حماس سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو حکومت چھوڑ دونگا، انتہاء پسند اسرائیلی وزیر کی دھمکی
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ نے بھی کسی بھی جنگ بندی معاہدے کو اسرائیل کے لئے تباہی قرار دیا ہے اور گذشتہ روز ایتمار بین گویر نے اس سے بھی آگے بڑھ کر حکومت سے الگ ہو جانے کی دھمکی دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیر نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا تو حکومت چھوڑ دوں گا۔ عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے داخلی سلامتی کے وزیر اور انتہاء پسند یہودی جماعت کے سربراہ ایتمار بین گویر نے وزیراعظم نیتن یاہو کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے کوئی معاہدہ کیا تو وہ حکومت سے الگ ہو جائیں گے۔ داخلی سلامتی کے وزیر جنگ بندی کے خلاف پچھلے کئی ماہ سے اپنا مؤقف اسی انداز سے بیان کر رہے ہیں، تاہم اسرائیل کے اندر غزہ میں قید قیدیوں کی رہائی کے لئے آواز میں شدت اور رہائی میں تاخیر پر غم و غصہ ہے۔ اسرائیلی وزیر خزانہ بذالیل سموٹریچ نے بھی کسی بھی جنگ بندی معاہدے کو اسرائیل کے لئے تباہی قرار دیا ہے اور گذشتہ روز ایتمار بین گویر نے اس سے بھی آگے بڑھ کر حکومت سے الگ ہو جانے کی دھمکی دی ہے۔
ایتمار بین گویر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے کہ ہم غزہ جنگ کے دوران مرنے والے 400 سے زیادہ اسرائیلی فوجیوں کی اموات کو حماس کے ساتھ جنگ بندی کرکے ضائع نہ ہونے دیں۔ واضح رہے کہ دوسری طرف بیرون ملک سے غزہ جنگ میں اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ و جوبائیڈن انتظامیہ بھی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی خاطر جنگ بندی قبول کرنے کو نیتن یاہو کی حکومت سے کہہ رہے ہیں، مزید یہ کہ نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ بھی یہی مؤقف رکھتے ہیں تو مشکل ہو رہا ہے کہ اسرائیل کسی ڈیل سے گریزاں رہ سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر دھمکی دی ہے اسرائیل کے حکومت سے کے لئے
پڑھیں:
صیہونی فوج اور معاشرے میں افراتفری
اسلام ٹائمز: اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے زور دیکر کہا ہے کہ ملک اسوقت شدید تنازعات اور افراتفری کے دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے گروہ بندی کے خاتمے پر زور دیا۔ یہ بیان اسرائیلی حکومت میں داخلی بحرانوں اور عوامی عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے حکومت کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہرزوگ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت اندرونی تنازعات کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان لوگوں کو تاریخ نہیں بھولے گی، جنہوں نے تقسیم پیدا کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے نیتن یاہو کی کابینہ کی بے حسی پر بھی تنقید کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو کابینہ کے ایجنڈے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تحریر: سید رضی عمادی
صہیونی میڈیا اپنے تجزیوں میں لکھ رہا ہے کہ جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں اسرائیلی فوج میں نافرمانی کی سب سے بڑی لہر کی تشکیل ایک یقینی امر ہے۔ میڈیا تمام تر سنسر کے باوجود اسرائیلی فوج کے شدید عدم اطمینان کی مسلسل خبریں نشر کر رہا ہے۔ یہ بحران غزہ میں 18 ماہ کی نہ رکنے والی لڑائی کے بعد اسرائیلی فوج کے حوصلوں میں تیزی سے گراوٹ کی عکاسی کرتا ہے اور ریزرو فورس میں کمی نیز فوجیوں کے سروس چھوڑنے سے اسرائیلی فوج کی جنگی صلاحیت میں کمی اور کمزوری نوشتہ دیوار ہے۔ اکتوبر 2023ء کی غزہ جنگ کے آغاز سے لیکر آج تک اسرائیلی فوج کو اپنی طویل ترین لڑائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تقریباً ایک لاکھ ریزرو فوجیوں نے سروس پر واپس آنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کی موجودگی کم ہو کر 50-60 فیصد رہ گئی ہے۔
طویل جنگ اور زیادہ ہلاکتوں نے فوجیوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ رپورٹیں اسرائیلی افواج میں تھکاوٹ اور نفسیاتی صدمے میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی پالیسیوں کے خلاف احتجاج بھی دہکھا جا رہا ہے۔ کچھ فوجیوں نے غزہ میں شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے۔ صیہونی میڈیا اور سیاسی اور فوجی ناقدین بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کو خبردار کر رہے ہیں کہ فوجیوں کا جنگ سے فرار فوج اور حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے عوامی رویوں میں تبدیلی کا اشارہ ہے اور بعید نہیں کہ نافرمانی کی یہ تحریک اسرائیل کے دوسرے شعبوں تک پھیل جائے۔
ادھر اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے زور دیکر کہا ہے کہ ملک اس وقت شدید تنازعات اور افراتفری کے دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے گروہ بندی کے خاتمے پر زور دیا۔ یہ بیان اسرائیلی حکومت میں داخلی بحرانوں اور عوامی عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے حکومت کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہرزوگ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت اندرونی تنازعات کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان لوگوں کو تاریخ نہیں بھولے گی، جنہوں نے تقسیم پیدا کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے نیتن یاہو کی کابینہ کی بے حسی پر بھی تنقید کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو کابینہ کے ایجنڈے سے ہٹا دیا گیا ہے۔