پاکستان، غزہ میں امن و بحالی کے لیے عالمی فورس کا حصہ بننے پر آمادہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
بین الاقوامی استحکام فورس میں پاکستان کی ممکنہ شمولیت کے حوالے سے مختلف سطحوں پر غور جاری ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سے اس اصول پر مبنی رہا ہے کہ عالمی امن، انصاف اور انسانی تحفظ کے لیے ہر ممکن کردار ادا کیا جائے، بالخصوص ایسے مواقع پر جہاں مظلوم اقوام کو مدد درکار ہو۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق غزہ اور فلسطین کے عوام کے تحفظ اور بحالی کے لیے کسی بین الاقوامی طور پر منظور شدہ فورس کی تشکیل ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ مظلوموں کی عملی مدد اور ان کے تحفظ سے بڑھ کر کوئی خدمتِ انسانیت نہیں۔ اگر ایسی فورس جلد تشکیل پاتی ہے تو اس میں ان ممالک کو شامل ہونا چاہیے جن کے دل فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی اور اخوت کے جذبے سے لبریز ہوں۔
پاکستان ماضی میں بھی فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی فورمز پر صفِ اول میں رہا ہے خواہ وہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، عالمی عدالتِ انصاف، یا غزہ امن منصوبے سے متعلق مذاکرات ہوں۔ پاکستان ان 8 مسلم ممالک میں شامل ہے جنہوں نے غزہ امن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے نسل کشی کے خاتمے اور 1967 سے قبل کی سرحدوں پر مبنی 2 ریاستی حل کی توثیق کی تھی۔
اس منصوبے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ غزہ میں امن و سلامتی کے قیام کے لیے قابض افواج کے بجائے کسی غیر جانبدار اور مؤثر بین الاقوامی فورس کو تعینات کیا جائے تاکہ خطے میں دیرپا استحکام ممکن بنایا جا سکے۔
پاکستان گزشتہ 7 دہائیوں سے اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں فعال شرکت کے ذریعے عالمی امن و سلامتی کے لیے نمایاں خدمات انجام دیتا آرہا ہے اور ہمیشہ ایک ذمہ دار، پرامن اور اصولی ریاست کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اگر پاکستان دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر ایسی فورس کا حصہ بنتا ہے جو غزہ میں امن و استحکام، انسانی امداد اور تعمیرِ نو کے اقدامات میں عملی کردار ادا کرے، تو یہ نہ صرف ایک اعزاز بلکہ ایک مقدس قومی و انسانی فریضہ ہوگا۔
پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت کے حصول کے لیے اپنے اصولی مؤقف پر قائم ہے اور 2 ریاستی حل کے سوا کسی متبادل پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ پاکستان ایک ایسی آزاد، خودمختار اور قابلِ بقا ریاستِ فلسطین کا حامی ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے لیے
پڑھیں:
غزہ فورس میں کن ممالک کی فوج شامل ہوگی؟ نیتن یاہو کا دوٹوک اعلان
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے واضح کر دیا ہے کہ غزہ میں مجوزہ بین الاقوامی فورس میں شامل ہونے والے ممالک کا فیصلہ اسرائیل خود کرے گا ، کوئی اور نہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ فورس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کا حصہ ہے، تاہم ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ کون سے ممالک اس میں شامل ہوں گے۔ عرب اور دیگر مسلم ممالک کی شمولیت کے امکانات بھی غیر یقینی ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ حماس نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے، جبکہ اسرائیل نے بھی فورس کی ممکنہ ساخت پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے فوجی غزہ پٹی بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن وہ انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان جیسے ممالک کے ساتھ ممکنہ شمولیت پر بات چیت کر رہی ہے۔
نیتن یاہو نے کابینہ اجلاس سے خطاب میں کہاکہ اسرائیل اپنی سیکیورٹی کا خود ذمے دار ہے، اور ہم نے واضح کر دیا ہے کہ بین الاقوامی فورس کے معاملے میں فیصلہ اسرائیل ہی کرے گا کہ کون سی غیرملکی افواج قابلِ قبول ہیں اور کون سی نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ مؤقف امریکا کے لیے بھی قابلِ قبول ہے، اور واشنگٹن کے اعلیٰ حکام نے حالیہ دنوں میں اس کی تصدیق کی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل گزشتہ دو سال سےغزہ میں فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اب بھی علاقے کے بیشتر داخلی و خارجی راستوں پر اس کا کنٹرول برقرار ہے۔
گزشتہ ہفتے نیتن یاہو نے ترکی کی ممکنہ شمولیت پر اعتراض اٹھایا تھا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کی جانب سے اسرائیلی کارروائیوں پر شدید تنقید کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات ایک بار پھر کشیدگی کا شکار ہیں۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ بین الاقوامی فورس میں صرف وہ ممالک شامل ہوں جن پر اسرائیل کو اعتماد ہو۔ ان کے مطابق واشنگٹن اس حوالے سےاقوام متحدہ کی قرارداد یا بین الاقوامی معاہدے کی تجاویز پر غور کر رہا ہے، اور اس سلسلے میں قطر سے بات چیت جاری ہے۔