’’اِن کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں‘‘
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
ماں کے بارے میں میرے گزشتہ کالم نے نہ جانے کتنے دلوں کے تار چھیڑ دئیے۔ کتنوں کے زخموں کا موم ادھیڑ ڈالا۔ مجھے بے شمار فون آئے اور اَن گنت پیغامات۔ ان میں سے ہر ایک نے میرے کالم کے آئینے میں اپنی ماں کا چہرہ دیکھا۔ لاریب ساری دنیا کی مائیں ایک سی ہوتی ہیں لیکن ہر ایک کی ماں، صرف اس کی ماں ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی مائوں جیسی لیکن سب سے جدا، سب سے منفرد۔ ماں کے ذکر سے کہانیوں کی ایک طلسمِ ہوش رُبا کھلتی ہے تو کھُلتی ہی چلی جاتی ہے۔ میں نے کسی کالم میں ماں کی ایک انگوٹھی کا ذکر بھی کیا تھا جو وہ ہمیشہ اپنے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ساتھ والی انگلی میں پہنے رکھتی تھیں۔ جانے وہ تنگ دستی کی کون سی دہکتی دوپہر تھی جب ماں نے وہ انگوٹھی انگلی سے اتا کر مجھے دی اور کہا کہ اسے بیچ آئو۔ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا لیکن وہ دوپٹہ اپنی آنکھوں پہ رکھے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ شاید یہ چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کی کتابوں یا فیس کا معاملہ ہو گا۔ میں بازار گیا تو اُس کی قیمت 25 روپے پڑی۔ دِل نہ مانا۔ جان پہچان والے ایک مردِ شریف سے 25 روپے ادھار لے کر ماں کو دے دئیے۔ برسوں بعد ماں کا انتقال ہوا تو وہ انگوٹھی اُن کی اُسی انگلی میں تھی۔ میرا بس چَلتا تو اُن کی تدفین بھی اس انگوٹھی کے ساتھ ہی کرتا لیکن یہ ممکن نہ ہوا۔ وہ انگوٹھی اب ہماری واحد بہن تسمیہ کے پاس ہے۔
سیلف میڈ (Self Made) اُن لوگوں کو کہا جاتا ہے جو منہ میں سونے یا چاندی کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔ اُن کی پشت پر جاگیریں ہوتی ہیں نہ کارخانے، بڑے بڑے کاروبار ہوتے ہیں نہ سیم و زر اُگلنے والے عُہدے اور مناصب۔ وہ کسی پتھریلی زمین سے پھوٹ نکلنے والے پودے کی طرح ہوتے ہیں جس کی چھوٹی چھوٹی، نیم جاں سی جڑیں، مرطوب مٹی اور پانی سے بہت دیر تک محروم رہتی ہیں۔ پروان چڑھانے اور برگ و بار لانے والی مہربان ہوائیں اُن سے کترا کے گذر جاتی ہیں۔ میں ’’سیلف میڈ‘‘ کا ترجمہ ’’خودساز‘‘ کیا کرتا ہوں۔ لیکن میری زندگی کا تجربہ کہتا ہے کہ ’’خود ساز‘‘ بھی درحقیقت ’’خدا ساز‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اشفاق احمد نے، تیشہ فرہاد لے کر سنگلاخ پہاڑوں سے جوئے شیر بہا لانے والے ’’خود سازوں‘‘ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’تمنا کے بغیر کوئی پھول نہیں کھلتا‘‘ لیکن کسی کشت ویراں میں تمنا کا بیج بونے والا بھی تو کوئی ہے نا جو یہ بیج بوتا ہے اور پھر اُسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے کھُلا چھوڑ دیتا ہے۔
پرائمری سکول ٹیچر سے ایوان بالا کی رکنیت تک کے سفر پہ نگاہ ڈالتا ہوں تو ’’خود سازی‘‘ سے کہیں زیادہ ’’خدا سازی‘‘ پر ایمان پختہ تر ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود جب کبھی میرا تعارف ایک ’’سیلف میڈ‘‘ شخص کے طور پر ہوتا ہے تو دِل طمانیت سے بھر جاتا ہے۔ میں کوئی دو تین کلومیٹر پیدل چل کر لال کرتی کے پرائمری سکول پڑھانے آتا تھا۔ ڈیڑھ دو سال بعد جب نیا سائیکل خریدا تو اتنی بے پایاں خوشی ہوئی جو برسوں بعد کار خریدنے پر بھی نہ ہوئی۔ آج میں سینیٹ میں، خود کو ارب اور کھرب پَتی رفقا کے جلو میں دیکھتا ہوں تو لمحہ بھر کے لیے بھی دل میں کم مائیگی کی خلش کسمساتی ہے نہ احساس تفاخر پھن پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کم و بیش ہر روز، رات کتاب بند کر کے سونے کی کوشش کرتے ہوئے، جوں ہی بتی گل کرتا ہوں گئے زمانوں کا نگار خانہ کھل جاتا ہے۔ میں اور کچھ دیکھوں نہ دیکھوں، ایک نیم تاریک سی کوٹھڑی کے کونے میں پڑے زنگ آلود جستی صندوق کا ڈھکنا اٹھا کر ضرور دیکھتا ہوں جس میں میرے کتنے ہی بے آب و رنگ سے روز و شب، پھٹے پرانے میل خوردہ کپڑوں کی طرح ڈھیر ہوئے پڑے ہیں۔ ان میں کچھ پیوند لگے کرتے بھی ہیں جنہیں پہنتے ہوئے مجھے کبھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ عجیب بات ہے، میرا دل بھی ماں کے دل کی طرح خواہشوں اور آرزوئوں سے پاک ہو گیا تھا۔ پائوں کا پہناوا بدلنے کی نوبت اُس وقت آتی جب اس کے بخیے اڈھڑنے لگتے اور وہ چیتھڑا بن جانے کو ہوتا۔ میں جانتا تھا کہ میرے ماں باپ میری کسی خواہش کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ سو اُسے زبان پر لانے سے پہلے کسی مرگھٹ کی نذر کر دیتا تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں میزبان نے مجھ سے عہد جوانی کے بارے میں پوچھا تھا۔ میں نے اُسے بتایا … ’’بیٹا کون سا عہد جوانی؟ ہم جیسے لوگوں کا ایک بچپن ہوتا ہے جو غیر محسوس طریقے سے اُدھیڑ پن میں ضم ہو جاتا ہے۔ ہم بچے ہوتے ہیں یا اُدھیڑ عمر لوگ۔ ہم جیسوں پہ جوانی کی رُت آیا ہی نہیں کرتی۔ زندگی کے بکھیڑوں اور جھمیلوں سے کتراتی ہوئی کہیں دور نکل جاتی ہے۔ ’’سیلف میڈ‘‘ لوگ اُسے آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہیں پاتے۔‘‘
والد فوت ہوئے تو مجھے راولپنڈی کے ایک نامور کالج میں پڑھاتے، گیارہ برس ہو چکے تھے۔ پَت جھڑ کی رُت زرد سوکھے پتوں کی گٹھڑی باندھے رُخصت ہو رہی تھی۔ عشرت تو نہ تھی مگر عُسرت کا عہد تمام ہو چکا تھا۔ والدہ اُن کے بعد بائیس برس تک زندہ رہیں۔ گلوں میں رنگ بھرنے لگا تھا اور باد نو بہار چلنے لگی تھی۔ طوفانوں کے طمانچے کھاتی کشتی ساحلوں سے ہم کنار نیلگوں ہموار پانیوں تک آ پہنچی تھی۔ ماں کامرانی کی آسودگی لیے رخصت ہوئیں۔
دل میں اکثر ایک آرزو نشتر کی طرح چبھتی رہتی ہے کہ کاش آج میرے والد اور میری ماں زندہ ہوتے۔ بلاشبہ عسرت و تنگ دستی کی نامرادیاں بہت پیچھے رہ گئی ہیں لیکن کاش یہ موسم دو تین دہائیاں پہلے آ گئے ہوتے؟ ’’سیلف میڈ‘‘ لوگوں کی زندگیوں میں آنے والے یہ موسم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟ امجد اسلام امجد کی نظم ہے ’’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘
روشنی مزاجوں کا
کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں
بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے
آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں
گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے
پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو
قتل کرتے جاتے ہیں
درگذر کے گلشن میں
اَبر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں
کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ اُن کو اِس
روزوشب کی کاہَش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا
خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں
جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں
وقت پر نہیں آتیں
یعنی اُن کو محنت کا
اَجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی
قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہے
پَس نوشت ہو جائے
فصل گل کے آخر میں
پھول اِن کے کھِلتے ہیں
اِن کے صحن میں سورج
دیر سے نکلتے ہیں
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: نے والے جاتا ہے کی طرح
پڑھیں:
انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
لاہور (ویب ڈیسک) تجزیہ نگار انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ بتادی اور ساتھ ہی حکومت پنجاب کو شدید تنقید کا نشانہ بنادیا۔
اپنے ولاگ میں انیق ناجی کاکہناتھاکہ طویل غیر حاضری کی ایک وجہ بیزاری تھی، ہرروز ایک نئی حماقت،" ن لیگ کیساتھ 34سال رفاقت رہی اور عمران خان کے دور میں بھی اپنی حیثیت کے مطابق مریم نواز اورنوازشریف کوسپورٹ کرتارہا،سمجھتا تھا کہ یہ لوگ نشیب وفراز سے گزرے ہوئے ہیں ، ملک سنبھال سکتے ہیں لیکن جس طرح کی حماقتیں ہوئی ہیں، اس میں آدمی چپ ہی کرسکتاہے،
نوازشریف کے بارے میں تو اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ غلام اسحاق خان ،فاروق لغاری ہو یا پھر پرویز مشرف ہو، سیاسی طور پر انہیں کوئی ختم نہیں کرسکالیکن جو حال ان کیساتھ ان کے خاندان نے کیا ہے ، وہ دیکھ کر ہی دکھ ہوتا ہے کہ وہ آدمی نہ ہنس سکتا ہے اور نہ رو سکتا ہے، آج کسی کا سامنا نہیں کرسکتا، انہیں لندن میں پی ٹی آئی کے لوگ برا بھلا کہتے رہے لیکن اس نے کبھی جواب نہیں دیا، اب کسی سے ملنے کے قابل بھی نہیں رہا۔
سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ای بائیکس کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ
ان کا مزید کہناتھاکہ مریم نواز نے جو پنجاب میں مظاہرہ کیا، ہر روز ایک نئی حماقت، ذاتی اور گھریلوملازمین کو اپنے اردگرد رکھا ہواہے جن کا نہ کوئی آگے ہے اور نہ کوئی پیچھے،صرف مسلم لیگ ن سے تعلق کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں، ان کے کہنے پر سب کچھ ہو رہا، بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا، ن لیگ کے اپنے لوگ بھی حیران پریشان ہیں ، وہ قیادت سے ملنے کی درخواستیں کیا کرتے تھے،اب منہ چھپا رہے ہیں کہ کہیں تصویر بنوانے کے لیے بلوا نہ لیں، اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں نکلنے کے قابل نہیں رہے، آپ کو وہ سرکاری ہسپتال بھی یا دہوگاجہاں میڈم منہ چھپا کر گئی تھیں اور پھر تقریر کی تھی کہ امیرآدمی تو بیرون ملک چلاجاتاہے لیکن عام آدمی کیا کرے، میں تو ایک عام شہری کی طرح یہاں آئی ہوں، کونسا عام آدمی ہوتا ہے جو 20گاڑیوں کیساتھ سرکاری ہسپتال جاتاہے؟
اداکارہ عائشہ عمر کے شو لازوال عشق پر عوامی اعتراضات، پیمرا کا ردعمل
لیکن بس خیال ہے کہ لوگ اس طرح ساتھ آجائیں گے، مریم اورنگزیب صاحبہ بھی بھیس بدل کر چھاپے مار رہی ہیں ، کیمرہ مین اور پولیس اہلکار بھی ساتھ ہیں، لب و لہجہ ہی ایسا ہے ، نہ اردو آتی ہے اور نہ صحیح سے انگریزی، اداکاری ہورہی ہے ، چھوٹے چھوٹے کھانے کے پیکٹس پر بھی اپنی تصویر، بیزاری اور ولاگنگ سے دوری کی وجہ بھی یہی ہے ۔
مزید :