Jasarat News:
2025-06-16@21:07:41 GMT

نوشہرفیروزمیں دلیپوٹافری لرننگ اینڈ اسکلز سینٹر کا قیام

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

نوشہروفیروز(نمائندہ جسارت)ضلع کے چھوٹے سے گاؤں یونین کونسل دلیپوٹا میں پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ڈاکٹر امان اللہ پنھور نے خواتین کو تعلیم یافتہ اور ہنرمند بنانے کیلئے اعلیٰ معیار کا ادارہ دلیپوٹافری لرننگ اینڈ اسکلز سینٹراوررحمت انسٹیٹیوٹ آف اسکلز ڈویلپمنٹ قائم کرکے جنگل میں منگل کا سماں پیدا کردیا ۔افتتاحی تقریب میں پاکستانی نژاد غیرملکی شہریوں صدر سندھی ایسوسی ایشن نارتھ امریکا ڈاکٹر مقبول ہالیپوٹو، ورلڈ بینک سے اویس پنھور، اعجاز ترک،انعام شیخ، نائب صدرسانا شاہدہ شیخ، ناصر جمال پٹھان، ڈاکٹر پروفیسر ابراہیم، غلام حیدر معجور،عاقل پنھور،نواز سومرو، غلام قادر ملاح، یوسف رستمانی، سوشل ورکر ماہ نور شیخ، ڈاکٹر عبدالحکیم جوکھیو،خالد پنھور سمیت دیگر معززین نے شرکت کی اور پروجیکٹ کو سراہا۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ پونے پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والے کینیڈین اسٹینڈرڈ جیسے اس ادارے میں علاقے کی بچیاں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنرمند کورسز کی تربیت حاصل کرکے ایک مضبوط خاتون بن کر جہاں معاشرے کیلئے کارآمد ثابت ہوںگی وہیں بطور بیٹی، بہن اور ماں ایک طاقتور خاندان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی مختلف ممالک میں رہائش پذیر پاکستانی نژاد دیگر لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم اور صحت کیلئے اس جیسے دیگر پروجیکٹ بنا کر ایک اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔افتتاحی تقریب میں دلیپوٹا او رقریبی دیہاتوں سے خواتین و بچیاں بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئیں اور اسٹنڈرڈ ادارے کے گاؤں میں قیام کو خوش آئند قرار دیا۔ڈاکٹر امان اللہ پنھور نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دلیپوٹا میری آبائی یونین کونسل ہے میرے دادا نے یہاں اسکول بنوایا تھا، میرے باپ نے تعلیم کیلئے یہاں بہت کچھ کیا اور اب میں نے بھی یہاںمیگا تعلیمی و لرننگ پروجیکٹ بنایا ہے اگر میں نہیں بھی رہا تو ان شاء اللہ میرے بیٹے اس پروجیکٹ کو مستقل چلاتے رہیں گے کئی دوستوں نے کہا کہ آپ چھوٹے دیہات کے بجائے کسی بڑے شہر میں ایسا ادارہ قائم کریں تو ماہانہ لاکھوں روپے کماسکتے ہیں مگر میرا انہیں ایک ہی جواب تھا کہ میں پیسوں کیلئے نہیں بلکہ اپنے علاقے کی طالبات اور بچوں کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے بالکل فری ادارہ قائم کیا تاکہ وہ خودمختار بن سکیں ہماری کوشش ہوگی یہ ادارے سے کورسز مکمل کرنے والے طلبہ وطالبات کیلئے بیرون ملک نوکریوں کا بھی بندوبست کریں ہم نے تو اپنا کام کردیا ہے اب علاقے کے بچوں کا کام ہے کہ وہ یہاں آکر پڑھیں ہنر سیکھیں اور اپنا بہتر مستقبل بنائیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

اسلام آباد کے علاقائی بلڈ سینٹر کی ’پراسرار بندش‘ اور اس کے پیچھے چھپی کہانی!

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جون 2025ء) یہ بلڈ سینٹر، جو ملک بھر کے 15 علاقائی مراکز کا حصہ ہے، جرمن حکومت کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا تاکہ قومی سطح پر محفوظ خون کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ جب ڈی ڈبلیو کی نمائندہ نے اس مرکز کا دورہ کیا تو دروازوں پر تالے لگے تھے۔ صحن میں ایک ایمبولینس سمیت چند گاڑیاں موجود تھیں، لیکن وہاں موجود واحد چوکیدار کو مرکز کے مستقبل کی کوئی خبر نہ تھی۔

’مسلم لیگ (ن) کا منصوبہ‘ اپنی ہی حکومت میں ناکام

اس بلڈ سینٹر کا سنگ بنیاد سن 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اس وقت کے وزیر مملکت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے رکھا تھا۔ حکومتی خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق جرمن ترقیاتی بینک کی 175 ملین روپے (تقریباً 1.6 ملین یورو) کی مالی امداد سے یہ مرکز جدید آلات سے لیس کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ مرکز تین سال تک فعال رہا لیکن مستقل سرپرستی اور فنڈز کی کمی کے باعث اسے بند کر دیا گیا۔ مرکز فعال کیوں نہ رہ سکا؟

سابق ملازم محمد اسامہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس مرکز کے قیام سے بندش تک کبھی مستقل سربراہ تعینات نہیں کیا گیا۔ یہ وزارت صحت کے تحت چلتا رہا، جہاں تین سال میں مختلف جوائنٹ سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز کو اضافی چارج سونپا گیا۔

ان افسران نے مرکز کا شاذ و نادر دورہ کیا اور اکثر عملے کو وزارت میں طلب کر لیا جاتا تھا۔

اسامہ کے مطابق ابتدائی طور پر یہ ذمہ داری آئی ایچ آر سی کو دی گئی تھی لیکن ادارے نے ناکافی صلاحیت اور مطابقت کی بنیاد پر چارج لینے سے انکار کر دیا۔

کروڑوں روپے کا طبی سامان ضائع

ایک سابق خاتون ملازمہ نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ 20 کنال اراضی پر قائم یہ جدید مرکز اربوں روپے کی گاڑیوں، مشینری، پلازما، کٹس اور فرنیچر سے لیس تھا۔

تاہم، عدم استعمال کی وجہ سے یہ سامان یا تو ضائع ہو چکا ہے یا تباہی کے دہانے پر ہے۔ ملازمین کی برطرفی کا تنازع

ایک سابق سینئر خاتون ملازمہ کے مطابق مرکز کے 50 سے زائد ملازمین نے گزشتہ چھ ماہ سے برطرفی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف وزارت صحت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔

مقدمے کے سربراہ محمد اسامہ کا کہنا ہے کہ عدالت نے وزارت صحت کو عید سے قبل تنخواہیں ادا کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

حکومتی موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر صحت، وزارت کے ترجمان اور مرکز کے بانی رہنما سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی، لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

تاہم سابق چیئرمین اسلام آباد بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی پروفیسر حسن عباس ظہیر کا کہنا ہے کہ اس مرکز نے کبھی باقاعدہ کام شروع ہی نہیں کیا تھا۔

پاکستان میں محفوظ خون کی قلت

پاکستان بلڈ ڈونیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق پاکستان کو سالانہ 48 لاکھ خون کے تھیلوں کی ضرورت ہے، لیکن 16 لاکھ مریضوں کو محفوظ خون میسر نہیں ہوتا، یعنی ہر تیسرا مریض محروم رہتا ہے۔

تھیلیسیمیا کا علاج اب جین تھیراپی سے ممکن

انہوں نے بتایا کہ محفوظ خون حاصل کرنے والوں کا 50 فیصد خون غریب یا منشیات کے عادی افراد سے خریدا جاتا ہے، 40 فیصد رشتہ دار فراہم کرتے ہیں اور صرف 10 فیصد سے کم رضاکارانہ عطیات سے آتا ہے، جو سب سے محفوظ ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں رضاکارانہ خون کے عطیات کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ دنیا کے 57 ممالک میں محفوظ خون کی منتقلی مکمل طور پر رضاکارانہ عطیات پر مبنی ہے۔

مریضوں کے لیے خون کی اہمیت

راویئنز بلڈ ڈونر سوسائٹی کے بانی عرفان خاور ڈار کے مطابق صاف اور محفوظ خون زندگی اور موت کا معاملہ ہے کیونکہ آلودہ خون مریض کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فضل ربی کا کہنا ہے کہ زچگی، ٹریفک حادثات، کارڈیک سرجریز اور تھیلیسیمیا جیسے حالات میں خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تھیلیسیمیا کے بچوں کو باقاعدہ خون کی ضرورت پڑتی ہے، جو جسمانی، ذہنی اور مالی طور پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، خاص طور پر نایاب بلڈ گروپس کے لیے۔

عرفان خاور ڈار نے بتایا کہ نجی بلڈ سینٹرز میں شفافیت کا فقدان ہے۔ یہ ادارے عطیہ دہندگان سے خون لیتے ہیں لیکن بعد میں اسے منافع کے لیے فروخت کرتے ہیں، ''ان کے پاس نہ کوئی مقررہ نرخوں کا نظام ہے اور نہ ہی مؤثر ضابطہ کار۔ کئی جگہوں پر یہ عمل غیر قانونی طور پر جاری ہے، جو عطیہ دہندگان کے اعتماد اور مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • چین اور وسطی ایشیائی ممالک مشترکہ طور پر مستقبل کے تعاون کا نیا خاکہ تشکیل دے رہے ہیں ، چینی وزارت خارجہ
  • قومی کرکٹرز کا اسکلز ڈیولپمنٹ کیمپ لاہور میں شروع
  • 70 فیصد ریوینیو دینے کے باوجود شہری ابترزندگی گزار رہے ہیں،جمیل احمد
  • پاکستانی موقف کو سراہتے ہیں، حماس رہنما ڈاکٹر سامی ابو زہری
  • پنجاب: صنعتی اور مائنز ورکرز کے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کا اعلان
  • اسلام آباد کے علاقائی بلڈ سینٹر کی ’پراسرار بندش‘ اور اس کے پیچھے چھپی کہانی!
  • اسرائیل کا وجود عالمی امن کیلئے مستقل خطرہ بن گیا،ملی یکجہتی کونسل
  • ایران پر اسرائیلی حملے غیرقانونی ہیں، امریکی سینٹر
  • یورپین یونین ہمارے خطے میں مستقل قیام امن کیلئے کردار ادا کرے، بلاول بھٹو
  •  اسلام آباد میں تعلیمی اصلاحات کو ملک بھر کیلئے قابل تقلید مثال بننا چاہئے: احسن اقبال