سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے سویلینز کے ٹرائل کیلئے فوجی عدالتوں میں پیش کردہ شواہد کا جائزہ لینے کا عندیہ دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کیس کی سماعت کی جہان جسٹس امین الدین خان نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ ’کون سے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے؟ مقدمات منتقل کیوں ہوئے اس کو مختصر رکھیے گا، ججز کے اس حوالے سے سوالات ہوئے تو آخر میں اس کو بھی دیکھ لیں گے‘۔ اس کے جواب میں خواجہ حارث نے بتایا کہ ’سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن 59 (4) کو کالعدم قراردیا ہے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے دفعات 2 ڈی (1) اور 2 ڈی (2) کے تناظر میں آرمی ایکٹ دیکھا جائے گا، سویلنز کا ٹرایل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31 ڈی کے تحت آتا ہے‘، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’سیکشن 31 ڈی تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے، آرمی ایکٹ کے میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا‘۔ اس پر خواجہ حارث نے دلیل اپنائی کہ ’فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے‘، اس کے جواب میں جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’نماز سے دور رہنے حکم ہے لیکن صرف نشے کی حالت میں، فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے‘، اسی پر جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ ’آئین تو بہت سے ٹربیونلز کی بھی توثیق کرتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ کون سے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں؟‘، جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ ’کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہے؟‘، س پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل ہی ہوتا ہے‘۔ دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’آرمی ایکٹ میں آئین معطل کرنے کی کیا سزا ہے؟‘ خواجہ حارث نے بتایا کہ ’آئین کے آرٹیکل 6 میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے، آئین کا آرٹیکل 6 ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے، آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے‘، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’ماضی میں عدلیہ مارشل لاء کی توثیق کرتی رہی ہے، کیا غیرآئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں؟‘، اس کے جواب میں جسٹس محمد علی مظہر نے نشاندہی کی کہ ’پرویز مشرف کیس میں سنگین غداری ٹرائل میں ججز کے نام دیئے گئے تھے لیکن بعد ازاں ججز کے نام نکال دیئے گئے‘۔ اس موقع پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ ’کیا ہم فوجی عدالتوں کے حالیہ فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ کیا ہمیں دکھایا جائے گا کہ ٹرائل میں قانون پر عملدرآمد ہوا یا نہیں؟‘، جسٹس امین الدین نے تائید کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’اگرضرورت ہوئی تو عدالت آپ سے ریکارڈ مانگ لے گی، سزا یافتہ لوگوں نے اپیلیں بھی کرنی ہیں جس پر اثرانداز نہیں ہونا چاہتے‘، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’بنچ سربراہ سے معذرت کے ساتھ ملٹری کورٹس فیصلوں کا جائزہ لینا ضروری ہے، ضابطہ فوجداری میں بھی لکھا توسب ہے لیکن قانون کے مطابق ٹرائل نہ ہونے پر ہی اپیل ہوتی ہے‘۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ ’موجودہ کیس میں ٹرائل روکے بھی سپریم کورٹ نے تھے، فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی مشروط اجازت بھی سپریم کورٹ نے ہی دی، دیکھنا چاہتے ہیں کیا ملزمان کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے دیئے گئے یا نہیں؟ فوجی عدالت میں پیش کردہ شواہد کا معیار بھی دیکھنا چاہتے ہیں‘، جس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’تمام مقدمات تو نہیں ایک کیس کا ریکارڈ عدالت کو دکھا سکتے ہیں، عدالت شواہد کا میرٹ پر جائزہ نہیں لے سکتی‘، اس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ’ہم کسی سے ذکر نہیں کریں گے لیکن عدالت جائزہ لینے کا اختیار رکھتی ہے‘، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ’جائزہ لینے کے اختیار کی حد تک آپ سے متفق ہوں‘، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

آئی این ایف معاہدہ ختم، روس کی جانب سے میزائل پابندی ختم کرنے کا عندیہ

 

⁠⁠⁠⁠⁠⁠⁠

روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ روس کی جانب سے درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے اپنے میزائلوں کی تعیناتی معطل کرنے کے اقدامات کا خاتمہ ایک فطری نتیجہ ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک نے ماسکو کے صبرو تحمل مبنی موقف کو اہمیت نہیں دی۔ ریابکوف نے کہا کہ آئی این ایف معاہدہ ختم ہونے کے بعد روس کے تحمل کو نہ تو امریکہ اور نہ ہی اس کے اتحادیوں نے سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی روس کو اس کا کوئی ریسپروکل جواب ملا۔ لہٰذا روس کے لیے یہ ایک منطقی نتیجہ ہو گا کہ وہ درمیانے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے زمینی میزائلوں کی تعیناتی پر اپنی یکطرفہ پابندی ختم کر دے۔

ریابکوف نے یہ بھی کہا کہ روس میزائل کے اصل خطرے کے سامنے جوابی اقدامات کرنے پر مجبور ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے رہنماؤں نے 1987 میں آئی این ایف معاہدے پردستخط کیے تھے۔ معاہدے کے مطابق دونوں ممالک 500 سے 5500 کلومیٹر تک مار کرنے والے زمین پر مبنی کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے مالک نہیں رہیں گے اور نہ ہی ان میزائل کی تیاری یا تجربہ کریں گے۔ فروری 2019 میں ، امریکہ نے یکطرفہ طور پر آئی این ایف معاہدے سے دستبرداری کا عمل شروع کیا۔ 2 اگست ، 2019 کو امریکہ نے باضابطہ طور پر آئی این ایف معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور پھر امریکہ اور روس نے آئی این ایف معاہدے کے خاتمے کا اعلان کیا ۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • بجٹ، سپریم کورٹ کے اخراجات کیلئے 6.64 ارب روپے مختص
  • فنانس ایکٹ کے تحت ایف بی آر کے ا ختیارات میں مزیداضافہ تجویز، سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی زد پر آئیں گے
  • بجٹ 26-2025 : سپریم کورٹ کے اخراجات کیلئے 6 ارب 64 کروڑ روپے مختص
  • بدقسمتی، خواجہ آصف کا غزہ سے متعلق مسلم دنیا کی خاموشی پر اظہار افسوس
  • خواجہ سعد رفیق کی چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے پر تنقید
  • آئی این ایف معاہدہ ختم، روس کی جانب سے میزائل پابندی ختم کرنے کا عندیہ
  • آئی جی ڈاکٹر عثمان انور کا پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کا دورہ، سکیورٹی و صفائی انتظامات کا جائزہ لیا
  • پہلگام حملے سے سیز فائر تک کئی سوالات برقرار، بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں
  • عید کے بعد سپریم کورٹ میں سیاسی مضمرات کے حامل کونسے مقدمات زیر سماعت آئیں گے؟
  • جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟