Jasarat News:
2025-07-26@06:55:21 GMT

ضلع کرم‘ بالش خیل اور خار کلی میں مزید 2 بنکرز گرا دیے گئے

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

کرم‘صباح نیوز(آن لائن+صباح نیوز)امن معاہدے کے تحت ضلع کرم کے گاؤں بالش خیل اور خار کلی میں مزید 2 بنکرز گرا دیے گئے۔اسسٹنٹ کمشنر کرم افراسیاب کا کہنا ہے کہ مزید بنکرز کو گرانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اب تک 6 بنکرز گرا دیے گئے ہیں۔دوسری جانب ضلع کرم میں کھانے پینے کی اشیاء کی قلت برقرار ہے۔عوام کا کہنا ہے کہ 25 ٹرکوں میں لائے گئے سامان میں آٹا، چینی، گیس، دوائیں
اور دیگر اشیاء نہیں ہیں جبکہ مختلف اشیاء کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ٹماٹر 700، پیاز 500، ہری مرچ 800 اور چینی 200 روپے کلو ہو گئی ہے۔ضلع ہنگو سے 100 سے زائد سامان سے بھری گاڑیاں اب بھی کرم جانے کی منتظر ہیں۔مندوری میں مظاہرین کے ساتھ ٹل کینٹ یا کوہاٹ میں ضلعی انتظامیہ سے دوبارہ مذاکرات متوقع ہے۔علاوہ ازیںراستوں کی بندش کے باعث پاراچنار شہر سمیت سو سے زیادہ دیہاتوں کو ہر قسم کی سپلائی معطل ہے، راستوں کی بندش کے باعث پانچ لاکھ آبادی علاقے میں محصور ہے، سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور شہری فاقوں پر مجبور ہیں۔گزشتہ رات اشیائے خوردونوش پر مشتمل 25 ٹرک پاراچنار پہنچے، جس کے بعد اشیائے خوردونوش کے حصول کیلئے شہریوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور متعدد چیزیں مہنگے داموں میں موقع پر فروخت ہوگئیں۔گزشتہ روز ٹماٹر 700 روپے، گوبھی 500، ٹنڈے 500 اور پیاز 500 روپے فی کلو میں فروخت ہوئی۔ اسی طرح ہری مرچ 800، اروی 500 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہونے لگی۔عوام کے مطابق 16 کلو گھی کا کنستر 11 ہزار روپے، 50 کلو چینی 10 ہزار روپے اور چائے فی کلو 2200 روپے کے حساب سے فروخت ہوئی۔اتنی مہنگی سبزیاں دیکھنے کے بعد عوام انہیں خریدنے سے قاصر نظر آئے اور صرف قیمتیں پوچھنے پر اکتفا کیا۔عوام کا کہنا ہے کہ 5 لاکھ آبادی کیلئے 25 ٹرک ناکافی ہیں۔ شہریوں نے مطالبہ کیا کہ ایندھن اور ایل پی جی کی کمی کو پورا کیا جائے اور اپر کرم کیلئے کم از کم 500 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ روانہ کیا جائے۔دوسری جانب پٹرول اور ڈیزل کی عدم دستیابی کے باعث شہری پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ضلع میں پبلک ٹرانسپورٹ، اے ٹی ایمز، موبائل نیٹ ورک، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس بدستور بند ہیں، اسکولز سمیت دیگر تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عوامی سہولیات کیلئے اقدامات اٹھائے رہے ہیں، راستوں کو محفوظ بنانے کیلئے کوششیں جاری ہیں، پائیدار اور دیرپا امن و امان کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ

پڑھیں:

پیسہ پیسہ کرکے!!

جانے آپ نے کبھی غور کیا یا نہیں مگر میں گزشتہ چند دن سے اس پر غور و فکر کر رہی ہوں اور حیرت میں ڈوبتی جاتی ہوں ۔ ایک دکان سے پھل اور سبزی خریدتی ہوں، سبزیوں کے نرخ اس طرح سے ہیں کہ میرا بل بنتا ہے سات سو اٹھائیس روپے، میں دکاندار کو سات سو پچاس روپے دیتی ہوں تو وہ مجھے بیس روپے واپس کر دیتا ہے۔ میں کپڑوں کی دکان پر کچھ خریداری کرتی ہوں تو وہ مجھے کہتا ہے کہ میرا بل چار ہزار سات سو پچانوے روپے ہے۔

میں اسے پانچ ہزار کا نوٹ دیتی ہو تو وہ مجھے دو سو روپے بقایا دیتا ہے۔ میں دوا خریدنے جاتی ہوں تو دوا کی ڈبیا پر دوا کی قیمت لکھی ہوئی ہے چار سو ستاسٹھ روپے۔ میں اسے پانچ سو روپے کا نوٹ دیتی ہوں اور وہ مجھے بقایا دیتا ہے تیس روپے۔ پٹرول کی فی لٹر قیمت کے حساب سے اگر آپ کا بل اتنا بنتا ہو کہ پانچ روپے سے کم بقایا بنتا ہو تو واپسی پر آپ کو پانچ روپے سے کم کی وہ رقم واپس نہیں ملتی۔

آپ تصور کریں کہ کسی پٹرول پمپ پر، کسی سبزی پھل کی دکان پر یا کسی کپڑے ، جوتے یا کتابوں کی دکان پر… ایک دن میں کتنے گاہک آتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا بقایا پانچ روپے سے کم ہو تو انھیں وہ واپس نہیں ملتا اور کوئی اس کے بارے میں فکر بھی نہیں کرتا کیونکہ اس وقت پچاس اور سو روپے کی اتنی بھی وقعت نہیں ہے تو پانچ دس روپے کی کیا وقعت ہے کہ کسی کو واپس نہ ملنے پر دکھ ہو۔

اس دکاندار کو سوچیں جو کہ دن میں جانے کتنے ہی لوگوں سے اتنی چھوٹی چھوٹی رقوم جمع کر کے ایک دن، ہفتے ، مہینے یا سال میں کتنی رقم جمع کرتا ہے جس کا نہ کوئی شمار ہوتا ہے اور نہ حساب۔ درست بل دینا کہ جس پر ٹیکس نمبر بھی لکھا ہو، وہ ہمارے یہاں چھوٹے دکاندار کو عادت ہی نہیں، بل اس وقت دیتے ہیں جب آپ مطالبہ کریں۔ کارڈ سے بل نہیں لیتے کیونکہ وہ ریکارڈ میں آجاتا ہے اور اس پر ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ کتنے ہی کاروبار ہیں جو کہ آپ کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ کیش میں ادائیگی کریں تو آپ کو کچھ رعایت مل جاتی ہے۔

ہم سب اس جال میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ ہمیں اس میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہم ملکی مفاد میں سوچیں تو ہمیں ایسی پیشکش کو ٹھکرا دینا چاہیے مگر جب ہم کسی کو اس بارے میں آگاہی دینے کی کوشش کریں تو لوگ کہتے ہیں کہ انھیں ٹیکس دے کر کیا ملتا ہے؟ سارا ٹیکس تو انھیں کے اللوں تللوں اور ان کے شاہانہ اخراجات میں چلا جاتا ہے جو پہلے سے ہی اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کر رہ رہے ہیں۔

ہمیں کون سا ان ممالک کی طرح بنیادی انسانی سہولیات میسر ہیں جیسی کہ ان ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں، جہاں لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری دنیا بھر میں ہوتی ہے مگر ہم شاید اس میں بھی پہلے نمبر پر ہوں گے کیونکہ ہم ایسی چیزوں میں درجہء کمال پر ہیں جو درست نہیں ہیں۔

سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک میں پیسے کی نقل و حمل پر پابندی لگائی جائے۔ آپ کارڈ پر ادائیگی کرنا چاہیں تو دکانداروں کی مشین نہیں چلتی، بڑے بڑے دکاندار بھی کئی بار کہہ دیتے ہیں کہ مشین میں کوئی مسئلہ ہے یا آپ کے کارڈ میں۔ اگر کارڈ پر بل لینے کو مان بھی جائیں تو کہتے ہیں کہ کارڈ کی فیس گاہک کو دینا ہو گی۔ بڑے بڑے سنار ( جیولرز) لاکھوں اور کروڑوں کے بل لیتے ہیں، وہ ساری سیل نہ چھپاتے ہوں تو بھی کچھ نہ کچھ چھپا جاتے ہیں۔

ٹیکس نیٹ میں ہر چھوٹے بڑے کاروباری کو لانا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ والے اپنے کھاتے سدھار سکتے ہیں اور نہ حکومت۔ بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ٹیکس کے محکمے کے ہی لوگ ، ملوث ہیں جو کہ لوگوں کو ٹیکس چوری کے طریقے بتاتے ہیں۔ پھر میںنے عہد کیا کہ چھوٹے ٹھیلوں، سڑک کے کنارے ریڑھی بانوں یا کسی کو نقد دینے کے علاوہ میں ہر جگہ کارڈ استعمال کروں گی۔

اس دوران میں نے غور کیا کہ کپڑے کا بڑے سے بڑا کاروباری برانڈ بھی آپ کو بل بتاتا ہے گیارہ سو ستر… جب آپ کارڈ سے رقم ادا کرتے ہیں تو آپ کے گیارہ سو ستاسٹھ روپے کٹتے ہیں، استفسار کریں کہ انھوں نے توبل گیارہ سو ستر بتایا تھا تو جواب ملے گا کہ انھوں نے اس رقم کو Round up کر دیا تھا۔ راؤنڈ اپ تو گیارہ سو ساٹھ یا پنسٹھ بھی ہو سکتے ہیں مگرکسی کے پاس اب کہاں سکے ہوتے ہیں اور دس روپے تک کا نوٹ بھی متروک ہو چکا ہے۔ کارڈ پر ادائیگی کر کے آپ کچھ نہیں تو ہر ماہ کچھ رقم بچا سکتے ہیں۔اگر آپ کو کوئی پر کشش پیش کش کرتا ہے ، نقد دینے پر ٹیکس میں اتنی چھوٹ ہو گی تو اس جال میں نہ پھنسیں، ذمے داری کا ثبوت دیں۔ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے ملک اور نظام کو خراب نہ ہونے دیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہیلتھ کارڈ تک عوامی رسائی کو مزید مؤثر بنانے کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے؛ وزیراعظم آزادکشمیر
  • عام صارفین اور تاجروں کیلئے اکاؤنٹ کھولنا مزید آسان، جامع فریم ورک متعارف کرا دیا گیا
  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح بڑھ کر 4.07فیصد ہو گئی ، 14اشیائے ضروریہ مزید مہنگی
  • عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی تعاون ناگزیر ہے، محمد اسحاق ڈار
  • وزیرا عظم شہباز شریف یوم آزادی کے موقع پر الیکٹرک بائیکس اسکیم کا افتتاح کریں گے
  • پیسہ پیسہ کرکے!!
  • پیٹرول مزید مہنگاکرنےکی تیاری، لیوی 10 روپے تک بڑھانے پر غور
  • خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ پر 37 ارب روپے خرچ
  • غیررسمی معیشت کے سدباب کیلئے انفورسمنٹ سے متعلق مزید اقدامات کیے جائیں: وزیر اعظم شہباز شریف
  • ایف بی آر کی اصلاحات سے ٹیکس نظام کی بہتری خوش آئند ہے: وزیراعظم