القادر کیس: بریت ہوئی تو ہمیں حیرانی ہوگی، پی ٹی آئی رہنما
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف القادر کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ 13 جنوری کو سنایا جائے گا۔ دسمبر میں محفوظ کیے گئے فیصلے کی تاریخ 2 مرتبہ تبدیل ہوچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کو سزا ضرور ہوگی، فیصل واوڈا کا دعویٰ
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سمجھتے ہیں کہ اس کیس میں اگر بریت ہوئی تو ہمیں حیرانی ہوگی کیونکہ اس عدالت سے ہمیں کوئی توقع نہیں ہے۔
یہ بریت کا کیس ہےعمران خان کے وکیل فیصل چوہدری نے القادر کیس کے متوقع فیصلے سے متعلق وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بریت کا کیس ہے، پراسیکیوشن یہ ثابت نہیں کرسکی کہ اس منصوبے سے قومی خزانے یا ریاست کو کیسے نقصان پہنچا، نہ عمران خان یا بشریٰ بی بی کو ذاتی مالی فائدہ پہنچنا ثابت ہوا ہے۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے تو یہ بریت کا کیس ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کیس کے میرٹ کو دیکھتے ہوئے تو یہ بریت کا کیس بنتا ہے، لیکن ہمیں عدالت سے کوئی توقع نہیں ہے، اگر سزا ہوئی تو کوئی حیرانی والی بات نہیں، البتہ بریت ہوئی تو حیرانی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:190 ملین کا ٹیگ لگا کر ٹرسٹی کو بدنام کرکے سزا دینے کی باتیں ہورہی ہیں، شیخ وقاص
وکیل فیصل چوہدری کے مطابق یہ عدالت ہمیں سزا تو دے گی، دیکھنا ہوگا کہ سزا کتنی دیں گے؟ 3 سال 10 سال یا 14 سال، جو بھی سزا دیں گے یہ اپیل میں ختم ہوجائے گی۔
یہ ایک جھوٹا اور جعلی کیسپاکستان تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک جھوٹا اور جعلی کیس ہے۔
شیخ وقاص اکرم کے مطابق جیسے سائفر اور عدت کا کیس اپیل میں اڑ گیا تھا، اس کیس میں بھی کسی عدالت سے سزا کی توثیق نہیں ہو سکے گی۔
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ نیب کے تفتیشی افسر کا اس کیس میں بیان ہے موجود ہے کہ اس کیس سے مالی بے ضابطگی یا مالی فائدہ عمران خان یا بشریٰ بی بی نے حاصل نہیں کیا، اس لیے اب تو یہ مفادات کے ٹکراؤ کا کیس بھی نہیں بنتا۔
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ عدالت انصاف کرے گی اور عمران خان بری ہوں گے، لیکن عدالت کا ماحول دیکھتے ہوئے عدت اور سائفر کی طرح اس میں بھی کوئی اور ہی فیصلہ آنے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:190 ملین پاؤنڈ کی کرپشن سے متعلق فیصلہ آ رہا ہے، انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے، خواجہ آصف
شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ ہماری توقع ہے کہ انصاف ہوگا کیونکہ پورا ملک اس کیس کی طرف دیکھ رہا ہے۔
بینفشری عمران خان نہیںپاکستان تحریک انصاف کے لیگل ٹیم کے رکن ابوذر سلمان نیازی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب قانون ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی مالی فائدہ پہنچتا ہے تو نیب کا دائرہ اختیار آتا ہے، اس کیس میں القادر ٹرسٹ کی زمین کا معاملہ ہے اور یہ زمین ٹرسٹ کی ملکیت ہے، اس لیے عمران خان کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اس کے بینفشری عمران خان نہیں بلکہ وہاں اسکالرشپس پر پڑھنے والے طلبا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب قانون کے مطابق کابینہ کے فیصلے کو استثنیٰ حاصل ہے اس لیے اس کیس کی بنیاد یہاں سے ہی ختم ہوجاتی ہے۔
ابوذر سلمان نیازی کے مطابق اس جج کو عمران خان کے خلاف فیصلہ سنانے کے لیے لگایا گیا ہے اس لیے اگر سزا نہ ہوئی تو مجھے حیرت ہوگی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
190 ملین پونڈ کیس ابوذرسلمان نیازی شیخ وقاص اکرم عمران خان فیصل چوہدری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 190 ملین پونڈ کیس ابوذرسلمان نیازی شیخ وقاص اکرم فیصل چوہدری شیخ وقاص اکرم نے نے کہا کہ کے مطابق کیس میں ہوئی تو اس لیے کیس ہے اس کیس
پڑھیں:
دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
کراچی میں بارشوں کا موسم آتے ہی ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر ہر طرف بس اس ہی سے متعلق خبریں نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوف اور واویلا بپا ہوتا ہے کہ شہر ڈوب رہا ہے، قیامت آگئی ہے، سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، ہر بار یہی منظر نامہ دہرایا جاتا ہے۔ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ کیا بارش اور دریا واقعی آفت ہیں؟ یا آفت وہ ہے جو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟
میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے۔ جب لاہور میں دریائے راوی کو بلڈرز اور طاقتور طبقوں نے اپنے مفاد کی خاطر نوچ ڈالا، اس کے کنارے پر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور دریا سے بہنے کا حق چھین لینے کی کوشش کی تو میں نے تب بھی دل گرفتہ ہو کر قلم اٹھایا تھا۔ آج جب کراچی کے لوگوں کو ملیر اور لیاری ندیوں کے بہاؤ سے خوفزدہ دیکھتی ہوں تو دل اور زیادہ اداس ہوتا ہے۔ یہ اداسی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب میں اپنے ہی شہر کے باسیوں کی بے بسی اور بے خبری دیکھتی ہوں۔
کراچی کے بزرگوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ ملیر اور لیاری موسمی دریا صدیوں سے اس خطے کے دھڑکتے ہوئے دل تھے۔ یہ وہ ندیاں ہیں جنھوں نے اس شہر کے وجود کو سنوارا۔ جب برسات کے موسم میں بادل کھل کر برستے تھے تو یہ ندیاں زندگی کا گیت گاتی ہوئی بہتی تھیں، ان کا شور تباہی نہیں بلکہ حیات کی ایک نغمگی تھی۔ مچھیرے،کاشتکار، عام شہری سب ان ندیوں کے ساتھ جیتے تھے، ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان کے بہاؤ کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ملیر کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں۔ مول (Mol) تھڈو (Thaddo) سکن (Sukhan)، لنگیجی (Langheji) یہ سب برسات کے دنوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہتی تھیں، ان کا شور افراتفری نہیں تھا بلکہ فطرت کا سنگیت تھا۔
پھر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان ندیوں کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا، ان کے کنارے پر پارکنگ پلازہ بنا دیے، ہم نے ان کے راستے میں کنکریٹ کے جنگل اگا دیے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر زمین بیچ ڈالی کہ پانی بھی اپنی راہ چاہتا ہے۔یہی اصل آفت ہے۔ بارش آفت نہیں، دریا آفت نہیں، آفت وہ بے حسی ہے جو ہم میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم نے فطرت کے ساتھ دشمنی مول لی ہے اور اب جب فطرت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ تباہی آگئی۔
مجھے یاد ہے کہ لاہورکے راوی کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا۔ بلڈرز نے خواب بیچنے کے نام پر دریا کی سانس روک دی۔ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کرگھر بنانے گئے اور آج وہ سیلاب کا شکار ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا، دریا کو بہنے دو، کیونکہ اگر ہم دریا کا راستہ روکیں گے تو وہ ایک دن اپنی پرانی پگڈنڈی ڈھونڈ لے گا، فطرت کی یاد داشت انسان سے کہیں زیادہ گہری ہے۔
کراچی کی ملیر اور لیاری ندیاں بھی یہی پیغام دے رہی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ شہرکی بنیادیں فطرت کی شرائط پر رکھی گئی تھیں، ہمارے لالچ اور بدنظمی پر نہیں۔ آج یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ تم چاہے کتنے ہی اونچے پل، فلائی اوور یا ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لو، پانی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
لیاری ندی کے کنارے کبھی بستیاں تھیں، ماہی گیروں کے گاؤں تھے۔ بچے ان کے پانی میں کھیلتے تھے، آج وہی لیاری ندی کچرے، گندگی اور زہریلے پانی سے بھرا ایک خوفناک نالہ بن چکا ہے اور جب بارش کے دنوں میں یہ اپنے پرانے جلال کے ساتھ بہنے لگتی ہے تو شہری چیخنے لگتے ہیں کہ شہر ڈوب رہا ہے۔ نہیں شہر ڈوب نہیں رہا شہر کو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے غرق کیا ہے۔میں جب یہ سب دیکھتی ہوں تو دل پر بوجھ سا بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنی بار لکھوں کسے جھنجھوڑوں؟ لیکن پھر بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں۔
یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ فطرت دشمن نہیں ہے۔ دشمن وہ نظام ہے جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین کو بیچ ڈالو، پانی کے راستے پر قبضہ کر لو، ہر چیز کو منافع میں تول دو۔ اسی نظام نے ہمارے شہروں کو قبرستان بنا دیا ہے۔
کراچی کے لوگ بارش سے ڈرتے ہیں۔ وہ لیاری اور ملیر کے بہاؤ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اصل ڈر ان حکمرانوں سے ہونا چاہیے جنھوں نے اس شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ اصل ڈر ان بلڈرز اور لینڈ مافیا سے ہونا چاہیے جنھوں نے دریا کی زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اصل ڈر اس اندھے ترقی کے تصور سے ہونا چاہیے جو فطرت کو روند کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
ملیر اور لیاری کی ندیاں ہمارے خلاف نہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا، اس کے خلاف نہیں۔ بارش ہو یا دریا کا بہاؤ یہ آفت نہیں یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی لالچ، بدنظمی اور کوتاہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بار بار سمجھاتی ہیں کہ تم نے اگر اپنے راستے درست نہ کیے تو ایک دن تمہاری بستیاں، تمہاری عمارتیں اور تمہاری سڑکیں سب پانی کی لپیٹ میں آجائیں گی۔
یہ دریا ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں کچرے کے ڈھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ندیاں ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری زندگی کی ضامن ہیں۔ میں آج پھر یہی دہرا رہی ہوں یہ کوئی تباہی نہیں ہے، یہ فطرت کی یاد دہانی ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو ہمیں جگا رہی ہے۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔