تھائی لینڈ میں چاول کے کھیت اژدہے، بلی دیوی کی عکاسی کرتے رنگین فن میں تبدیل
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
CHIANG RAI:
تھائی لینڈ میں گزشتہ برس سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی عکاسی اور متاثرین کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منفرد انداز اپنایا گیا اور چاول کے کھیتوں کو سرخ اژدہا، بلی دیوی، کتے اور بلیوں کے عکاسی کرتے فن میں تبدیل کردیا گیا۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق شمالی تھائی لینڈ کے علاقے تانیپونگ جائکھام میں ستمبر میں سیلاب سے محصور ہونے والے ہزاروں افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چاول کے پودوں کے ذریعے ایک سرخ اژدہا، ایک بلی دیوی اور کتوں اور بلیوں بنا کر رنگین فن سے چاول کے کھیتوں کو ڈھانپ دیا گیا۔
تانیپونگ اور ان کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے 5 ایکڑ سے زائد اراضی کو دلکش تصاویر میں تبدیل کردیا اور اس کے ذریعے رینبو رائس کے بیج کے 20 کلو کی محتاط کاشت کے لیے خصوصی معاونت کے تحت ڈیزائن اور جی پی ایس تشکیل دینا تھا۔
رپورٹ کے مطابق تانیپونگ نے یہ کام اکتوبر میں شروع کیا تھا اور اس کے لیے اژدہا، مقامی چار کانوں اور پانچ آنکھوں والی بلی دیوی کو چینی قمری سال کے اختتام کی مناسبت سے منتخب کیا، اس کے ساتھ ساتھ سیلاب کے پانی میں پھنسے ہوئے کتے اور بلیوں کو بھی شامل کیا، جو چیانگ رائے تھائی لینڈ کے شمالی علاقوں میں سیلاب سے متاثر ہوئے تھے۔
تانیپونگ کا کہنا تھا کہ ہم نے اژدہا کا ڈیزائن تمام منفی سوش دور کرنے کے لیے تخلیق کیا اور امید ہے یہ یہ بحران جلد ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دسمبر میں چاول کے اس آرٹ کی نمائش کی گئی تھی اور جب سے طلبہ، شہری اور مقامی افراد سمیت ہزاروں افراد نے دورہ کیا اور انہیں یہاں سے امید، حوصلہ اور مثبت اثرات ملے ہیں۔
تھائی لینڈ کے مذکورہ علاقے کے ایک کسان تانیٹ مالا نے قریبی علاقں میں آنے والے بدترین سیلاب کے بارے میں بتایا کہ ہم کسی صورت کھانے پینے کی اشیا پیدا نہیں کرسکتے، ہر چیز سمندر کی طرح ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تھائی لینڈ کے لیے
پڑھیں:
الفاشر پر آر ایس ایف کے قبضے کے بعد شہر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے، اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے عالمی تنظیم کے ریلیف چیف ٹام فلیچر نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے، لوگوں کو مسخ اور قتل کیا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ مکمل استثنیٰ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان کے شمالی دارفور کے دارالحکومت الفاشر پر آر ایس ایف ملیشیا کے قبضے کے بعد شہر ’’مزید گہری جہنم‘‘ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پانچ سو روزہ محاصرے کے بعد جب باغیوں نے شہر پر قبضہ کیا تو ہزاروں افراد پیدل ہی بھاگنے پر مجبور ہو گئے، جبکہ اجتماعی قتل، عصمت دری اور بھوک سے اموات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے عالمی تنظیم کے ریلیف چیف ٹام فلیچر نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے، لوگوں کو مسخ اور قتل کیا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ مکمل استثنیٰ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان چیخوں کو نہیں سن سکتے، مگر آج جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، یہ ہولناکیاں جاری ہیں۔فلیچر کے مطابق آر ایس ایف نے سوڈانی مسلح افواج (ایس اے ایف) کے آخری بڑے گڑھ پر قبضے کے بعد گھر گھر تلاشی شروع کی اور فرار کی کوشش کرنے والے شہریوں کو اجتماعی طور پر ہلاک کیا۔ سعودی زچگی اسپتال سمیت کئی طبی مراکز نشانہ بنے، جہاں اطلاعات کے مطابق تقریباً 500 مریض اور ان کے تیماردار مارے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دسیوں ہزار خوف زدہ اور بھوکے شہری نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ جو نکلنے میں کامیاب ہوئے، ان میں اکثریت خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے، مگر وہ بھی راستے میں لوٹ مار، تشدد اور جنسی حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ افریقہ کے لیے اقوام متحدہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل مارٹھا پو بی نے کہا کہ الفاشر کا سقوط سوڈان اور پورے خطے کے لیے سلامتی کے منظرنامے میں ایک سنگین تبدیلی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس کے اثرات نہایت گہرے اور خطرناک ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ کردوفان کے علاقے میں بھی لڑائی تیز ہو چکی ہے جہاں آر ایس ایف نے گزشتہ ہفتے اسٹریٹجک قصبہ بارا پر قبضہ کیا، جبکہ دونوں فریقوں کی جانب سے کیے جانے والے ڈرون حملے اب بلیو نیل، جنوبی کردوفان، مغربی دارفور اور خرطوم تک پھیل چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے الفاشر اور بارا میں اجتماعی قتل، فوری سزائے موت اور نسلی انتقام کی دستاویزات تیار کی ہیں۔ بارا میں گزشتہ دنوں کم از کم 50 شہری ہلاک ہوئے جن میں سوڈانی ریڈ کریسنٹ کے پانچ رضاکار بھی شامل ہیں۔ ٹام فلیچر نے کہا کہ الفاشر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ 20 سال قبل دارفور میں پیش آنے والے مظالم کی یاد دلاتا ہے، مگر اس بار دنیا کی بے حسی زیادہ خوفناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحران دراصل عالمی لاپرواہی اور بین الاقوامی قانون کی ناکامی کی علامت ہے۔