ریڈیو چھوٹی سی دنیا، کبھی گھر بھر کا لاڈلہ ہوتا تھا
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
ریڈیو کی قدر و منزلت کوئی اُن سے پوچھے جن کے لیے کسی زمانے میں یہ ’کُل کائنات‘ رہی ہے۔ دورِحاضر میں تو گاڑیوں میں لگے ایف ایم کو سرفنگ کرتے ہوئے نوجوان نسل یہ جان نہیں پائے گی کہ کسی دور میں یہ ریڈیو گھر بھر کا ’لاڈلہ‘ ہوتا تھا۔ جس کے ناز نخرے اٹھانے کے لیے ہر کوئی تیار رہتا۔ مہمان خانے میں انتہائی احترام کے ساتھ ریڈیو کی آرام گاہ ہوتی۔
سلیقہ مند خواتین ریڈیو کے لیے خصوصی طور پر خوبصورت اور حسین کپڑے کا کور تیار کرتیں جس پر کشیدہ کاری بھی ایسی ہوتی جو ریڈیوکی ظاہری شکل وصورت کو اور متاثر کن بناتی۔ اگر ریڈیو سننا مقصود نہ ہوتا تو وہ چلمن میں چھپا ہی رہتا۔ ہم جیسوں کے لیے ایک وقت تک ریڈیو کے صرف 2 ہی میڈیم شارٹ ویو اور میڈیم ویو ہوتے لیکن پھر ریڈیو کے خاندانی رکن ایف ایم سے بھی نشریات شروع ہوئیں۔
ریڈیو باکس کے 2بڑے سے لٹو نما پلگ ہوتے جن میں سے ایک سے آواز تیز ہوتی تو دوسرے سے چینل کا انتخاب، اب ان لٹوؤں کو گھمانے کا بھی اپنا ہی الگ مزہ اور لطف تھا۔ نشریات واضح نہ ہوتی تو انٹینا کی لمبائی میں کمی بیشی کی جاتی رہی یا پھر سوئی کو لٹو سے آگے پیچھے زحمت دی جاتی۔
اب پاکستان ہو یا بھارت اسی ریڈیو کے سامنے ہیرو یا ہیرؤئن لہک لہک کر گنگنانے کا بھی کام بھی انجام دینے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے بلکہ کئی فلموں میں اسی ریڈیو سے ہیرؤئن کا محبوب براہ راست ان کے دل کے آنگن میں اپنی محبت کے پھول کھلا رہا ہوتا۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ریڈیو ٹی وی سیٹ کے برابر ہوتے پھر ان کے سائز میں تبدیلی آتی رہی۔ ٹیپ ریکارڈرکے بھی ہم سفر بنے، اور ایسا بھی ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے چھوٹے بڑے سائز کے ریڈیوعام ہونے لگے۔ بالخصوص ٹرانسیٹر کے سائز کی کوئی حد نہ ہوتی۔ تصور کریں کہ کیسا خوش کن اور حسین لمحہ ہوتا جب ریڈیو کو آن کیا جاتا تو سماعت پر یہ دلکش آواز ٹکراتی ’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے پہلے یہ ریڈیو ہی تھا جو تفریح طبع کا کام سرانجام دے رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ محدود ہونے اور پی ٹی وی پر سرکاری اثرو رسوخ کے باعث جب خبر کی تلاش ہوتی تو بیشتر سامعین کا مستند اور قابل اعتماد ذرائع بی بی سی اردو کی نشریات ہوتی جس کے پروگرام ’سیربین‘ کے ذریعے ملکی حالات کے بارے میں علم ہوتا ورنہ پی ٹی وی تو گوشت کے ناغے والے دن کی فوٹیج چلا کر یہی دعویٰ کرتا کہ کاروبار کھلے رہے اور اپوزیشن کی ہڑتال ناکام ہوگئی۔
بی بی سی کے شفیع نقی جامعی اور علی رضا عابدی ’ہاؤس ہولڈ نیم‘ رہے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ ریڈیو پاکستان نے اس عرصے میں اپنا مقام نہ بنایا ہو اس کے مختلف اور متنوع پروگرام ہر ایک کے پسندیدہ ہوتے۔ ان میں بزم طلبہ ہو، یا پھر حامد میاں کے ہاں یا پھر منی باجی یہ بالکل ایسے ہی مشہور تھے جیسے آج کل مختلف ٹی وی چینلز کے ڈرامے یا پروگرام۔
ریڈیو کی افادیت ان دنوں اور زیادہ بڑھ جاتی جب کوئی کرکٹ یا ہاکی کا مقابلہ ہوتا۔ جو ٹی وی پر میچ نہیں دیکھ پاتے یا پھر ٹی وی کی جن ممالک میں نشریات دکھانے کی پہنچ نہ ہوتی تو ایسے میں اکلوتا سہارہ ریڈیو ہی ہوتا۔ منیر حسین، حسن جلیل، عمر قریشی، افتخار احمد یا چشتی مجاہد یا محمد ادریس کرکٹ کی صورتحال پر ایسی منظر کشی کرتے کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کےسامنے ہورہا ہے۔
ان کمنٹیٹرز کی انگلش اور اردو میں کمنٹری ایسی شاندار ہوتی کہ دل چاہتا کہ بس یہ لوگ خاموش نہ ہوں، خیر آج کل تو ٹی وی پر اردو کی کمنٹری سن کر سر پیٹنےکو دل چاہتا ہے کہ شور شرابا زیادہ اور کچھ نہیں۔ دلچسپ صورتحال اس وقت ہوتی جب راہ چلتے کوئی بھی رک کر یہ ضرور پوچھتا کہ اسکور کیا ہوا ہے؟ اور یہ سوال تواتر کے ساتھ دریافت کیا جاتا رہتا لیکن آفرین ہے کمنٹری سننے والے پر جوکسی کے سوال پر ناک بھنویں نہ چڑھاتا بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ ہر ایک کے لیے اُس وقت ’کرک انفو‘ کی خدمات انجام دیتا۔
جس کے بعد اسکور پوچھنے والا اپنا ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا۔ کرکٹ کی طرح ہاکی کے کمنٹیٹرز بھی اپنی خوبصورت اور شائستہ کمنٹری کی وجہ سے منفرد اور اچھوتی پہچان رکھتے۔ چاہے وہ ایس ایم نقی ہوں یا پھرذاکر حسین سید، اقبال ہاشمی، مظاہر باری یا پھر فاروق مظہر۔
کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے روز رات 10بجے کے قریب نشر ہونے والے ’عالمی اسپورٹس راؤنڈ‘ میں خصوصی دلچسپی ہوتی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی کھیل ہو اس شو کے ذریعے بھرپور معلومات مل جاتی۔ اس شو کبھی عظیم سرور تو کبھی سید محمد نقی پیش کرتے۔ درحقیقت اسی شو میں مختلف رپورٹس پیش کرنے والی بیشتر شخصیات، دورحاضر کے کامیاب اسپورٹس رپورٹرز اور کچھ پروگرام اینکرز بھی بن چکے ہیں۔
پھر کیسے بھول سکتے ہیں آپ ریڈیو پروگرام کا ’یہ بچہ کس کا‘؟ کو جس کے ذریعے والدین اور اپنوں سے بچھڑے بچوں کی معلومات اور پھر ان کی گفتگو نشر کی جاتی جس کا مقصد اس بچے کو اس کے گھر تک پہچانا ہوتا۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں ریڈیو کے صداکاروں کو خاص اہمیت دی جاتی کیونکہ انہیں جہاں تلفظ کی آگہی ہوتی وہیں انہیں مکالمات کی ادائیگی کے لیے جذبات اور احساسات کے اظہار کا ہنر آتا۔
ہماری اردو کی ٹیچر تو بطور خاص یہ ہدایت دیتیں کہ تلفظ اور ادائیگی کو بہتر بنانا ہے تو ریڈیو ضرور سنا کریں۔ زمانہ تو وہ بھی تھا جب پاکستان میں آل انڈیا ریڈیو کی نشریات ’کیچ‘ ہوتی اور دن کے 3اوقات میں فرمائشی گیت نشر ہوتے۔ ایک گانے کو سننے کے لیے پتا نہیں کہاں کہاں سے فرمائش آتی۔ لتا، آشا، کشور، رفیع یا پھر محمد عزیز کے گانے سنائے جاتے۔
کیونکہ ذرائع انتہائی محدود تھے تو پاکستانی پرستاروں کے لیے یہ گانے خاصی کشش رکھتے۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی آل انڈیا ریڈیوسروس سے پاکستان مخالف پروپیگنڈا بھی کیا جاتا جس کا بھرپور اور منہ توڑ جواب ریڈیو پاکستان کمال خوبی سے دیتا۔
اور پھر ٹیکنالوجی نے کروٹ بدلی تو 90کی دہائی کے کچھ سال بعد پاکستان میں ایف ایم چینل کا آغاز ہوا۔ ریڈیو کے ان آر جےز کا ماڈرن اور بے تکلف انداز سننے والوں کے کانوں کو بھلا لگا۔ ایسے میں ان کی مدھر، مترنم اور دل کش آواز کو سن سن کر ہر سامع نے مختلف آر جے کا تصوراتی خاکہ بھی بنالیا۔
جب پاکستان کے پہلے ایف ایم چینل نے اپنا جریدہ نکال کراپنے آر جے کے انٹرویوز شائع کیے تو کئی سامعین نے ان میں سے کئی کو دیکھ کر اپنے تصوراتی خاکے پر مایوسی ظاہر کی۔ اس وقت درجنوں ایف ایم چینلز ہیں ہر زبان اور ہر انداز کے، جنہیں پسند کرنے والوں کا الگ الگ اپنا حلقہ ہے۔ کہاں کسی زمانے میں جب ریڈیو سے مخصوص اوقات میں نشریات آتی تھی اب 24 گھنٹے ایف ایم ریڈیو کام کررہے ہیں۔
ہمیں تو یاد نہیں کہ ہم نے کب شارٹ ویو یا میڈیم ویو پر کچھ سناہو۔ خیر اب گاؤں دیہات میں کوئی چارپائیاں ڈال کر ریڈیو تو نہیں سن رہا ہوتا کیونکہ اسمارٹ فون کے ذریعے تو اب بصری سہولت جو مل رہی ہے۔ بہرحال آنکھیں اور کان بس ترس ہی گئے ہیں یہ منظر دیکھنے اور سننے کو جب کوئی کانوں پر چھوٹا سا ٹرانسیٹر لگا کر جارہا ہو اور راہ گیر روک کر پوچھے ’ہاں بھئی اسکور کیا ہوا ہے؟‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے ذریعے ایف ایم نہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 ستمبر 2025ء ) رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے معاملے پر رائے دینے پر تنقید کی زد میں آگئے۔ تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پہلے جج صاحبان پر پی سی او کے حلف یافتہ ہونے کی پھبتی کسی جاتی تھی کہ انہوں نے آئین کو پس پشت ڈال کر آمروں کی وفاداری کا حلف اٹھایا، پھر 2007ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے اور عدلیہ کے زوال کا ایک نیا دور شروع ہوا، انہوں نے خود پی سی او حلف یافتہ حج ہونے کے باوجود دوسرے پی سی او حلف یافتہ جج صاحبان کو منصب سے فارغ کردیا، اس کے بعد بیرسٹر اعتزاز احسن کے مطابق متکبر جوں اور متشدد وکلاء کا دور شروع ہوا اور آئین کو آمر کے بجائے اپنی خواہشات اور انا کے تابع کر دیا۔(جاری ہے)
ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، گلزار احمد، اعجاز الاحسن، عظمت سعید شیخ، مظاہر نقوی اور منیب اختر وغیرہ نے وہ حشر بپا کیا کہ الامان والحفیظ! مارچ 2009ء میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد عدلیہ کے تنزیل و انتشار کا سلسلہ رکنے میں نہیں آرہا، بعض حجج صاحبان نے ایسے فیصلے دیئے جو آئین کو ازسر نو لکھنے کے مترادف ہیں، عدم اعتماد کی بابت پہلے فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کے حکم کی پابندی اُس جماعت کے ارکان پر لازم ہوگی پھر جب مصلحت بدل گئی تو فیصلہ دیا کہ سیاسی جماعت کے سر براہ کی نہیں بلکہ پارلیمانی لیڈر کے حکم کی تعمیل لازم ہوگی۔ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین کہتے ہیں کہ اب جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے جعلی ہونے کا مسئلہ ہے، آئین پسندی، نیز دینی منصبی اور اخلاقی حمیت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو رضا کارانہ طور پر محاسبے کے لیے پیش کر دیتے اور خود چیف جسٹس کو لکھتے کہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کر کے میرے کیس کا فیصلہ صادر کیجیے اور اپنی ڈگری کی اصلیت کو ثابت کر کے سرخرو ہوتے کیونکہ ” آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک‘ یعنی جس کا حساب درست ہے اُسے خود کو محاسبے کے لیے پیش کرنے میں کس بات کا ڈر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہچکچاہٹ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ شاید پوری دال ہی کالی ہے، جعل سازی کو حرمت عدالت کے غلاف میں لپیٹا نہیں جاسکتا، نیز اصول پسندی اور آئین پابندی کا تقاضا ہے کہ اس کی بابت اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُن کے ہم خیال بقیہ چارج صاحبان کا مؤقف بھی آنا چاہیئے، جوڈیشل کمیشن کا ایسے مسائل کو طویل عرصے تک پس پشت ڈالنا بھی عدل کے منافی ہے، جیسے قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا معاملہ اب تک التوا میں ہے۔ مفتی منیب الرحمان کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے کورٹ رپورٹر مریم نواز خان نے لکھا کہ چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے، سب بولو سبحان اللہ!چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے!
سب بولو سبحان اللہ! https://t.co/U41JkKAZL6
مفتی منیب آخری عمر میں منیب فاروق کیوں بن گئے ہیں؟
— Rizwan Ghilzai (Remembering Arshad Sharif) (@rizwanghilzai) September 17, 2025 ایک ایکس صارف انس گوندل نے سوال کیا کہ مفتی منیب الرحمان کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟مفتی منیب الرحمن کس کی ترجمانی کر رہے ہیں؟
— Anas Gondal (@AnasGondal19) September 17, 2025 صحافی طارق متین نے استفسار کیا کہ مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں۔مفتی منیب الرحمان صاحب کو یہ ثقیل اردو اور فارسی اصطلاحات صرف عمران خان مخالفین کے حق میں ہی کیوں یاد آتی ہیں
— Tariq Mateen (@tariqmateen) September 17, 2025