعہ کر کے میں وقت گزارتا رہا ہوں مگر اب وہ سب ختم ہو چکی ہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال ہیں۔ قانون اور جیل مینول کے مطابق ایک عام قیدی والی سہولیات بھی مجھے میسر نہیں ہیں۔ بار بار درخواست کے باوجود میری میرے بچوں سے بات نہیں کروائی جا رہی۔ میری سیاسی ملاقاتوں پر بھی پابندی اور ہے صرف "اپنی مرضی" کے بندوں سے ملوا دیتے ہیں اور دیگر ملاقاتیں بند ہیں۔ میں واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت پارٹی کا ہر فرد اپنے تمام اختلافات فوری طور پر بھلا کر صرف اور صرف پانچ اگست کی تحریک پر توجہ مرکوز رکھے۔ مجھے فلحال اس تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا۔ میں 78 سالہ نظام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں، جس میں میری کامیابی یہی ہے کہ عوام تمام تر ظلم کے باوجود میرے ساتھ کھڑی ہے۔ 8 فروری کو عوام نے بغیر نشان کے جس طرح تحریک انصاف پر اعتماد کر کے آپ لوگوں کو ووٹ دئیے اس کے بعد سب کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی آواز بنیں۔ اگر اس وقت تحریک انصاف کے ارکان آپسی اختلافات میں پڑ کر وقت ضائع کریں گے تو یہ انتہائی افسوسناک اور قابل سرزنش عمل ہے۔ پارٹی میں جس نے بھی گروہ بندی کی اسے میں پارٹی سے نکال دوں گا۔ میں اپنی نسلوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہا ہوں اور اس کے لیے قربانیاں دے رہا ہوں ایسے میں پارٹی میں اختلافات پیدا کرنا میرے مقصد اور ویژن کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ فارم 47 کی حکومت نے چھبیسویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے مفلوج کر دیا ہے۔ چھبیسویں ترمیم والی عدالتوں سے ٹاوٹ ججوں کے ذریعے جیسے سیاہ فیصلے آ رہے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں۔ ہمیں عدلیہ کو آزاد کروانے کے لیے اپنی بھر پور جدوجہد کرنی ہو گی کیونکہ عدلیہ کی آزادی کے بغیر کسی ملک و قوم کی بقاء ممکن ہی نہیں ہے۔"