’’بے ہوش ہونے سے پہلے تین دفعہ کلمہ پڑھا۔۔۔!‘‘
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
اُفتاد اور بن بلائے مہمان کی فطرت کچھ ایک جیسی ہوتی ہے، کسی بھی دن کہیں سے دروازے پہ آن دھمکتے ہیں اور پھر بے چارے میزبان کے ہاتھ پاؤں پھولے جاتے ہیں۔
جن دنوں اس اُفتاد نے ہماری زندگی کا دروازہ کھٹکھٹایا اُن دنوں زندگی کچھ یوں بھی ریاضی کے پرچے کی طرح تھی، سوال، در سوال، در سوال! کبھی فارمولا صحیح، تو جواب غلط اور کبھی فارمولا غلط ہے تو جواب درست۔۔۔! زندگی کے کچھ ذاتی مسائل اور والد صاحب کی طبیعت نے بدحواس کر رکھا تھا۔ بے ساختہ محسن نقوی کا ایک شعر یاد آیا؎
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخ رُو کر کے!
ہوا کچھ یوں کہ ایک روز ہمیں جسم میں معمولی تبدیلی کا احساس ہوااور بائیں جانب سینے میں نیچے کی طرف ایک چھوٹی سی گلٹی محسوس ہوئی۔ شروع میں کچھ دن ہم اس سے نظریں چرانے کی کوشش کرتے رہے، کیوں کہ اس وقت ہمارے لیے ہماری صحت سے کہیں زیادہ ضروری تھا ’پاپا‘ کو ’غذائی نالی‘ (این جی) کی اذیت سے نجات دلوا کر Pac tube لگوانا۔ البتہ امی کو ہلکے سے اس گلٹی کے بارے میں بتایا، جسے سن کے وہ بہت پریشان ہو گئیں اور انھوں نے فوری طور پہ ہمیں ’الٹرا ساؤنڈ‘ کروانے کے لیے کہا، گھر کے قریبی اسپتال سے جب الٹراساؤنڈ کروایا تو ڈاکٹر نے سینے میں ایک چھوٹی سی سسٹ (cyst) ہونے کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ بہت چھوٹی سی ’سسٹ‘ ہے زیادہ پریشان ہونے والی بات نہیں ہم مطمئن ہو کے گھر واپس آگئے اور اطمینان سے اپنے پاپا کا ٹریٹمنٹ کروایا، لیکن اس دوران ہی یہ محسوس ہونا شروع ہوا، جیسے بائیں طرف کچھ تو ہے، جو صحیح نہیں ہے اس بار تذکرہ ایک دوست سے کیا، تو اس نے سنتے ہی سر پکڑ لیا، بہت سختی سے دوبارہ الٹراساؤنڈ کروانے کے لیے کہا۔ ہم اس وقت بھی اسے قبول کرنے کی کیفیت میں نہ تھے، مگر 20 دن کے بعد ہونے والے اس الٹراساؤنڈ کے نتیجے کو دیکھ کر ڈاکٹر نے ہمیں ٹھیک ٹھاک ڈرا دیا اور فوری طور پہ ’میموگرافی‘ کا مشورہ دیا۔
پچھلے برس یہ جنوری ہی کا مہینا تھا، ہم نے اپنے اسکول میں پرنسپل کو اطلاع دی، تاکہ منجیمنٹ دماغی طور پر ہر چیز کے لیے تیار رہے اور متبادل ٹیچر کا بندوبست ان کے پاس موجود رہے۔ کہیں نہ کہیں دل میں ہم خود کو یہ کہہ کے تسلیاں دے رہے تھے کہ ان شا اللہ ہمیں کینسر جیسا کوئی مرض نہیں ہوگا، کیوں کہ ہم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنی صحت، ورزش اور بہترین خورا عک کا بہت اہتمام کیا ہے اور الحمدللہ کبھی نزلے کھانسی سے زیادہ کوئی بیماری نہیں ہوئی۔ مگر ’میموگرافی‘ کی رپورٹ سے بائیں جانب سینے میں دو جگہ اس موذی برض کے خدشات کا انکشاف کیا اور فوری طور پہ ہمیں ’بائیوپسی‘ کے لیے کہا گیا اور دو مہینے میں پہلی بار ہم نے گھبراہٹ محسوس کی۔ ایک کے بعد ایک اچھے اسپتال کے oncologist سے مشورہ لیا کہیں نہ کہیں دل میں ایک بہت موھم سی امید باقی تھی کہ کوئی oncologist یہ کہہ دے کہ ہمیں ’بائیوپسی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر ہر وہ شخص جو اس مرض کے بارے میں ذرا سا بھی جانتا تھا۔ اس سے ہمیں جلد سے جلد ’بائیوپسی‘ ہی کروانے کا مشورہ دیا۔
بھلے سے کوئی کچھ بھی کہے کہ یہ مرض قابل علاج ہے اور آج کل تو اتنے اچھے علاج آگئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب ڈاکٹر آپ کو یہ بتاتا ہے نا کہ آپ کو دوسری اسٹیج کا ’بریسٹ کینسر‘ ہے، تو ایک لمحے کے لیے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔ بہت حوصلے کے ساتھ امی کو فون کیا اور کہا ’ماں پریشان مت ہوئیے گا، ڈاکٹر نے ابھی دوسری اسٹیج کا بریسٹ کینسر تشخیص کیا ہے، کچھ ٹیسٹ لکھے ہیں، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کینسر ہمارے جسم میں کہاں تک پھیلا ہوا ہے، گھر واپس آتے آتے تھوڑا وقت لگ جائے گا۔۔۔‘‘
دوسری طرف سے امی نے بہت ہی حوصلے سے کہا ’’ہاں بیٹا، تم پریشان مت ہونا، ان شا اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا!‘‘ یہ اور بات ہے کہ بعد میں بچوں نے بتایا کہ نَنّا (نانی) بہت پھوٹ پھوٹ کی روئیں فون بند کرنے کے بعد۔ یہ خبر ہمارے خاندان پر کسی بم کی طرح گری، محلے میں اسکول کے ساتھیوںکو یہ پتا چلا، ہر طرف ایک ہل چل مچ گئی۔
ہر کوئی سوال کر رہا تھا ’سحر۔۔۔! آپ کو بالکل کچھ محسوس نہیں ہوا۔۔۔؟ سحر! آپ کو کچھ بھی پتا نہیں چلا۔۔۔؟ کیا آپ کو درد ہوا تھا۔۔۔؟ وغیرہ وغیرہ اور ہم نے سب کو صرف ایک جواب دیا اس موذی مرض کا پتا ہی تو نہیں چلتا اور پہلی دفعہ احساس ہوا کہ درد تو دوست ہوتا ہے۔ درد ہوتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ توجہ کہاں کرنی ہے اور علاج کہاں کرنا ہے۔ کچھ ساتھیوں نے تسلی بھی دی تو یہ کہا کہ ’’پریشان مت ہوئیے، زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا، ڈاکٹر آپ کا یہ حصہ کاٹ دیں گے، مگر زندگی سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں ہے!‘‘ اور یہ سن کے ہم سوچتے تھے ’’کیا واقعی؟ یہ کوئی اتنی معمولی سی بات ہے۔۔۔؟ ایک عورت کے لیے اس کے جسم کے اس حصے کی کیا اہمیت ہوتی ہے کیا لوگ اس سے اَن جان ہیں؟
ماں کی آنکھوں میں خوف دیکھا، ایک نظر بستر پر پڑے ہوئے باپ کو دیکھا، تو خود پہ ہنسی آگئی کہ ’سحر بی بی! نہ آپ حوصلہ ہار سکتی ہیں، نہ آپ مر سکتی ہیں اور رونے پیٹنے کا تو سوچیے گا بھی مت! گھر میں خاندان والوں کا تانتا بن گیا۔ جو ملک سے باہر تھے، وہ کال پہ تسلیاں دینے لگے۔۔۔ اکلوتا بھائی چھٹیاں لے کے پاکستان آنے کو تیار۔۔۔ بڑی مشکل سے اُسے روکا۔ نہیںمعلوم کون لوگ ہوتے ہیں، جن کی پھوپھیاں پھاپھا کٹنی، خالہ میسنی ، ماموں حق تلف اور چچا کم ظرف ہوتے ہیں۔۔۔! یہاں تو یہ عالَم کہ پھوپھو کی ہچکی بن گئی روتے روتے، چچا نے خبر سنی تو کپکپا کر بیٹھ گئے، خالہ، ماموں ہر دوسرے دن حوصلہ دینے کو موجود۔ سب کے لیے اس وقت ہم بہت بہادر بیٹی تھے، لیکن سچ تو یہ تھا دنیا کے سامنے بہت ہمت والی عورت اندر کئی کئی بار ٹوٹی اور کئی بار خود کو سنبھالا!
14 مارچ کو لیاقت اسپتال کے ’پرائیویٹ وارڈ‘ میں داخل ہوئے، اگلے دن ہماری سرجری ہونا تھی، ڈاکٹر نے پہلے صرف گلٹی اور اطراف میں پھیلا ہوا کینسر ختم کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ہمیں یہ بتایا جا چکا تھا کہ اگر اس کے بعد ہونے والی بائیوپسی کے ٹیسٹ میں دوبارہ کینسر کی جراثیم دکھے تو یہی سرجری دوبارہ ہوگی۔ وہ رات قیامت کی رات تھی۔۔۔! دل کیا، ساتھ موجود اپنے میاں سے لپٹ کر خوب روئے، مگر ہمارے مسٹر پرفیکٹ اس ڈیپارٹمنٹ میں بالکل زیرو ہیں۔
وہ پہلے ہی بہت صاف لفظوں میں کہہ چکے تھے کہ ’’یار ٹریٹمنٹ سے لے کر فائنانس تک ہر چیز میں بہت اچھے سے دیکھ سکتا ہوں، اس سے زیادہ کہ مجھ سے کوئی توقع مت رکھنا۔۔۔!‘‘ دوسرے دن آپریشن تھیٹر سے باہر بے آواز رو رہے تھے! سرجن صاحبہ نے ہمیں دیکھا، تو تسلی دی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے بے ہوش ہونے سے پہلے ہم نے تین دفعہ کلمہ پڑھا تھا۔۔۔! اور یہ مرحلہ بہت اچھی طرح سے طے ہو گیا۔ ہمارے ڈاکٹروں نے کام یابی سے یہ مرحلہ طے کرلیا اور جسم کے کسی حصے کو الگ کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
اس کے بعد ’کیموتھراپی‘ کا مرحلہ تھا۔ کہنے کو تو یہ ایک معمولی سا ماجرا ہے، جو ڈیڑھ سے ڈھائی گھنٹے میں ختم ہو جاتا ہے، مگر یہ انسان کے جسم میں جا کر جو حشر کرتا ہے، اس اذیت کا بیان کرنا مشکل ہے۔ منہ کا ذائقہ ختم، پیٹ خراب، منہ میں چھالے اور الٹیاں۔ سفید خلیوں کو بچانے کے لیے پیٹ میں ہر کیمو کے بعد سات دن تک لگاتار انجیکشن لگتے تھے۔ راتیں روز محشر کی طرح طویل اور اذیت ناک ہو گئی تھیں۔ اور تب ہمیں فراق کے اس شعر کے معنی سمجھ آئے۔۔۔
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
روز گُچھوں کے حساب سے سر کے بال جھڑنے لگے۔۔۔ جسے دیکھ کر امی پھوٹ پھوٹ کر روتی تھیں اور ہم ہنستے تھے۔۔۔! پہلی کیمو کے چودھویں روز سر کے کافی سارے بال ایک جتھے کی طرح اپس میں جڑ گئے، انھیں سُلجھانے کی کوشش کی تو سارا سر بالوں سے صاف ہو گیا.
ایسے میں ایک دوست تھا، جس نے بڑا ساتھ دیا، وہ ایک واحد شخصیت تھا، جس کے سامنے ہم پھوٹ پھوٹ کر روتے تھے، اپنا چڑچڑا پن، اپنی ڈپریشن، اپنی تکلیف اور اذیت، ہر چیز تفصیل سے بیان کرتے تھے، وہ ہمیں برداشت کرتا تھا، اس نے ہمارے بالوں کے بغیر سر کو دیکھا تو کہا کہ ’واؤ! سحر تم تو بالکل ڈیمی مور جیسی لگ رہی ہو! بہت خوب صورت۔۔۔!‘ اور ہم ایک دفعہ پھر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگے تھے۔
کیمو تھراپی کا ہر سیشن اذیت کی ایک داستان تھا، یوں لگتا تھا جیسے کسی نے جسم میں انگارے بھر دیے ہیں، بیٹھے بیٹھے حالت خراب ہونے لگتی تھی، پسینے چھوٹنے لگتے تھے۔ دو مہینے کے بعد کی 15 دن کے بہ جائے ایک ہفتے کے وقفے سے ہونے لگی، تو اینگزائٹی کے دورے پڑنا شروع ہو گئے۔ ڈرپ کے دوران ہی بے چین ہو کے چیخیں مارنے لگتے تھے، تب ڈاکٹر نے ہمیں نیند کی دوائی دی، جس سے کافی افاقہ ہوا۔ خود کو اس ’صدمے‘ سے نکالنے کے لیے دوبارہ اسکول جانا شروع کردیا۔
ہم روزانہ کاجل پینسل سے اپنی بھویں بنایا کرتے۔۔۔ اسکارف پہننا شروع کر دیا۔۔۔ ساری خود اعتمادی کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ اگر ہمارے ساتھ سب سے اچھا یہ ہوا کہ ارد گرد سب لوگوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا اور دوبارہ زندگی کی طرف آنے میں بے حد معاونت کی۔
اس کے بعد ایک آخری مرحلہ ’ریڈی ایشن‘ کا تھا، ہمیں 20 دن ریڈییشن بھی کروانی پڑی، ریڈیشن کا مرحلہ تو پتا بھی نہیں چلا، کیسے گزر گیا۔ اور وہ بھیانک خواب، جو پچھلے سال دسمبر میں شروع ہوا تھا الحمدللہ اس سال دسمبر میں ختم ہوگیا۔ آخر میں ہم صرف اتنا کہنا چاہیں گے کہ یہ بیماری کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔۔۔ ضروری نہیں ہے کہ اس حوالے سے بڑوں یا خاندان میں اور کوئی متاثر رہا ہو، یا آپ کو کبھی کوئی بیماری نہیں رہی یا آپ بہت صحت مند ہیں۔ تو اپ کو یہ بیماری نہیں ہوگی اس لیے اپنا اور اپنے ارد گرد رہنے والی خواتین کا بہت خیال رکھیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر نے نہیں ہے کے ساتھ دیکھ کر کے لیے کے بعد کی طرح ہے اور
پڑھیں:
کرایہ
میں نے پانی دیا اور انھوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ پھیرا‘ ان کی آنکھوں میں پدرانہ شفقت تھی‘ وہ مجھے اس وقت پورے جنگل کے والد لگ رہے تھے‘ ایک ایسا والد جو شام کے وقت اپنے پورے کنبے کو دیکھتا ہے تو اس کی گردن فخر سے تن جاتی ہے۔
ان کے چہرے پر بھی تفاخر تھا‘ وہ تمکنت سے دائیں بائیں دیکھ رہے تھے اور میں ہاتھ میں بالٹی اٹھا کر انھیں تک رہا تھا‘ جنگل بہار کی پہلی بارش سے مہک رہا تھا‘ میں نے بالٹی نیچے رکھی اور ایک لمبی سانس لی‘ وہ مجھے سانس لیتے دیکھ کر خوش ہو گئے‘ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا ’’زبردست‘ شاباش‘ جب بھی خوش ہو‘ جب بھی اداس ہو‘ ایک لمبی‘ جی بھر کر سانس لو اور اللہ کا شکر ادا کرو‘ یہ سانس اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے‘ میں آج تمہیں دعا کی قبولیت کی دو گھڑیاں بتاتا ہوں‘ آپ جی بھر کر لمبی سانس کھینچو‘ اتنی لمبی کہ مزید سانس کی گنجائش نہ رہے‘ اس کے بعد سانس کو ہولڈ کرو اور سانس خارج کرنے سے پہلے دعا کرو‘ یہ دعا ضرور قبول ہو گی‘ آپ نے اکثر سنا ہو گا‘ انسان کو مظلوم اور بلی کی بددعا سے بچنا چاہیے‘ یہ بات درست ہے کیوںکہ مظلوم انسان اور بلی ہمیشہ ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بددعا دیتے ہیں۔
یہ سانس کھینچتے ہیں اور بددعا دیتے ہیں‘ ہندو جوگی اکثر اپنے بالکوں سے کہتے ہیں‘ تم روتے ہوئے بچے اور بین کرتی عورت سے بچو‘ یہ ہمیشہ تیز تیز سانس کے درمیان بددعائیں دیتے ہیں اور یہ قبولیت کا وقت ہوتا ہے اور دوسرا جب بچہ پہلی چیخ مارتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کا لمحہ ہوتا ہے‘ ہم کیسے ہیں‘ ہم اچھے ہیں یا برے اس کا فیصلہ عموماً ہماری ماؤں کی وہ دعائیں کرتی ہیں جو اس وقت ان کے دل‘ ان کی زبان پر آتی ہیں‘ جب ہم دنیا میں آ کر پہلی چیخ مارتے ہیں‘ یہ ہماری زندگی کا حساس ترین وقت ہوتا ہے‘ ہماری ماں اس وقت ہمارے بارے میں جو سوچتی ہے‘ ہم زندگی میں وہ بن جاتے ہیں چناںچہ ماؤں کو زچگی کے دوران اپنے بچے کے بارے میں ہمیشہ اچھا سوچنا چاہیے اور منہ سے اچھے الفاظ نکالنے چاہییں‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر الحمد للہ کہا اور آہستہ آواز میں بولے ’’میں جب بچہ تھا اور اپنے شیخ کی خدمت میں مصروف رہتا تھا تو میرے شیخ اکثر اوقات اپنے ان مریدوں کے گھروں میں ڈیرے ڈال لیتے تھے۔
جہاں بچے کی امید ہوتی تھی‘ وہ عموماً زچگی کی راتوں میں ساری رات نوافل پڑھتے تھے‘ میں اکثر دیکھتا تھا‘ ہمیں جب زنان خانے سے نومولود کے چیخنے کی آواز آتی تھی تو میرے شیخ پر وجد طاری ہو جاتا تھا اور وہ زور زور سے فرماتے تھے‘ یا اللہ مجھے روحوں کا علم دے دے‘ یا اللہ مجھے روحوں کے علم سے نواز دے‘ وہ یہ دعا اس وقت تک کرتے رہتے تھے جب تک بچے کی چیخیں بند نہیں ہو جاتی تھیں‘ وہ اپنی مریدنیوں سے بھی فرماتے تھے‘ بیٹا تمہارے بچوں کا مقدر تمہاری زبان پر لکھا ہے‘ تم جب انھیں جنم دیتی ہو تو اس وقت تم ان کے لیے جو مانگتی ہو‘ اللہ وہ ان کے نصیب میں لکھ دیتا ہے‘ ‘ وہ سانس لینے کے لیے رکے اور پھر فرمایا ’’آپ نے اکثر بزرگوں سے سنا ہو گا۔
انسان اللہ تعالیٰ سے رو کر جو کچھ مانگتا ہے اللہ اسے دے دیتا ہے‘ یہ بات درست ہے‘ اللہ تعالیٰ واقعی روتے ہوئے انسان کی دعا سنتا ہے لیکن ہم نے کبھی اس کی وجہ تلاش کی؟ نہیں تلاش کی‘ اس کی وجہ بہت سیدھی سادی ہے‘ ہم انسان روتے وقت تیز تیز سانس لیتے ہیں‘ ان سانسوں کے درمیان ہمیں ’’ہوکا‘‘ لگ جاتا ہے اور اس ’’ہوکے‘‘ کے درمیان بولے ہوئے لفظ دعا یا بددعا بن جاتے ہیں‘‘ وہ رکے اور پھر بولے ’’ میرا مشورہ ہے‘ دن میں کم از کم دس پندرہ مرتبہ پیٹ بھر کر سانس لیا کرو اور اس دوران توبہ اور شکر ادا کیا کرو‘ یہ دونوں افضل ترین عبادتیں بھی ہیں اور شان دار دعائیں بھی‘‘ وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور آگے چل پڑے۔
ہماری اگلی منزل پانی کی چھوٹی سی نالی تھی‘ وہ نالی کے کنارے بیٹھے‘تھیلے سے کھرپہ نکالا اور نالی کو بڑا کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہم نالی کو پانی کے بہاؤ کے رخ کھلا کرتے رہے‘ نالی چیڑھ کے درختوں کے قریب پہنچ کر ختم ہو گئی‘ وہ وہاں رکے‘ کولہوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھے اور دائیں بائیں دیکھنے لگے‘ چیڑھ کے بڑے درخت کے قریب سے پانی کی ایک چھوٹی سی خشک لکیر جھاڑیوں کی طرف جا رہی تھی‘ وہ اس لکیر پر چلنے لگے‘ لکیر جھاڑیوں کے قریب پہنچ کر رک گئی‘ وہ نیچے بیٹھے‘ کھرپے سے جنگلی گھاس کو دائیں بائیں کیا اور قہقہہ لگا کر بولے ’’اوئے تم یہاں چھپے بیٹھے ہو‘‘ میں نے نیچے جھک کر دیکھا‘ وہاں ایک چھوٹا سا پودا تھا‘ وہ مسکرا کر بولے ’’جنگلوں میں چیڑھوں کو پانی کی ضرورت نہیں ہوا کرتی‘ پانی کی یہ نالیاں ان ننھے اور کمزور پودوں کے لیے بنتی ہیں۔
میں نے نالی کو چیڑھوں پر ختم ہوتے دیکھا تو مجھے محسوس ہوا‘ پانی کا یہ عمل صرف یہاں ختم نہیں ہو سکتا‘ کوئی اور بھی ہے جسے بہار کے اس موسم میں پانی کی ضرورت ہے اور ہم نے اس بے چارے کو تلاش کر لیا‘ آؤ ہم اب اس کے مقدر کے پانی کا بندوبست کرتے ہیں‘‘ وہ اس کے بعد اٹھے اور کھرپے سے پانی کی خشک لکیر گہری کرنے لگے‘ میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا‘ ہمیں اس کام میں بیس منٹ لگ گئے‘ ہم اٹھے تو گھاس میں دبے اس پودے کے لیے پانی کی باقاعدہ نالی بن چکی تھی‘ ہم نے اپنے تھیلے اٹھائے اور واپسی کا سفر شروع کر دیا‘ میں نے راستے میں ان سے پوچھا ’’ہم پچھلے پندرہ دنوں سے یہ مشقت کر رہے ہیں۔
ہم نے دو کنوئیں صاف کیے‘ ہم مٹی نکالنے کے لیے خود کنوئیں میں اترے‘ ہم نے مارگلہ کے کرشنگ یونٹس کے خلاف درخواست بھی دی‘ ہم نے تین ملزموں کی ضمانت بھی دی‘ ہم نے ایک گاؤں میں پانی کی پائپ لائن بچھائی‘ ہم نے ایک اسکول میں استاد کا بندوبست کیا‘ ہم نے پندرہ دنوں میں چار سو پودے لگائے‘ یہ کام اچھے ہیں‘ یہ چیریٹی ہیں اور چیریٹی ہمیشہ اچھی ہوتی ہے لیکن اس کا روحانیت کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ روح کا کھیل تو مختلف ہوتا ہے اوریہ چیریٹی ورک اس میں کسی جگہ ’’فٹ‘‘ نہیں ہوتا‘ وہ مسکرائے‘ رکے اور ایک چٹان پر بیٹھ گئے‘ ہمارے درمیان چند لمحے خاموشی رہی اور پھر وہ آہستہ آہستہ بولے ’’آپ فرض کرو‘ آپ کسی مکان میں کرایہ دار ہیں‘ آپ مکان کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں‘ آپ یہ بھی چاہتے ہیں‘ آپ ٹونٹی کھولیں تو پانی آ جائے‘ آپ چولہے کی ناب گھمائیں تو گیس آ جائے‘ آپ بٹن دبائیں تو بجلی آن ہو جائے اور آپ چٹکی گھمائیں تو پنکھا چلنے لگے اور آپ جب چاہیں آپ کو گرم پانی مل جائے اور جب خواہش کریں‘ آپ ٹھنڈا پانی لے لیں تو آپ کو کیا کرنا ہو گا؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے چند لمحے سوچا اور جواب دیا ’’مجھے ادائیگی کرنا پڑے گی‘‘ انھوں نے ہاں میں سر ہلایا اور بولے ’’بالکل درست‘ آپ کو پے کرنا پڑے گا‘ ہم دنیا کی تمام سہولتیں رینٹ پر لیتے ہیں‘ ہمیں بجلی‘ پانی اور گیس رینٹ پر ملتی ہیں‘ ہمارے پاس اگر گھر نہیں تو ہم یہ بھی رینٹ پر حاصل کرتے ہیں‘ ہمیں ان سب کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے‘ ہم جس دن یہ رینٹ ادا نہیں کرتے ہیں‘ ہمیں اس مہینے‘ اس دن یہ سہولتیں نہیں ملتیں‘ ہمیں اس زمین پر صرف ان سہولتوں کا رینٹ ادا نہیں کرنا پڑتا بلکہ ہم اپنی زندگی کا رینٹ بھی ادا کرتے ہیں‘ ہم اس زمین پر کرائے دار ہیں‘ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ زندگی رینٹ پر دی ہے‘ ہم اگر زندگی کی تمام نعمتوں کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کا کرایہ ادا کرنا ہو گا‘ سورج ہماری زمین کی سب سے بڑی نعمت ہے‘ یہ نہ ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی‘ آکسیجن دوسری بڑی نعمت ہے۔
پانی تیسری نعمت ہے‘ زمین پر بکھرا سبزہ‘ کروٹ کروٹ بدلتی زمین اور چرند پرند اور آبی مخلوقات چوتھی‘ پانچویں اور چھٹی نعمتیں ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ہماری زندگی‘ یہ رب العزت کا سب سے بڑا تحفہ ہے‘ انسانی وجود 3800 نعمتوں کا مجموعہ ہے اور ان میں سے ہر نعمت اتنی ہی اہم ہے جتنی اہم ہماری بینائی‘ ہماری قوت سماعت اور ہماری چکھنے کی صلاحیت ہے‘ قدرت نے یہ تمام چیزیں‘ یہ ساری نعمتیں ہمیں کرائے پر دے رکھی ہیں‘ ہم اگر ان نعمتوں کا رینٹ ادا نہیں کریں گے تو کیا ہو گا؟ ہمیں ان نعمتوں کی سپلائی بند ہو جائے گی یا پھر ان کی راشننگ ہو جائے گی اور اگر یہ ہو جائے گا تو پھر ہمارا اطمینان قلب کم ہو جائے گا۔
وہ ذرا سا رک کر بولے ’’روحانیت اطمینان قلب کا نام ہے‘ یہ مضطرب دلوں میں بھڑکی آگ کو ٹھنڈا کرتی ہے اور یہ صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اپنا رینٹ وقت پر ادا کرتے ہیں‘ جو قدرت کی دی نعمتوں کا کرایہ بروقت دیتے ہیں‘‘ میں نے بے چینی سے کروٹ بدلی اور عرض کیا ’’جناب یہ کرایہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے اور فرمایا ’’زبان پر شکر اور ہاتھ سے فلاح‘‘ وہ ہنسے اور بولے ’’ہم کوشش کریں‘ ہم دوسروں کی دھوپ کے راستے میں کھڑی رکاوٹیں ہٹائیں‘ ہم آکسیجن میں اضافہ کریں‘ پانی کے راستے بنائیں اور اپنے ہاتھوں سے درخت لگا کر زندگی کے سر پر پیار کریں‘ یہ زندگی کا ہمارے ذمے کرایہ ہے‘ ہم جوں جوں یہ کرایہ ادا کرتے جائیں گے‘ ہمارے اطمینان قلب میں اضافہ ہو تا جائے گا اور یہ اطمینان قلب ہمیں روحانیت کے دروازے تک لے آئے گا‘‘۔
وہ اٹھے‘ لمبا سانس لیا‘ شکر ادا کیا اور فرمایا ’’چلو ہم اپنے ذمے کا رینٹ ادا کریں‘ زبان سے اللہ کا شکر ادا کریں اور ہاتھوں سے دوسروں کے راستے کی رکاوٹیں دورکریں‘‘ میں اٹھا اور ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔