مارچ 2025: ‘گوگل پے’ کے ذریعے ڈیجیٹل مالیاتی انقلاب کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام آباد:پاکستان میں گوگل پے، جو کہ ایک عالمی ڈیجیٹل ادائیگی کا پلیٹ فارم ہے، مارچ 2025 کے وسط تک باضابطہ طور پر متعارف کرایا جائے گا۔
سہولت کی تفصیلاتذرائع کے مطابق، نومبر 2024 میں گوگل کی جانب سے اس پلیٹ فارم کی تصدیق کی گئی تھی۔ گوگل پے کو ویزا، ماسٹر کارڈ اور اہم مقامی بینکوں کے تعاون سے فراہم کیا جائے گا، جو پاکستانی صارفین کو اپنے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز کو گوگل والیٹ ایپ کے ذریعے گوگل پے سے لنک کرنے کی سہولت دے گا۔ اس کے ذریعے صارفین بغیر کسی جسمانی رابطے کے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا استعمال کر سکیں گے۔
صرف بنیادی کانٹیکٹ لیس ادائیگیاں فعال ہوں گی۔ دیگر خصوصیات جیسے لائلٹی کارڈز اور پبلک ٹرانسپورٹ پاس ابتدائی طور پر دستیاب نہیں ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق:
چار سے چھ بڑے بینک تکنیکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ویزا اور ماسٹر کارڈ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، ملک کا ادائیگی کا بنیادی ڈھانچہ گوگل پے کو سپورٹ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ پاکستان میں 133,000 پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) ٹرمینلز موجود ہیں، جن میں سے 99 فیصد پہلے ہی موبائل کانٹیکٹ لیس ادائیگیوں کے لیے فعال ہیں۔گوگل پے کی آمد سے نہ صرف ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ ملے گا بلکہ یہ پاکستانی صارفین کے لیے ادائیگیوں کا ایک تیز، محفوظ اور جدید طریقہ فراہم کرے گا۔ ماہرین اس اقدام کو معیشت میں ڈیجیٹلائزیشن کے فروغ کے لیے ایک اہم پیشرفت قرار دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہر سال مختلف کمپنیوں کی جانب سے درجنوں نئے اینڈرائیڈ فونز متعارف کرائے جاتے ہیں جن میں قیمت اور خصوصیات کی بنیاد پر نمایاں فرق موجود ہوتا ہے، تاہم ایک عام صارف جب نیا فون خریدنے جاتا ہے تو اکثر چند بنیادی غلطیاں کر بیٹھتا ہے جو آگے چل کر پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق صارفین کی بڑی تعداد اپنے فون کی اسٹوریج کی ضرورت کا درست اندازہ نہیں لگاتی۔ آج کل ایپس، تصاویر اور ویڈیوز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث زیادہ اسٹوریج کی اہمیت واضح ہے۔ بہت سے افراد کم اسٹوریج والے فون خرید لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصے بعد بار بار ڈیٹا اور ایپس کو ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح صارفین سافٹ ویئر سپورٹ کے معاملے کو بھی عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں۔ متعدد اینڈرائیڈ فونز ایسے ہوتے ہیں جنہیں آپریٹنگ سسٹم کے نئے ورژنز بہت محدود عرصے تک یا پھر بالکل نہیں ملتے۔ اس وجہ سے نہ صرف سیکیورٹی خدشات بڑھ جاتے ہیں بلکہ جدید ایپس کے اہم فیچرز بھی استعمال کرنے میں رکاوٹ آتی ہے۔ مارکیٹ میں موجود چند معروف برانڈز 4 سے 7 سال تک اپ ڈیٹس فراہم کرتی ہیں، جبکہ بعض کمپنیاں صرف ایک سے دو سال تک اپ ڈیٹ دیتی ہیں، اس لیے ماہرین کے مطابق نئے فون کا انتخاب کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کمپنی کی اپ ڈیٹ پالیسی کتنی مضبوط ہے۔
دوسری جانب بہت سے صارفین فون کی خصوصیات کے نمبرز کو دیکھ کر فیصلہ کر لیتے ہیں اور کمپنی کے بتائے گئے اعداد و شمار پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کر بیٹھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 108 میگا پکسل کیمرا ضروری نہیں کہ 48 میگا پکسل یا 12 میگا پکسل سے بہتر ہو، اسی طرح زیادہ mAh والی بیٹری لازمی نہیں کہ زیادہ دیر تک ہی چلے۔ اصل فرق سافٹ ویئر آپٹمائزیشن اور برانڈ کی انجینئرنگ میں ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ فون خریدنے سے پہلے ریویوز کو دیکھا جائے اور ممکن ہو تو کسی ایسے شخص کی رائے ضرور لی جائے جو وہ فون پہلے سے استعمال کر رہا ہو۔
ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ صارفین اکثر اپنی حقیقی ضرورت اور بجٹ کے بجائے مارکیٹ میں مقبولیت کی بنیاد پر فون منتخب کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے کام درمیانی قیمت والے فون بھی بخوبی انجام دے سکتے ہیں، اس لیے پہلے یہ سوچنا ضروری ہے کہ فون کا بنیادی استعمال کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بہت سے افراد جلد بازی کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں اور فون کے لانچ ہوتے ہی فوراً خریداری کر لیتے ہیں، حالانکہ زیادہ تر اینڈرائیڈ فونز چند ہفتوں بعد ہی رعایتی قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ خریدار کچھ وقت انتظار کرے تاکہ بہتر قیمت میں بہتر فون حاصل کر سکے۔