بھارت میں مسلمانوں کی عبادتگاہیں اور مسجدیں نشانے پر
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، علیگڑھ کی جامع مسجد کی جگہ مندر ہونے کا شوشہ، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، بس وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔ رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارت میں مساجد میں مندروں کی تلاش کا معاملہ حالیہ دہائیوں میں شدّت سے سامنے آیا ہے۔ مسجدوں میں مندروں کی تلاش کے پیچھے ایک اہم دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں مسلم حکمرانوں نے مندروں کو منہدم کرکے ان کی جگہ مسجدیں تعمیر کی تھیں۔ اگرچہ قرونِ وسطیٰ میں بعض مسلم حکمرانوں کی طرف سے مندروں کو نقصان پہنچانے کے واقعات ضرور پیش آئے، لیکن یہ واقعات عمومی پالیسی کا حصّہ نہیں تھے۔ بہت سے مسلم حکمرانوں نے مندروں کو تحفّظ فراہم کیا اور ہندوؤں کو اپنے مذہبی مقامات پر عبادت کی آزادی دی۔ مغل شہنشاہ اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں کے دور میں مندروں کو مالی امداد دی گئی، جبکہ اورنگزیب جیسے حکمرانوں نے بھی کئی مندروں کو تحفّظ دیا، اس کے باوجود کہ انہیں ایک سخت گیر حکمران کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے ان واقعات کو موجودہ دور میں غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقے میں ماضی کے مظالم کا احساس پیدا کیا جا سکے اور مسلمانوں کو ظالم کے طور پر پیش کیا جائے۔
مساجد میں مندروں کی تلاش ایک خاص منصوبے اور سیاسی حکمتِ عملی کا حصّہ ہے، جو ووٹ بینک کی سیاست پر مبنی ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو کہ ان کا مذہب اور ثقافت خطرے میں ہے۔ اس جذباتی بیانیے کو استعمال کرکے سیاسی جماعتیں اپنی حمایت مضبوط کرتی ہیں۔ اکثریتی طبقے اور اقلیتوں کے درمیان نفرت پیدا کرکے سماجی تقسیم کو بڑھاوا دیا جاتا ہے، جس سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بابری مسجد کا مسئلہ اس حکمتِ عملی کی نمایاں مثال ہے، جہاں مسجد کے نیچے مبینہ رام مندر کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا۔ اس تنازعہ کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، جس کا اختتام مسجد کی شہادت اور فرقہ وارانہ فسادات پر ہوا۔
مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے مسجدوں میں مندروں کی تلاش کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کی علامت ہیں۔ ان پر حملہ دراصل ان کی مجموعی شناخت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ مذہبی مقامات پر تنازعات کھڑے کرنے سے معاشرے میں جذباتی کشیدگی پیدا ہوتی ہے، جسے فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں بھارت بھر میں کئی مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں یہ دعوے کئے گئے کہ یہ مسجدیں دراصل مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔ کاشی وشوناتھ مندر، وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد کو ایک متنازعہ مقام قرار دے کر اس پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ قدیم شیو مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ متھرا میں واقع شاہی عیدگاہ کو کرشن کی جائے پیدائش سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کے پہلے شیو مندر ہونے کے دعوے۔ سنبھل کی جامع مسجد تنازعہ، بدایوں کی 850 سال قدیم تاریخی جامع مسجد پر تنازع، نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ، معاملے کی سماعت 8 اگست 2022ء سے جاری ہے، وہی کہانی، وہی دلائل، وہی لوگ اور وہی ذہنیت۔
مسجدوں کے سامنے جلسے یا جلوس منعقد کئے جاتے ہیں۔ مذہبی جنون پر مبنی نعرے بازی، اشتعال انگیز تقاریر، یا بلند آواز میں موسیقی، اس عمل کے ذریعے اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے تاکہ انہیں محسوس ہو کہ ان کی ثقافت اور مذہب خطرے میں ہے۔ طاقت کے مظاہرے کے ذریعے اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی آزادی خطرے میں ہے اور وہ محفوظ نہیں ہیں۔ مذہبی جذبات کو استعمال کرکے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جاتی ہے، جس سے سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کی سیاست میں کامیاب ہوتی ہیں۔ ایسے مظاہروں کا مقصد مسلمانوں اور اکثریتی طبقے کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا ہوتا ہے تاکہ سماج میں مذہبی منافرت بڑھائی جا سکے۔ مسجدوں کے سامنے مظاہرے اکثر فرقہ وارانہ فسادات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، جس سے سماجی امن و امان متاثر ہوتا ہے۔
عوامی مقامات پر مذہبی منافرت پیدا کرنا اور کسی عبادت گاہ کے قریب مظاہرے کرنا عام طور پر یہاں کے قانون کے خلاف ہے، لیکن ان معاملات میں اکثر قانون نافذ کرنے والے ادارے بے عملی یا جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی شکایات کو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، اور ان کے ردّعمل کو قانون کی خلاف ورزی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے مظاہرے اقلیتوں کو یہ باور کرانے کے لئے منعقد کئے جاتے ہیں کہ وہ معاشرتی اور سیاسی طور پر کمزور ہیں۔ اقلیتی طبقے کی مذہبی آزادی پر حملہ کرکے ان کے اندر خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے، جس کا مقصد انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔ مسجدیں مسلمانوں کے عقیدے، تہذیب، اور روحانی زندگی کا مرکز ہیں۔ ان کے انہدام کا مقصد مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا ہوتا ہے۔ مسجد کی شہادت سے مسلمانوں کے دلوں میں گہرے زخم ڈالے جاتے ہیں تاکہ ان کا مذہبی اعتماد متزلزل ہو۔ مسجدیں اسلامی تہذیب اور ثقافت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے انہدام سے مسلمانوں کی اجتماعی شناخت پر حملہ کیا جاتا ہے۔
اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ووٹ بینک سیاست سیاسی فائدہ حاصل کیا جاتا ہے، جیسے بابری مسجد کے معاملے میں دیکھنے کو ملا۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے ہندو اور مسلم طبقات کے درمیان خلیج پیدا کی جاتی ہے تاکہ اقلیتوں کو الگ تھلگ اور کمزور کیا جا سکے۔ بعض جماعتیں اس حکمتِ عملی سے اپنی حکمرانی کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہیں، کیونکہ مذہبی جذبات کو قابو میں رکھنا عوامی حمایت حاصل کرنے کا مؤثر ذریعہ ہوتا ہے۔ مسجدوں کے انہدام کے ذریعے مسلمانوں میں خوف پیدا کیا جاتا ہے کہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ یہ عمل مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک کمزور اقلیت ہیں، جو اپنی عبادت گاہوں تک کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں۔ بعض اوقات مسجدوں کو "مسخ شدہ مندر” قرار دیا جاتا ہے تاکہ یہ باور کرایا جا سکے کہ مسلمانوں نے تاریخ میں دیگر مذاہب پر مظالم کئے۔ تاریخی عمارتوں پر جھوٹے دعوے کرکے اکثریتی طبقے کو باور کرایا جاتا ہے کہ ماضی میں ان کے مذہبی مقامات پر حملے ہوئے تھے، حالانکہ اکثر اوقات یہ دعوے بے بنیاد ہوتے ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا، سیاست اور، فلم انڈسٹری، سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے بھارت کے مسلمانوں کو ہمیشہ منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے خلاف عام عوام کے جذبات کو بھڑکایا جا سکے۔ عالمی اور مقامی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ ان کی جدوجہد اور مشکلات کو کمزور کیا جا سکے۔ مسلمانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں کو بڑھاوا دے کر انہیں دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔ نفرت انگیزی کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں کو "دوسرے درجے” کے طور پر پیش کر کے اکثریتی طبقے کو ان کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تاکہ انہیں دشمن کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ جلسے، جلوس اور میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف جھوٹے دعوے اور نفرت آمیز بیانات پھیلائے جاتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت فسادات کو بھڑکا کر مسلمانوں کو جسمانی اور مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ مسلسل دباؤ اور خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی میدان میں کمزور اور غیر مؤثر بنایا جاتا ہے تاکہ ان کی آواز نہ سنی جائے۔
مسجدوں کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہبی تنازعات پیدا کر کے اکثریتی طبقے کو متحد کرنا اور ان کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ووٹ حاصل کرنا اکثریتی قوتوں کی عام حکمت عملی ہے۔ مسجدوں کو مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اس لئے انہیں ہدف بنا کر اکثریتی طبقے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کی مذہبی بالادستی قائم ہو رہی ہے۔ ہجومی تشدّد اور فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات میں ملوث افراد کو اکثر سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے، جس سے انصاف کا عمل کمزور ہوتا ہے۔ پولیس اور عدلیہ جیسے ریاستی ادارے اکثر و بیشتر اکثریتی طبقے کے دباؤ میں آ کر اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ یہ جانبداری اقلیتوں میں خوف اور عدم تحفّظ کا احساس پیدا کرتی ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومتیں بعض اوقات فرقہ وارانہ کشیدگی کو ختم کرنے کے بجائے اسے اپنے فائدے کے لئے ہوا دیتی ہیں اور پروان چڑھاتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے طور پر پیش کیا جا میں مندروں کی تلاش مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ مسلمانوں کی مسلمانوں کو کیا جا سکے کے انہدام مسجدوں کو مسجدوں کے مندروں کو مقامات پر مندر ہونے کی مذہبی کے ذریعے کو نشانہ کہ ان کی پیدا کر پیدا کی کی کوشش ہوتا ہے کے لئے
پڑھیں:
دھریکوں کے سائے
وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی، کچھ مبہم سی باتیں بھی کر رہی تھی۔ میں اسے دلاسہ دینے کی کوشش کر رہی تھی مگر اس صورت حال کا کوئی ممکنہ حل میرے دماغ میں بھی نہیں آرہا تھا۔
’’ آپ رونا بند کر کے میرے ساتھ ذرا کھل کر بات کریں تو میں جان سکوں کہ آپ کا مسئلہ ہے کیا؟‘‘ میںنے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے دلاسہ دیا۔ ’’ کیا بتاؤں، میرے پاس سوائے خالی ذہن کے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘’’ مگر کچھ تو ہے جس نے آپ کو رلا دیا ہے؟‘‘ میںنے کہہ کر اس کی طرف کاغذی رومال بڑھایا، اس نے شکریہ کے ساتھ اسے تھاما اور اپنی آنکھیں رگڑ کر صاف کیں ۔
’’ میں چھوٹی سی تھی جب میں نے اپنے ساتھ ناانصافیاں ہوتے دیکھیں، ابا کا جھکاؤ بیٹوں کی طرف زیادہ تھا اس لیے اماں بھی انھی کی پلیٹیں سالن اور بوٹیوں سے بھرتیں تا کہ ابا ان سے خوش رہیں، انھیں دودھ پلاتیں کہ وہ جلدی جوان ہوں ۔
کوئی رشتہ دار گھر آتے اور جاتے ہوئے وہ ہم سب بچوں کو رقم دے کر جاتے کہ آپس میں بانٹ لیں اور وہ آپس بھی بھائیوں کے بیچ میں ہی ختم ہو جاتا۔ بہنوں کو کچھ نہ دے کر ان کے ذہنوں میں اس عمر سے ہی یہ بٹھا دیا گیا تھا کہ جو کچھ ہے وہ صرف بھائیوں کی ملکیت ہے، بہنیں تو بے زبان جانوروں کی طرح ہیں جنھیں جس سمت ہانکو وہیں چل دیتی ہیں، جس کھونٹے سے باندھ دو، اسی سے بندھے بندھے چارہ کھا لیں گی۔ وہ کون سا انسان ہیں جو ان کی ضروریات ہوں ۔
بچپن سے ہی انھیں بتا دیا جاتا ہے کہ ان کے باپ، ان کے بھائی اہم ہیں… باقی سارے وہم ہیں۔ گھروں کے کونے کھدروں میں جہاں ایک چارپائی کی جگہ بن جائے ، وہیں ان لڑکیوں کو سونے کے لیے بستر دے دیا جاتا ہے اور لڑکوں کے لڑکپن میں پہنچتے ہی انھیں علیحدہ کمرہ دے دیا جاتا ہے کہ بھائیوں نے علیحدہ بیٹھ کر پڑھنا ہوتا ہے، ان کے دوست ملنے کو آتے ہیں۔ نہ صرف انھیں ایک علیحدہ کمرہ دے دیا جاتا ہے بلکہ اس کمرے کی صفائی ستھرائی بھی بہنوں کے فرائض میں شامل ہو جاتی ہے ۔
بھائیوں کے حقوق گھر میں سب کو یاد ہوتے ہیں اور بیٹیوں کے فرائض۔ وہ کسی بات پر اپنے سے چھوٹے بھائی کو بھی کچھ کہہ دیں تو گھر کا ہر فرد درجہ بدرجہ اس کی بے عزتی کرتا ہے کہ اس نے بھائی کی شان میں گستاخی کی ہے جو کہ ایک مرد ہے۔ عورتوں سے افضل ہے اور عورتیں تو بنی ہی اس لیے ہیں کہ وہ مردوں کی غلامی کریں۔ گھٹ گھٹ کر سانس لیتے میں نے اپنا بچپن اور لڑکپن گزارا، کوئی اچھی یاد میرے پاس نہیں ہے کہ میرے والدین یا دادا دادی نے کبھی کسی بات پر تعریف کی ہو، کسی کامیابی پر سراہا ہو، کبھی اس قابل سمجھا ہو کہ مجھے بھی تعریف کی ضرورت ہے کہ میری صلاحیتوں کو بھی کھاد اور پانی ملے۔
پرانی کتابیں، پرانے بستے اور ایک سے دوسری بہن کو منتقل ہوتا ہوا یونیفارم پہن کر بھی جب ہم بہنیں جماعت میں کوئی اچھی پوزیشن لیتیں تو اس پر نہ گھر سے کسی سے تھپکی ملتی اور نہ ہی اس کامیابی کو سراہا جاتا، بھائی تو صاف کہہ دیتے کہ نقل مارکر پاس ہوئی ہو گی اور باقی گھر والے اگر چہ کہتے نہ تھے مگر انھیں بھی یہی شک ہوتا تھا۔
ناکافی اور غیر متوازن خوراک کھا کھا کر بھی ہم بہنیں صحت مند اور توانا اور اچھی اٹھان والی تھیں۔ شکل و صورت بھی اللہ نے کمال کی دے دی تھی، ہمارے مقابلے میں وہ بھائی جن پر گھر والے جان بھی نچھاور کرنے کو تیار ہوتے تھے، وہ نہ پڑھائی میں اچھے تھے اور نہ عادات میں۔ گھر والوں کے خوشامدانہ رویے کے باعث وہ جانے خود کو کہاں کہاں کے شہزادے اور راجے سمجھتے تھے۔ محلے اور ارد گرد سے بھائیوں کی شکایتیں آتیں کہ وہ لڑتے جھگڑتے ہیں یا دوسروں کی بیٹیوں پر بری نظر رکھتے ہیں تو بھی والدین کو لگتا کہ ساری دنیا غلط ہو سکتی ہے ان کے بیٹے نہیں۔ دوسرے جھگڑتے ہوں گے اور دوسروں کی بیٹیاں ہی ہمارے بھائیوں پر بری نظر رکھتی ہوں گی۔ اپنے بیٹوں کے بارے میں تو کچھ سن ہی نہیں سکتے تھے ماسوائے تعریف کے۔
وقت گزرا اور کئی موسم بدلے، ہم بہنیں لکھ پڑھ کر کسی قابل ہو گئیں مگر والدین نے ملازمت کی اجازت نہ دی کہ اس میں ان کی بے عزتی کا مقام تھا۔ سوجونہی ہمارے ہاں کوئی رشتہ آتا، ذرا سی تحقیق کر کے ایک ایک کر کے ساری بیٹیاں بیاہ دیں۔ اماں کا خیال تھا کہ بیٹے بیاہنے سے پہلے گھر کا آنگن بیٹیوں کے سائے سے خالی ہونا چاہیے۔ جیسے ہمارے سائے تو ان کے بیٹوں کی خوشیوں کو ڈس ہی لیتے ۔ ابا نے گھر کے تین پورشن بنوا لیے تھے کہ ایک ایک بیٹے کا خاندان اس میں آباد ہو سکے گا… ہم بیٹیاں کس کھیت کی مولیاں تھیں۔
ہمارے جہیز کو ہی ہماری کل متاع قرار دے دیا گیا تھا۔ ہمارے بھائی تو کسی قابل تھے نہیں، ابا کے جمے جمائے کاروبار میں بھی انھیں دلچسپی نہ تھی اس لیے جو کوئی ان کا رشتہ دیکھنے کو آتا، انھیں نکما جان کر ہٹ جاتا مگر جب ابا انھیں بتاتے کہ گھر کا فلاں پورشن اس بیٹے کے نام ہے اور ابا کے کاروبار میں بھی ان کا تیسرا حصہ ہے تو رشتہ دیکھنے کو آنے والے قائل ہو جاتے۔
بھائیوں کی شادیوں میں بھی ہم بہنیں اسی طرح شرکت کرتیں جس طرح باقی خاندان والے کرتے تھے۔ نہ ہماری کوئی رائے تھی نہ مشورہ۔ کبھی کبھار تو مجھے لگتا تھا کہ اسلام سے پہلے جو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے، وہ شاید بہتر تھا، اب انھیں زندہ دفن نہیں کیا جاتا مگر ہر روز انھیں مرنے دیا جاتا ہے اور اگلے دن وہ پھر جاگ جاتی ہیں نئی امید کے ساتھ۔ ابا اگر جانچ پڑتال کر لیتے تو ہم بہنوں کے رشتے بھی اچھے ہو جاتے ، ہمیں بد زبان شوہر اور ہر وقت ناخوش رہنے والی سسرالیں ملیں اور ہم ساری بہنیں رل رل کر وقت گزار رہی ہیں مگر جو ابا اور اماں نے کبھی پلٹ کر ہمیں پوچھا ہو کہ کس طرح کے حالات میں جی رہی ہیں۔ بھائیوں نے ابا کی دولت پر عیش کرنے کو ہی کام سمجھ رکھا ہے اور ہم بہنوں کے شوہر بھی ایسے ہی ہیں کہ فاقوں مر جائیں مگر وہ ہمیں کام نہیں کرنے دیتے تھے۔ ساری بہنیں ایک ہی جیسے حالات میں ہیں اس لیے کوئی کسی کے دکھ درد کا مداوا بھی نہیں کر سکتی۔
اپنے ارد گرد جہاں بھی دیکھتی ہوں ، ہر گھر میں ایسے ہی حالات نظر آتے ہیں۔ جانے ڈراموں میں دکھائے جانے والے بھائی، باپ، شوہر کہاں پائے جاتے ہیں؟؟‘‘ وہ سانس لینے کو رکی۔ میں سوچ رہی تھی کہ ڈراموں میں بھی کیا کچھ نہیں دکھایا جا رہا ہے، باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے… سب اسی طرح کے دکھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عام آدمی بھی تو اسی طرح کی کہانیوں اور ڈراموں سے سیکھتا ہے۔
’’ باپ تھا تو وہ بیٹیوں اور بیٹوں کے بیچ تفریق کرنے والا، ماں بھی ناانصافی کا سلوک روا رکھنے والی، بھائی تھے تو وہ بھی ہمیں ملازمائیں سمجھنے والے۔ اماں ہر وقت کہتیں کہ سسرال جاؤ گی تو اپنی مرضی کرنا۔ شادی ہوئی اوردل میں ہزاروں ارمان سجا کر جب سسرال کی دہلیز پر قدم رکھا تو شوہر بھی تو ایک مرد ہی تھا نا، ابا اور بھائیوں کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا۔ وہ ان سے کیسے مختلف ہوتا، وہ کہاں ہمیں پیر کی جوتی سے زیادہ حیثیت دیتا۔ ‘‘ جہاں محاورے اور ضرب المثل ایسے ہوں کہ بیٹیاں دھریک کے درخت ہیں جو ہر دن بڑھتے ہیں اور بیٹے آم کے پودے کہ جنھیں بہت دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے… بیوی کی موت، کہنی کی چوٹ ( یعنی لگتی ہے تو یکدم بہت درد محسوس ہوتا ہے مگر جلد ہی آرام بھی آجاتا ہے) ، بیوی اور جوتی ایک جیسی ہوتی ہیں ، ایک تنگ کرے تو بدل لو، نئی لے لو… اپنا بچہ اور دوسرے کی بیوی سب کو اچھے لگتے ہیں۔
ایسے ایسے محاورے ہیں کہ ہمیں اپنی وقعت اور بھی کم محسوس ہوتی ہے۔ وقت جتنا بھی بدل گیا ہے، اب بھی لوگ اولاد مانگتے ہیں تو بیٹوں کی خواہش کرتے ہیں، اب بھی بیٹیوں کی پیدائش پر دکھی ہو جاتے ہیں۔ بڑھاپے میں جن بیٹوں کے سائے میں بیٹھنے کی خواہش کرتے ہیں، وہ سائے عموماً دھریکوں کے ہی نصیب ہوتے ہیں۔ اگر آج کے زمانے میں بھی آپ بیٹیوں اور بیٹوں میں ایسی تفریق کرتے ہیں تو پھر اس معاشرے اور قبل از اسلام کے معاشرے میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟؟