مذاکرات یا سیاسی ٹال مٹول
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
کولہو کے بیل کی آنکھوں کو اس طرح ڈھانکا جاتا ہے کہ اسے صرف سامنے کی چیز نظر آئے ادھر ادھر در ودیوار پر اس کی نظر نہ پڑے تاکہ اسے محسوس ہو کہ وہ لمبے سفر پر گامزن ہے اور جب شام کو اسے کھولا جاتا ہے تو بیل اپنے تئیں خوش ہوتا ہے کہ آج اس نے میلوں کا سفر طے کرلیا، جبکہ عملاً وہ اسی جگہ پر کھڑا ہوتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جو مذاکرات ہورہے ہیں اس کی مثال کولہو کے بیل جیسی ہے کہ مذاکرات چلتے ہوئے تو نظر آرہے ہیں لیکن عملاً دونوں فریق اسی جگہ پر کھڑے ہیں جہاں وہ مذاکرات کا ڈول ڈالنے سے پہلے کھڑے تھے۔ مذاکرات کا پہلا رائونڈ تو کچھ پھیکا پھیکا سا لگا پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد ہی پوری نہ تھی لیکن حکومتی وفد نے مذاکرات کو کچھ آگے بڑھاتے ہوئے پی ٹی آئی سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات تحریری شکل میں دے دیں۔ پی ٹی آئی کے وفد نے کہا ابھی ہماری تعداد پوری نہیں اس حوالے سے ہمیں باہمی مشاورت کرنا ہے لیکن یہ طے ہوگیا کہ مذاکرات کو جاری رکھا جائے گا اور ایک ہفتے بعد دوسرے رائونڈ کا فیصلہ ہوگیا۔ دوسرے رائونڈ میں پی ٹی آئی کی حاضری تو مکمل تھی لیکن وہ اپنا ہوم ورک کرکے نہیں آئے تھے۔ جب ان سے مطالبات کی تحریر مانگی گئی تو انہوں نے یہ شرط لگائی کہ ہمارے وفد کی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے ان کی مشاورت سے تحریر کر دیں گے۔ پی ٹی آئی کے مذاکراتی ارکان اس انجانے خوف کا شکار ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے دو مطالبات لکھ کر دے دیے تو کہیں خان صاحب ناراض نہ ہوجائیں اور ہمیں جیل میں ڈانٹ پڑجائے اس لیے سب نے یہی متفقہ فیصلہ کیا کہ عمران خان سے ملاقات کی شرط عائد کردی جائے دوسرے رائونڈ کی میٹنگ میں جب یہ بات آئی تو سرکاری وفد نے وعدہ کرلیا کہ ٹھیک ہے آپ کی ملاقات کرادی جائے گی۔
حکومتی وفد نے یہ تاثر دینے کے لیے کہ ہم آپ سے زیادہ باختیار ہیں ملاقات کرانے کا وعدہ کرلیا لیکن وہ پھنس گئے کہ عمران خان شہباز شریف کے قیدی تو ہیں نہیں کہ ان کی ن لیگ کے ترجمان نے ملاقات کرانے کا وعدہ کرلیا۔ ایک دو روز تو ٹال مٹول میں گزر گئے پھر سرکاری مذاکراتی ٹیم کی اس وقت سانسیں بحال ہوئیں جب عمران خان کا ایک متنازع ٹویٹ آگیا جس میں انہوں نے شہباز شریف کو آرمی چیف کا اردلی کہہ دیا۔ بس حکومت کو یہ ایک بہانہ مل گیا ورنہ تو ان کے ہاتھ پائوں پھول رہے تھے کہ ہم نے وعدہ کرلیا ہے لیکن اڈیالہ جیل کے حکام کسی اور کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں۔
مذاکرات کے حوالے سے ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریق دل سے تو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس التوا کا الزام ہم پر نہ آئے بلکہ کچھ ایسی بات کی جائے کہ سامنے والے کو موردِ الزام ٹھیرایا جائے۔ اس لیے دونوں فریق اسے بے دلی سے جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈران کرام یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری جیل میں خان سے ملاقات نہیں کرائی گئی تو ہم سمجھیں گے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے اس لیے ہم خود مذاکرات ختم کردیں گے۔ دوسری طرف حکومتی ارکان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ملاقات کرانے سے انکار نہیں کیا یہ آج کل میں ہو جائے گی پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم میں آپس میں بھی اختلافات ہیں اور یہ سب خان سے خوف زدہ بھی ہیں ان سے پوچھے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ پی ٹی آئی کی ٹیم یہ چاہتی ہے کہ ہم سب خان سے ملاقات کرکے تحریری مطالبات کی اجازت لے لیں۔ لیکن وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری یہ ملاقات آزاد ماحول میں کسی کھلی جگہ پر ہو جہاں کوئی کیمرہ ہو نہ کوئی خفیہ ایجنسی کا فرد ہو اور وقت کی پابندی کی جائے کہ یہ پابندی دو طرح سے ہو کہ جو وقت ملاقات کا دیا جائے اس وقت پر ہمیں اندر بلالیا جائے ہمیں گھنٹوں باہر دھوپ میں کھڑا رہنا پڑتا ہے، بیٹھنے کے لیے کوئی بینچ وغیرہ بھی نہیں ہوتی دوسری پابندی یہ کہ اگر ایک گھنٹے کا وقت ہے تو یہ پورا کیا جائے نہ کہ آدھے گھنٹے بعد ہی کوئی اہلکار آکر یہ کہہ دے کہ بس اب ملاقات کا وقت ختم ہوگیا اوپر سے آرڈر آیا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی ٹیم حکومتی ٹیم پر الزام لگاتی ہے کہ یہ اتنے بے اختیار ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ سے پوچھے بغیر ایک کاغذ بھی اِدھر سے اُدھر نہیں کرسکتے۔
ہمارا خیال یہ ہے کہ مذاکرات ہمیشہ با اختیار لوگ کرتے ہیں انہیں یہ نہ کہنا پڑے کہ ہمیں اپنے باس سے پوچھنا ہے۔ ہمارے سامنے 1977میں پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات کا نقشہ ہے کہ دونوں طرف کی ٹاپ لیڈر شپ مذاکرات میں شریک تھی تاکہ جو بھی گفتگو ہو اس میں کوئی فیصلہ کرنے میں کسی اور سے پوچھ گچھ کا مسئلہ نہ ہو اس لیے بھٹو صاحب ہی پی این اے کو دینے کی پوزیشن میں تھے۔ دوسری طرف پی این اے کی ٹیم میں اتحاد کے صدر مفتی محمود نائب صدر نواب زادہ نصراللہ خان اور جنرل سیکرٹری پروفیسر عبدالغفور تھے جو خود فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے بس انہوں نے دو، ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے لیے وقت مانگا تھا جو انہیں دے دیا گیا تھا۔
اس مذاکرات کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ بھٹو نے پاکستان قومی اتحاد کی ٹیم سے یہ نہیں کہا کہ آپ اپنے مطالبات تحریر میں دیں ہاں یہ بات ضرور ہوئی کہ معاہدے میں جو نکات طے ہوئے اسے تحریر میں لے آیا گیا تھا۔ یہاں پر حکومتی ٹیم نے تحریر کا مطالبہ اس لیے کیا کہ انہیں خان پر کوئی بھروسا نہیں کہ پتا نہیں کب یہ یوٹرن لے لیں اور سارا کھیل بگڑ جائے ہم نے 27 دسمبر 2024 کو ایک مضمون ’’مذاکرات کتنا خلوص کتنی مجبوری‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا آخر میں اس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
’’مذاکرات شروع ہونے کے حوالے سے دونوں طرف کی مجبوریوں کا تو ذکر تو ہوگیا۔ دونوں طرف کی کمیٹیاں کتنی مجبور ہیں یا کتنی پابند ہیں اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ تو بعد میں ہوگا یہ دونوں کمیٹیاں فیصلے کرنے یا کسی نتیجے پر پہنچنے میں آزاد نہیں ہیں۔ تحریک انصاف عمران خان کی اجازت کے بغیر خود کسی قسم کا فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت کی مذاکراتی کمیٹی اسٹیبلشمنٹ کی اجازت کے بغیر خود کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ اس طرح ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو مذاکرات بالواسطہ طور پر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہورہے ہیں۔ دونوں کمیٹیوں کے ارکان بااختیار نہیں ہیں بلکہ بااختیار سرپرستوں کے بے اختیار نمائندے ہیں‘‘۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خان سے ملاقات پی ٹی ا ئی کے وعدہ کرلیا چاہتے ہیں انہوں نے رہے ہیں ہیں کہ اس لیے وفد نے کی ٹیم
پڑھیں:
ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی، امریکہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے: بلاول
واشنگٹن+اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جس طرح صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، اب انہیں چاہیے کہ وہ دونوں ممالک کو جامع اور بامعنی مذاکرات کی میز پر بھی لانے میں فعال کردار ادا کریں۔ فرانسیسی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے بھارتی حکومت کی ہچکچاہٹ نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ خطے میں خطرناک مثال بھی قائم کر رہی ہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی سمیت تمام معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن کشمیر کو ایک بنیادی تنازع کے طور پر مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے واضح کیا کہ بھارت کی جارحانہ پالیسی کے باعث خطہ نیو نارمل جیسی صورتحال سے دوچار ہو رہا ہے، جہاں کسی بھی دہشت گرد حملے کے نتیجے میں کوئی بھی ملک جنگ چھیڑ سکتا ہے۔ 1.7ارب افراد کی تقدیرکو غیر ریاستی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس غیر یقینی اور غیر متوازن فضا کو معمول کے طور پر قبول کرنا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ اسے فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ دورِ صدارت میں پاکستان امریکہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور دونوں ملکوں کو اس بہتری کو امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ دوسری جانب پاکستانی وفد نے امریکی وزارت خارجہ کی انڈر سیکرٹری برائے سیاسی امور، ایلیسن ہوکر سے ایک مفید اور تعمیری ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو کی قیادت میں وفد نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کے قیام میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو کے کردار کو سراہا۔ پاکستانی وفد نے اس امید کا اظہار کیا کہ یہ پیشرفت جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مکالمے کی راہ ہموار کرے گی۔ وفد نے بھارت کی بلااشتعال جارحیت، مسلسل اشتعال انگیز بیانات اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی معطلی پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں بلاول بھٹو نے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا میرے بچے یا بھارتی نوجوان نسل پانی‘ کشمیر یا دہشتگردی پر لڑائی لڑیں۔ پاکستان کشمیر‘ دہشتگردی‘ آبی تنازعات کے حوالے سے بات چیت پر تیار ہے۔ صدر ٹرمپ نے جنگ ٹالنے میں مدد کی۔ اب بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ پاکستانی سفارتی کمیٹی کے سربراہ اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ثبوت ہو یا نہ ہو اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں جس میں انہوں نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور پاکستان بھارت جنگ میں امریکی کردار کو سراہا۔ امریکی وفد میں کانگریس رکن جیک برگمین، ٹام سوزی، ریان زنکے، میکسن واٹرز، ایل گرین، جوناتھن جیکسن، ہینک جانسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئلار اور دیگر اراکین شامل تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے اس وفد کو امن کا مشن دیا ہے، اس مشن میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے، جنگ بندی خوش آئند ضرور ہے، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بھارت اور پاکستان، جنوبی ایشیا اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی۔ بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ثبوت ہو یا نہ ہو، اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتا ہے۔ اراکین کانگریس سے ملاقات میں بلاول زرداری نے سندھ طاس معاہدے کی بھارتی کی جانب سے یکطرفہ معطلی کے ممکنہ نتائج سے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کے لیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے۔ اگر بھارت نے یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہو گا۔ چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے اور اپنی قوت امن کے پیچھے لگا ئے تو وہ بھارت کو سمجھا سکتا ہے۔ مسائل کو حل کرنا ہے تو بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جا ئے جو خطے اور دنیا کے لیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔ بعدازاں امریکی کانگریس ارکان نے جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے پا کستانی وفد کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں امن کے مشن نے امریکی کانگریسی استقبالیہ میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ اعلامیہ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح وفد نے امریکی قانون سازوں سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس میں پاکستانی سفیر رضوان سعید شیخ کی میزبانی میں عشائیہ دیا۔ پارلیمانی وفد نے عشایئے میں دو جماعتی امریکی قانون سازوں کے گروپ سے ملاقات کی۔ تقریب میں جیگ برگمین ‘ ٹام سوزی‘ ریان زنکے‘ میکسن واٹرز‘ ایل گرین‘ جارج لیٹمیر‘ کلیوفیلڈز، مائیک ٹرنر‘ رائل مور‘ جوناتھن جیکسن‘ ہینک جانسن‘ انیسٹی پلاکٹ‘ ہنری کیوئلار نے شرکت کی۔ بلاول بھٹو نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ علاوہ ازیں پاکستانی سفارتی وفد کی پریس کانفرنس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک نیا سٹرٹیجک ’’نیو ایبنارمل‘‘ ترتیب دے رہا ہے۔ یہ نیو ایبنارمل معمول کی حکمت عملی سے بالکل مختلف ہے۔ بھارت علاقائی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت امن کے بجائے کشیدگی سے نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔