Nai Baat:
2025-07-26@14:18:11 GMT

’’اِن کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں‘‘

اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT

’’اِن کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں‘‘

ماں کے بارے میں میرے گزشتہ کالم نے نہ جانے کتنے دلوں کے تار چھیڑ دئیے۔ کتنوں کے زخموں کا موم ادھیڑ ڈالا۔ مجھے بے شمار فون آئے اور اَن گنت پیغامات۔ ان میں سے ہر ایک نے میرے کالم کے آئینے میں اپنی ماں کا چہرہ دیکھا۔ لاریب ساری دنیا کی مائیں ایک سی ہوتی ہیں لیکن ہر ایک کی ماں، صرف اس کی ماں ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی مائوں جیسی لیکن سب سے جدا، سب سے منفرد۔ ماں کے ذکر سے کہانیوں کی ایک طلسمِ ہوش رُبا کھلتی ہے تو کھُلتی ہی چلی جاتی ہے۔ میں نے کسی کالم میں ماں کی ایک انگوٹھی کا ذکر بھی کیا تھا جو وہ ہمیشہ اپنے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کے ساتھ والی انگلی میں پہنے رکھتی تھیں۔ جانے وہ تنگ دستی کی کون سی دہکتی دوپہر تھی جب ماں نے وہ انگوٹھی انگلی سے اتا کر مجھے دی اور کہا کہ اسے بیچ آئو۔ میں نے حیرت سے اُن کی طرف دیکھا لیکن وہ دوپٹہ اپنی آنکھوں پہ رکھے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔ شاید یہ چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کی کتابوں یا فیس کا معاملہ ہو گا۔ میں بازار گیا تو اُس کی قیمت 25 روپے پڑی۔ دِل نہ مانا۔ جان پہچان والے ایک مردِ شریف سے 25 روپے ادھار لے کر ماں کو دے دئیے۔ برسوں بعد ماں کا انتقال ہوا تو وہ انگوٹھی اُن کی اُسی انگلی میں تھی۔ میرا بس چَلتا تو اُن کی تدفین بھی اس انگوٹھی کے ساتھ ہی کرتا لیکن یہ ممکن نہ ہوا۔ وہ انگوٹھی اب ہماری واحد بہن تسمیہ کے پاس ہے۔

سیلف میڈ (Self Made) اُن لوگوں کو کہا جاتا ہے جو منہ میں سونے یا چاندی کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوتے۔ اُن کی پشت پر جاگیریں ہوتی ہیں نہ کارخانے، بڑے بڑے کاروبار ہوتے ہیں نہ سیم و زر اُگلنے والے عُہدے اور مناصب۔ وہ کسی پتھریلی زمین سے پھوٹ نکلنے والے پودے کی طرح ہوتے ہیں جس کی چھوٹی چھوٹی، نیم جاں سی جڑیں، مرطوب مٹی اور پانی سے بہت دیر تک محروم رہتی ہیں۔ پروان چڑھانے اور برگ و بار لانے والی مہربان ہوائیں اُن سے کترا کے گذر جاتی ہیں۔ میں ’’سیلف میڈ‘‘ کا ترجمہ ’’خودساز‘‘ کیا کرتا ہوں۔ لیکن میری زندگی کا تجربہ کہتا ہے کہ ’’خود ساز‘‘ بھی درحقیقت ’’خدا ساز‘‘ ہی ہوتا ہے۔ اشفاق احمد نے، تیشہ فرہاد لے کر سنگلاخ پہاڑوں سے جوئے شیر بہا لانے والے ’’خود سازوں‘‘ کے بارے میں کہا تھا کہ ’’تمنا کے بغیر کوئی پھول نہیں کھلتا‘‘ لیکن کسی کشت ویراں میں تمنا کا بیج بونے والا بھی تو کوئی ہے نا جو یہ بیج بوتا ہے اور پھر اُسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے کھُلا چھوڑ دیتا ہے۔
پرائمری سکول ٹیچر سے ایوان بالا کی رکنیت تک کے سفر پہ نگاہ ڈالتا ہوں تو ’’خود سازی‘‘ سے کہیں زیادہ ’’خدا سازی‘‘ پر ایمان پختہ تر ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود جب کبھی میرا تعارف ایک ’’سیلف میڈ‘‘ شخص کے طور پر ہوتا ہے تو دِل طمانیت سے بھر جاتا ہے۔ میں کوئی دو تین کلومیٹر پیدل چل کر لال کرتی کے پرائمری سکول پڑھانے آتا تھا۔ ڈیڑھ دو سال بعد جب نیا سائیکل خریدا تو اتنی بے پایاں خوشی ہوئی جو برسوں بعد کار خریدنے پر بھی نہ ہوئی۔ آج میں سینیٹ میں، خود کو ارب اور کھرب پَتی رفقا کے جلو میں دیکھتا ہوں تو لمحہ بھر کے لیے بھی دل میں کم مائیگی کی خلش کسمساتی ہے نہ احساس تفاخر پھن پھیلا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ کم و بیش ہر روز، رات کتاب بند کر کے سونے کی کوشش کرتے ہوئے، جوں ہی بتی گل کرتا ہوں گئے زمانوں کا نگار خانہ کھل جاتا ہے۔ میں اور کچھ دیکھوں نہ دیکھوں، ایک نیم تاریک سی کوٹھڑی کے کونے میں پڑے زنگ آلود جستی صندوق کا ڈھکنا اٹھا کر ضرور دیکھتا ہوں جس میں میرے کتنے ہی بے آب و رنگ سے روز و شب، پھٹے پرانے میل خوردہ کپڑوں کی طرح ڈھیر ہوئے پڑے ہیں۔ ان میں کچھ پیوند لگے کرتے بھی ہیں جنہیں پہنتے ہوئے مجھے کبھی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ عجیب بات ہے، میرا دل بھی ماں کے دل کی طرح خواہشوں اور آرزوئوں سے پاک ہو گیا تھا۔ پائوں کا پہناوا بدلنے کی نوبت اُس وقت آتی جب اس کے بخیے اڈھڑنے لگتے اور وہ چیتھڑا بن جانے کو ہوتا۔ میں جانتا تھا کہ میرے ماں باپ میری کسی خواہش کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے۔ سو اُسے زبان پر لانے سے پہلے کسی مرگھٹ کی نذر کر دیتا تھا۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں میزبان نے مجھ سے عہد جوانی کے بارے میں پوچھا تھا۔ میں نے اُسے بتایا … ’’بیٹا کون سا عہد جوانی؟ ہم جیسے لوگوں کا ایک بچپن ہوتا ہے جو غیر محسوس طریقے سے اُدھیڑ پن میں ضم ہو جاتا ہے۔ ہم بچے ہوتے ہیں یا اُدھیڑ عمر لوگ۔ ہم جیسوں پہ جوانی کی رُت آیا ہی نہیں کرتی۔ زندگی کے بکھیڑوں اور جھمیلوں سے کتراتی ہوئی کہیں دور نکل جاتی ہے۔ ’’سیلف میڈ‘‘ لوگ اُسے آنکھ بھر کر دیکھ بھی نہیں پاتے۔‘‘

والد فوت ہوئے تو مجھے راولپنڈی کے ایک نامور کالج میں پڑھاتے، گیارہ برس ہو چکے تھے۔ پَت جھڑ کی رُت زرد سوکھے پتوں کی گٹھڑی باندھے رُخصت ہو رہی تھی۔ عشرت تو نہ تھی مگر عُسرت کا عہد تمام ہو چکا تھا۔ والدہ اُن کے بعد بائیس برس تک زندہ رہیں۔ گلوں میں رنگ بھرنے لگا تھا اور باد نو بہار چلنے لگی تھی۔ طوفانوں کے طمانچے کھاتی کشتی ساحلوں سے ہم کنار نیلگوں ہموار پانیوں تک آ پہنچی تھی۔ ماں کامرانی کی آسودگی لیے رخصت ہوئیں۔

دل میں اکثر ایک آرزو نشتر کی طرح چبھتی رہتی ہے کہ کاش آج میرے والد اور میری ماں زندہ ہوتے۔ بلاشبہ عسرت و تنگ دستی کی نامرادیاں بہت پیچھے رہ گئی ہیں لیکن کاش یہ موسم دو تین دہائیاں پہلے آ گئے ہوتے؟ ’’سیلف میڈ‘‘ لوگوں کی زندگیوں میں آنے والے یہ موسم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟ امجد اسلام امجد کی نظم ہے ’’سیلف میڈ لوگوں کا المیہ‘‘
روشنی مزاجوں کا
کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں
بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے
آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں
گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ہیں
اور اپنے حصے کے
پھول بانٹ دیتے ہیں
کیسی کیسی خواہش کو
قتل کرتے جاتے ہیں
درگذر کے گلشن میں
اَبر بن کے رہتے ہیں
صبر کے سمندر میں
کشتیاں چلاتے ہیں
یہ نہیں کہ اُن کو اِس
روزوشب کی کاہَش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا
خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں
جس قدر بھی خوشیاں ہیں
سب ہی ہاتھ آتی ہیں
سب ہی مل بھی جاتی ہیں
وقت پر نہیں ملتیں
وقت پر نہیں آتیں
یعنی اُن کو محنت کا
اَجر مل تو جاتا ہے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی
قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ہے
پَس نوشت ہو جائے
فصل گل کے آخر میں
پھول اِن کے کھِلتے ہیں
اِن کے صحن میں سورج
دیر سے نکلتے ہیں

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: نے والے جاتا ہے کی طرح

پڑھیں:

آنے والوں دنوں میں 5 اہم تہوار جن کا سب کو انتظار ہے

دنیا میں بہت سے منفرد تہوار ایسے ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاحوں کو مقامی ثقافت سے جوڑنے کا موقع دیتے ہیں۔ ان تہواروں میں دنیا بھر سے لاکھوں کروڑوں افراد شریک ہوتے ہیں۔

یہاں 5 دلچسپ عالمی تہوار پیش کیے جا رہے ہیں جو اس سال آنے والے دنوں میں دنیا بھر کے لوگ بڑی بے تابی سے منانے کو تیار ہیں:

ایڈنبرا انٹرنیشنل فیسٹیو، برطانیہ

تاریخ: 1 تا 24 اگست 2025
ایڈنبرا شہر اگست میں مکمل طور پر فن و ثقافت کے رنگ میں ڈوب جاتا ہے۔ انٹرنیشنل فیسٹیول میں کلاسیکی موسیقی، اوپیرا، تھیٹر اور رقص شامل ہیں جبکہ فرنج فیسٹیول میں کوئی بھی فنکار شرکت کر سکتا ہے اور یہ زیادہ تر کامیڈی، تھیٹر اور اسٹریٹ پرفارمنسز پر مشتمل ہوتا ہے۔

لا ٹوماٹینا، اسپین

تاریخ: 27 اگست 2025
اسپین کے شہر بونول میں ہر سال ‘ٹماٹر کی جنگ’ لڑی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر ٹماٹر پھینکتے ہیں اور خوب ہنسی خوشی کے ساتھ تہوار مناتے ہیں۔ 2013 کے بعد اس میں شرکت کے لیے ٹکٹ لینا ضروری قرار دیا گیا۔

دیا ڈی لاس، میکسیکو

تاریخ: 31 اکتوبر تا 2 نومبر
یہ 3 روزہ تہوار مرحومین کو یاد کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ لوگ قبروں پر تحفے، پھول اور شمعیں رکھتے ہیں اور یادیں تازہ کرتے ہیں۔

قونیا وھرلنگ درویشز فیسٹیول، ترکی

تاریخ: دسمبر کے وسط میں
یہ تہوار مشہور صوفی بزرگ مولانا روم کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس میں صوفی درویش مخصوص انداز میں گھوم کر روحانی رقص کرتے ہیں۔

دیوالی، بھارت

تاریخ: 20 اکتوبر 2025
دیوالی روشنیوں کا تہوار ہے۔ اس موقع پر گھروں کو دیے اور چراغوں سے سجایا جاتا ہے اور خوشحالی کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

تہوار جشن دیوالی رسومات

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ
  • آنے والوں دنوں میں 5 اہم تہوار جن کا سب کو انتظار ہے
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • طویل عرصے سے مفرور پی ٹی آئی رہنما مراد سعید کیا سینیٹ کا حلف اٹھائیں گے؟
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • عمران خان کے دستخط شدہ بیٹ کی نیلامی کیلئے 10 کروڑ کی پیشکش، خاتون کارکن کا بیچنے سے انکار
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے