گزشتہ تقریباً ایک سال سے میرا واسطہ ایک ایسی شخصیت کے ساتھ جڑا جو ہے تو کاروباری مگر عام زندگی میں وہ ہمارے لئے ایک بڑی مثال یوں ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس بندے کو جس قدر عطاء کیا اسی قدر وہ اس کی راہ میں تقسیم کا سبب بنا۔ یہ حقیقت ہے کہ اللہ انہی کو نوازتا ہے جو اس کی راہ میں ایسے ہاتھ سے دیتے ہیں کہ دوسرے ہاتھ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ پہلے ہاتھ نے کیا دیا۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے نکلا یہ انسان دیکھنے کو تو ایک عام آدمی، ملنسازی، سادگی، انکساری، دوستی وہ ہر روپ میں سب کو بھلا لگے۔ محمد ذاکر علی کے بارے میں یہ تین اقوال اس کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتے ہیں کہ خواہش کرو بہترین کی… امید رکھ کم ترین کی… اور ان بدترین نتائج کے لئے تیار رہو۔ یہ ایک نہیں کئی دہائیوں کی بات ہے جس نے ناممکنات کو ممکنات میں بدل کر ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی جب پاکستان شدید انرجی کے ابتدائی دور میں داخل ہوا۔ INVEREX سولر کے نام سے کہ پاکستان کو روشنی کی ضرورت ہے اور اس قوم کو سستی بلکہ مفت بجلی کے منصوبے کے تحت اللہ کا نام لے کر قدم رکھا اور پھر کہتے ہیں کہ بستی بستے بستے بنتی ہے۔ محمد ذاکر علی نے صرف دو دہائیوں کومیں INVEREXکو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی ادارہ بنا دیا۔ ان کی زندگی کی کہانی کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اگر زندگی کو جینا ہے تو پھر ذاکر علی کی زندگی کوجیو… حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ…’’اگر کسی کے ظرف کو آزمانا ہو تو اس کو زیادہ عزت دو تو وہ آپ کو اور عزت دے گا۔ کم ظرف ہوا تو خود کو اعلیٰ سمجھے گا، کسی کو پرکھنے کا اس سے بڑا کوئی اور پیمانہ نہیں۔‘‘
ذاکر علی آج زندگی کے بہترین عشرے سے گزرتے ہوئے پاکستان کو انرجی کرائسس سے نکالنے کے لئےINVEREX کی طرف سے خوبصورت تعاون کی پالیسی کے تحت حکومتی ایوانوں اور عوام کی بہتری کیلئے دن رات کوشاں ہے۔ INVEREXاب ایک ایسا خوبصورت گھر بن چکا ہے جس میں چاروں صوبوں کے لوگ آباد ہیں۔ کراچی اور دوسرے بڑے شہروںکے بعد گزشتہ دنوں INVEREXکو شہر لاہور میں بھی آباد کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں اس کی افتتاحی تقریب کے لئے ذاکر علی کی طرف سے مجھے دعوت نامہ ملا تو میرے ذہن میں ایکINVEREXکی روایتی تقریب کے تصور کے سوا کوئی بڑا خاکہ نہیں تھامگر اس تقریب میں جانے کے بعد مجھے ذاکر بھائی کے بارے میں جہاں بہت کچھ دیکھنے کو ملاوہاں اس تقریب کی خاص بات لاہور قلندر کے سی ای او عاطف رانا بھی موجود تھے جن کی قلندرانہ باتیں اور خوش مزاجی نے تقریب کے ماحول کو اور خوبصورت بنا دیا۔ اس افتتاحی تقریب کی خاص بات پاکستان کے نامور کرکٹر، سابق کپتان اور سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق، پاکستان کے مایہ ناز اوپنر بلے باز احمد شہزاد، سابق کپتان اظہر علی اور سابق کپتان محمد یوسف بھی اس بھرپور محفل کی جان تھے دوران محفل جب میں نے ذاکر بھائی کے بارے میں ملک کے مایہ ناز ہیروز کی باتیں سنیں تو یوں لگا کہ ذاکر بھائی کے اندر ایک لیڈر کی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کبھی بھی ایک سا رنگ نہیں رکھتی اور یہ بدلتے بدلتے کبھی اتنی مہربان ہو جاتی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ اس کائنات میں کوئی اور غم نہیںشایدیہی وجہ ہے کہ مجھے ذاکر بھائی کا دوسرا روپ لاہور میں دیکھنے کو ملا جہاں وہ ایک سولر ادارے کے مینوفیکچر ہیں جہاں وہ گھر گھر اپنے سولر کا پیغام لے کر گئے۔ جہاں انہوں نے اپنے برینڈ کو عوام کی آواز بنایا وہاں وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی بھی ایک بڑی شناخت بھی بن گئے… عاطف رانا نے ذاکر بھائی کی کرکٹ بارے جو خدمات ہیں ان کو خوب سراہا۔ انضمام الحق، اظہر علی، محمد شہزاد اور محمد یوسف نے بھی INVEREX کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ آنے والے دسویں پی ایس ایل کے موقع پر ایک بڑے برینڈ کے طور پر سامنے آئے گااوراگر ذاکر بھائی جیسے لوگ کرکٹ کوفروغ دیتے رہے تو پھر ہماری کرکٹ کا مستقبل اور روشن ہوگا۔
گل مکی نہ سجن نال میری بات ہو رہی تھی کہ وہ عام انسان سے بھی بڑے بڑے کام لے جاتا ہے اور حکمرانی بھی انہی لوگوں کو بخشتا ہے جو اس کے اہل ہوتے ہیں آپ کے اور میرے ذہن میں یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ یہ بڑی لیڈرشپ کیا ہوتی ہے اور وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو بحیثیت لیڈر بڑے ادارے بنا جاتے ہیں۔ کیا بھائی ذاکر علی جیسے لوگ جن کے اندر متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی متحرک رکھنا ہوتا ہے۔ دوسرا سب کو ساتھ لے کر چلنا اور اپنے خیالات اور عزائم دوسروں کے اندر اتارنا اور پھر انہی لوگوں کو متاثر کرنا کہ وہ اس کے ساتھ چلیں سوال یہ ہے کہ اچھا لیڈر کون ہوتا ہے وہ جو اپنے علم، تجربات اور اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں سے ایک چھوٹے ادارے سے بڑا ادارہ بناتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں گھر بنا جائے۔ جیسے پھر کہوں گا ذاکر بھائی… یہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ انہی جیسے ذہین اور باکمال لوگوں کے ویژن اور ان کی محنت، لگن اور صاف نیت کے ساتھ ان کے بزرگوں کی دعائیں شامل ہونے سے وہ اپنی بڑی منزل پا جاتے ہیں۔
چلتے چلتے INVEREXکی محفل کو کئی رنگوں میں سمونے کا تمام تر کریڈٹ راؤ جاوید کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے ادارے سٹار کام گروپ جس کے وہ روح رواں ہیں مل کر ذاکر بھائی کی خوشیوں کو دوبالا کردیا ، دیلڈن راؤ جاوید
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
اور آخری بات …
ذاکر بھائی سے محفل میں کسی نے INVEREX کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بلند آواز میں کہا کہ میں نہ غلط کام کرتا ہوں نہ کروں گا۔ INVEREX کی کوالٹی پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں ہوگا… زبردست ذاکر بھائی INVEREX جیسے بڑے ادارے ایسے ہی نہیں بن جاتے اور زندہ دل لاہور آپ جیسی شخصیات اور INVEREX جیسے اداروں کو اپنے حسن میں شامل کرلیا باقی رہے نام اللہ کا۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے بارے میں ذاکر بھائی ذاکر علی کے ساتھ ہیں کہ
پڑھیں:
شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) دوسری جانب شکی مزاج خواتین اپنے شوہر پر کڑی نگاہ کسی باڈی گارڈ کی مانند رکھتی ہیں اور خوامخواہ یہ تصور کرتی ہیں کہ ان کا افیئر کسی کے ساتھ چل رہا ہے۔ شک کی بیماری ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اگر اس شک کو زوجین تقویت دیں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس کا رفع دفع ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
یعنی ایک ایسا روگ ہے کہ اگر بروقت ختم نہ ہو یا اس کا مناسب حل نہ ڈھونڈا جائے تو باہمی چپقلش سے اچھا خاصا گھر پاتال بن جاتا ہے۔شکی انسان اپنے آپ کو مریض نہیں گردانتا بلکہ شک کا سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ شکی مزاج اسے تسلیم بھی نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جب تسلیم نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارے کے لیے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
بلا تردد شک ہی یقین کی دیمک ہے۔
یہ لاعلاج مرض کی صورت تب اختیار کرتی ہے جب بیویاں شوہروں پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں حتیٰ کہ نامدار شوہر کے فلاح وبہبود کے کام کو بھی منفی پیرائے میں پرکھتی ہیں۔ انہیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ان کے شوہر دوسری خواتین میں دلچسپی لیتے ہیں یا بیوی کا اس خبط میں مبتلا رہنا کہ ان کے شوہر کا افئیر ضرور کسی سے چل رہا ہوگا جبھی تو لیٹ گھر آتے ہیں۔
پھر ہر چیز میں نقص نکالنا، بات کا بتنگڑ بنانا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ شوہر کے دفتر سے واپسی پر کپڑوں کا بغور جائزہ لینا، شوہر کے بناؤ سنگھار پر نظر رکھنا اور ہمیشہ اس تاک میں رہنا کہ شوہر کے موبائل کا پاس ورڈ معلوم ہو جائے۔شوہروں کے حوالے سے بیگمات کی حساسیت اپنی جگہ مگر بعض شکی مزاج خواتین اس معاملے میں اس قدر حاسد و محتاط ہوتی ہیں کہ وہ چند گھڑیوں کے لیے بھی اپنے شوہر نامدار کی کسی دوسری خاتون کے ساتھ ضروری گفت و شنید کو بھی گوارا نہیں کرتیں۔
مضحکہ خیز بات کہ بعض سیاسی شخصیات کی بیویاں اہم سرکاری اجلاسوں میں بھی اپنے شوہر کو تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ ان کے ہمراہ باڈی گارڈ کی مانند رہتی ہیں۔شوہر پر شک کی ممکنہ وجوہات میں سے شوہر کا اوپن مائنڈڈ ہونا یا ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے۔ شوہر کا دیگر خواتین سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ ہنسنا بولنا، بیوی کو بہت کھٹکتا ہے۔
یہاں سے بھی بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ عورت خود کو کمتر سمجھتی اور شوہر پر مختلف طریقوں سے شک کرتی ہے۔زبان زد عام ہے کہ شک و وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اگر شوہر شکی مزاج ہو تو پھر بھی سکون غارت ہو جاتا ہے۔ بعض ذہنی مریض شوہر بلا وجہ کے شک کو پال پال کر ایک بلا بنا دیتے ہیں جو اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔
مثلاً دفتر سے واپسی پر گھر میں آہستہ آہستہ اینٹری مارنا اور یہ تجسس رکھنا کہ گھر میں اس کی غیر موجودگی میں کیا ہو رہا ہے؟ فون پر کس سے باتیں ہو رہی ہیں؟ نیز تہذیب کے پیرائے میں کسی مرد کا بیوی کو سلام کرنا اور احوال دریافت کرنا اس پر شوہر کا سوالیہ نشان اٹھانا، اگر بیوی کسی شخص کے کام کی تعریف کردے تو یہ سمجھنا کہ وہ اس پر فریفتہ ہے۔ ایسے شوہروں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی بے گناہ بیویوں کو بےجا شک کے باعث قتل کردیا یاخودکشی کرلی۔کتنا عجیب رویہ ہے کہ اگر بیوی بے تکلف ہو تو اسے برا لگتا ہے۔ اس طرز کے سارے اعمال اسکی غیرت برداشت نہیں کرتی لیکن وہ خود اپنے لیے دیگر خواتین کے ساتھ ہنسنا بولنا جائز قرار دیتا ہے، بزنس ڈنر کے نام پہ ہائی ٹی سلاٹ بک کرتا ہے، کاروباری مجبوری کے نام پہ ہاتھ ملاتا ہے ان سے جس حد تک ممکن ہو بے تکلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔
ایسی خواتین جو ان سے خوش گپیاں کریں وہ خوش اخلاق ہیں مگر اپنے گھر کی خواتین سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو وہ بدکردار ہیں۔زوجین کا باہمی شک کرنے کی وجہ سےکوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہو کر میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے یا بیوی سوچتی ہے کہ فلاں ہیروئن جو اپنے شوہر پر نگاہ رکھتی ہے اس کا کرادر مجھے نبھانا چاہیے وغیرہ۔ مسائل کو زیر بحث نہ لانا بھی شک کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ لہذا مسائل تب جنم لیتے ہیں جب غلط فہمی دل میں بٹھائی جائے اور کھل کر بات نہ ہو۔