حکومت سندھ کے نئے تعینات ترجمانوں کا اہم اجلاس، عوامی تحفظات دور کرنے پر تبادلہ خیال
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
حکومت سندھ کے نئے تعینات ہونے والے ترجمانوں کا ایک اہم اجلاس کراچی میں سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں صوبائی حکومت کی مواصلاتی حکمت عملی کو بڑھانے اور عوامی تحفظات کو مؤثر طریقے سے دور کرنے کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں حکومتی بیانیے، میڈیا تعلقات کے فروغ اور سندھ حکومت کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی موثر تشہیر کے لیے حکمت عملیوں پر جامع بحث کی گئی۔
اس موقع پر بات کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ حکومتی ترجمان بہت بڑی ذمہ داری ہے، حکومت سندھ نے آپ کو یہ ذمہ داری سونپی ہے، حکومت چاہتی ہے کہ لوگوں کو عوام کے لئے حکومتی منصوبوں کے حوالے سے مکمل آگہی رہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوام کو حکومت کی کوششوں اور پروگراموں کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہ کیا جائے، ہمیں لوگوں کو مثبت معلومات تک رسائی اور ان کی مایوسیوں کا خاتمہ یقینی بنانا ہے۔
سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی وژنری قیادت اور صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی رہنمائی میں عوامی خدمت حکومت سندھ کا عزم ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ترجمان غلط معلومات کا مقابلہ کرنے اور ہماری کامیابیوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، حکومت سندھ کے ترقیاتی اقدامات اور پالیسیوں کے لیے تمام حکومتی ترجمان ایک مربوط ٹیم کے طور پر کام کریں۔
سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ابلاغ عامہ کے ساتھ ساتھ ہمیں سوشل میڈیا پر بھی فوکس کرنا ہوگا، ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، سندھ کے لوگوں کے ساتھ اعتماد برقرار رکھنے کے لیے شفافیت اور موثر رابطہ اہمیت کا حامل ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شرجیل انعام میمن حکومت سندھ نے کہا کہ سندھ کے
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہونے والے عوامی احتجاج کے پیشِ نظر لاس اینجلس میں 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب فیڈرل ایجنٹس اور مظاہرین کے درمیان دوسرے روز بھی جنوب مشرقی لاس اینجلس کے علاقے پیرا ماونٹ میں کشیدگی برقرار رہی۔
ہفتے کی رات مظاہرین نے میکسیکو کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور بعض نے چہروں پر ماسک پہن رکھے تھے، اس دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے بارڈر چیف ٹام ہومین نے تصدیق کی کہ نیشنل گارڈز اتوار کو لاس اینجلس میں تعینات کیے جائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر نے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت “قانون شکنی کے خاتمے” کے لیے 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
‘ٹرمپ انتظامیہ مجرموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتی ہے۔ ان افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔’
تاہم، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس اقدام کو ’سوچا سمجھا اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔
امیگریشن پالیسی پر شدید ردعملمظاہروں کا آغاز ان امیگریشن چھاپوں کے بعد ہوا، جن میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ یعنی آئی سی ای کے ایجنٹس نے کم از کم 44 افراد کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا۔ مظاہرے پیرا ماونٹ کے ایک ہوم ڈیپو کے نزدیک بھی ہوئے، جہاں اہلکاروں کے مبینہ طور پر بیس قائم کرنے کی اطلاعات تھیں۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 1,000 مظاہرین نے ایک وفاقی عمارت کو گھیر لیا، اہلکاروں پر حملہ کیا، گاڑیوں کے ٹائروں کو کاٹا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، اگرچہ یہ دعویٰ آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن حالات کشیدہ ضرور تھے۔
امیگرنٹس رائٹس گروپ کرلا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلیکا سالاس کے مطابق، وکلا کو حراست میں لیے گئے افراد تک رسائی نہیں دی گئی، جسے انہوں نے ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت میں ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے اور امریکا-میکسیکو سرحد کو مکمل بند کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ہدایت پرآئی سی ای کو روزانہ کم از کم 3,000 افراد کو گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
سیاسی ردعمل اور قانونی سوالاتٹرمپ کے مشیر اور سخت گیر امیگریشن پالیسی کے حامی اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ’ریاستی خودمختاری پر بغاوت‘ قرار دیا، جبکہ ہفتے کو مظاہروں کو ’پر تشدد بغاوت‘ سے تعبیر کیا۔
کولمبیا کے صدر پیٹرو کی طرح، ٹرمپ کے حامیوں نے اس پورے معاملے کو قانون کی بالادستی سے جوڑا، جبکہ مخالفین نے اسے انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔
ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بغیر نشانات والی فوجی گاڑیاں اور وردی میں ملبوس اہلکار شہر میں گشت کر رہے تھے۔ چھاپے زیادہ تر ہوم ڈیپو، گارمنٹ فیکٹریوں، اور گوداموں کے علاقوں میں کیے گئے، جہاں اسٹریٹ وینڈرز اور یومیہ مزدوروں کو گرفتار کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسٹیفن ملر امریکی صدر امیگریشن امیگریشن پالیسی انسانی حقوق ٹرمپ انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ شہری آزادیوں لاس اینجیلس