ویب ڈیسک — 

امریکہ نے منگل کو کہا ہے کہ اس نے کان کنی، ٹیکسٹائل اور شمسی توانائی کی مصنوعات بنانے والی ایسی درجنوں کمپنیوں کی درآمدات پر پابندی لگا دی ہے جن کا جبری مشقت سے مبینہ تعلق ہے۔

ہوم لینڈسیکیورٹی کے محکمے نے کہا ہے کہ ایغوروں سے جبری مشقت میں ملوث مزید 37 کمپنیوں کو شامل کیا جا رہا ہے جس سے ان کی تعداد تقریباً 150 ہو گئی ہے۔

نومبر 2022 کو ترکیہ کے شہر استنبول میں چینی قونصل خانے کے سامنے ایغور نسلی مظاہرین چین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز

یہ پابندیاں ایغور کمیونٹی سے جبری مشقت کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت لگائی گئی ہیں۔

پابندیوں کا ہدف بننے والی کمپنیوں کی مکمل یا جزوی طور پر تیار کردہ مصنوعات اور سامان کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکرٹری الحانڈرو میئر کاس نے پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم جبری مشقت کے ظلم کے خلاف اپنی ان تھک لڑائی، بنیادی انسانی حقوق کے لیے اپنی غیرمتزلزل وابستگی اور آزاد، منصفانہ اور مسابقتی مارکیٹ کے لیے اپنے ان تھک دفاع کا ایک بار پھر مظاہرہ کر رہے ہیں۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکمے کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ پابندیوں کی فہرست میں ایک ساتھ کیا جانے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

اس فہرست میں جن کمپنیوں کو شامل کیا گیا ہے ان میں سنکیانگ میں اہم معدنیات کی کان کنی اور پراسیسنگ کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں بیجنگ پر 10 لاکھ سے زائد ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کو حراستی مراکز کے نیٹ ورک میں قید کرنے اور مشقت لینے کا الزام ہے۔




چینی حکام ان دعوؤں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

اس فہرست میں سنکیانگ کی کپاس کاشت کرنے والی کمپنیاں اور عالمی برآمدات کے لیے ٹیکسٹائل تیار کرنے والی کمپنیاں بھی شامل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ علاقے میں پولی سیلیکان کے استعمال سے سولر پینلز مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کی درآمدات پر بھی پابندی لگ گئی ہے۔

پابندیوں کی زد میں آنے والی کمپنیوں میں شن جانگ کے زیجن مائننگ گروپ اور اس کے ذیلی ادارے، ہوفو فیشن اور اس کے 25 ذیلی ادارے شامل ہیں۔

ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کہا ہے کہ اس فہرست میں شامل اداروں کا جبری مشقت کے مختلف طریقوں سے تعلق ہے۔

ایغوروں سے جبری مشقت کی روک تھام کے قانون پر 2021 میں دستخط کیے گئے تھے۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل کمپنیوں کی فہرست میں کہا ہے کہ

پڑھیں:

قازقستان؛ زبردستی اور جبری شادیوں پر پابندی عائد؛ خلاف ورزی پر سنگین سزا

قازقستان میں کسی بھی لڑکی کو زبردستی شادی پر مجبور کرنے پر 10 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ قانون سازی ملک میں بڑھتی ہوئی جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا کے کیسز سامنے آنے پر کی گئی ہے۔

قانون ساز ارکان نے بل کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ملک کے کمزور ترین طبقے خاص طور پر خواتین کے تحفظ کا ضامن ثابت ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا کہ لڑکیوں کو جبری اور زبردستی شادیوں اور دلہنوں کے طاقتور افراد کے ہاتھوں اغوا کے واقعات کی بھی سرکوبی ہوگی۔

یاد رہے کہ قازقستان میں 2023 میں ایک سابق وزیر نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد ملک میں خواتین کو درپیش مسائل پر بحث شروع ہوئی تھی۔

دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ زبردستی شادی پر مجبور کرنے پر 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

علاوہ ازیں دلہنوں کو اغوا کے بعد اپنی مرضی سے رہا کرنے والوں کو قانونی گرفت سے بچاؤ کی سہولت بھی ختم کردی گئی ہے۔

اب اغوا کار دلہن کو اپنی مرضی سے رہا بھی کردے تب اس پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جائے گا۔

خیال رہے کہ ایک اندازے کے مطابق پچھلے 3 برسوں میں پولیس کو زبردستی شادی یا دلہن کے شادی کی تقریب سے اغوا کے 214 شکایات موصول ہوئیں۔

تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیوں کہ قازقستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں جہاں ایسے معاملات کا ریکارڈ رکھا جا سکتا ہو۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • چین اور امریکہ کے اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے نتائج مشکل سے حاصل ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • قزاقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی
  • چین نے امریکی کمپنی اینوڈیا کی چِپس خریدنے پر اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر پابندی لگادی
  • قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا
  • امریکا کی  ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں ، افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • قازقستان؛ زبردستی اور جبری شادیوں پر پابندی عائد؛ خلاف ورزی پر سنگین سزا
  • قازقستان نے جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر پابندی عائد کر دی
  • قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد، 10 سال قید کی سزا کا قانون نافذ
  • قازقستان میں جبری شادیوں اور دلہنوں کے اغوا پر سخت پابندی عائد
  • چین اور امریکہ کے درمیان ٹک ٹاک کے مسئلے کے مناسب حل کے لیے بنیادی فریم ورک پر اتفاق