Jasarat News:
2025-09-18@11:49:15 GMT

سندھ کی کسان عورت اسل ورکنگ وومن ہے،شاہینہ شیر علی

اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT

ٹنڈو جام (نمائندہ جسارت) صوبائی وزیر شاہینہ شیر علی نے کہا ہے کہ سندھ کی کسان عورت اصل ورکنگ وومن ہے، اسے دیگر اداروں میں کام کرنے والی ورکنگ وومن جیسی اہمیت ملنی چاہیے، بچے گود میں لے کر کھیت میں کام کرنے والی مزدور خواتین کے بچوں کے لیے سندھ میں 115 ڈے کیئر سینٹر قائم کر رہے ہیں۔ یہ بات انہوں نے سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈو جام کی میزبانی میں ’’زرعی ترقی اور خواتین کو بااختیار بنانا‘‘ چیلنجز اور آگے بڑھنے کے طریقے کے موضوع پر پہلی 2 روزہ عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کو اسکول بھیجنے اور بعد میں کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین مردوں کے بہتر مستقبل کے لیے محنت کرتی ہیں، اب ان کی بہتری کے لیے بھی سوچنا ضروری ہے، اس بچے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو اسٹیج پر آکر فخر سے کہے کہ وہ ایک ہاری کا بیٹا ہے۔ سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ صنفی برابری کے ذریعے ملک ترقی کر سکتا ہے، 67 فیصد خواتین زراعت میں عملی کردار ادا کرتی ہیں لیکن ان کے لیے کوئی مناسب اُجرت نہیں ہے۔ زیادہ تر زمینوں کی ملکیت کا حق مردوں کے پاس ہے، خواتین کو زمین کی ملکیت کے حقوق ملنے چاہییں کیونکہ کاشت سے لے کر کٹائی تک خواتین مردوں کے برابر کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو تدریس، تحقیق اور ترقی میں فیصلے کرنے کے حق میں رُکاوٹوں کا سامنا ہے۔ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ زرعی شعبے میں خواتین کا کردار اہم ہے لیکن یہ تشویش کی بات ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں 10 فیصد خوش نصیب بچوں میں لڑکیوں کا تناسب صرف 2 فیصد ہے، مارکیٹ میں خرید و فروخت کرنے والی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے مارکیٹنگ کے شعبے میں خواتین کو متحرک کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اکیڈمیا، ایوان، سیاسی قیادت اور میڈیا سماج خواتین کو عملی میدان میں لانے میں حوصلہ افزائی اور رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ خواتین کی عملی شمولیت اور زراعت کو فروغ دے کر معیشت اور جی ڈی پی کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ ایف اے او کی مس این کلر یوی میری چیریسی نے کہا کہ سندھ کی خواتین کھیتوں میں 12 سے 14 گھنٹے کام کرتی ہیں، جنہیں صحت کے مسائل کا سامنا ہے، کھیتوں میں پیداواری عمل میں شامل خواتین بھی موسمی تبدیلیوں، غذائی تحفظ، غذائی کمی، کم اُجرت اور صنفی ناانصافیوں کا شکار ہیں۔ سماجی رہنما زاہدہ ڈیتھو نے کہا کہ خواتین کو مارکیٹنگ کی طرف لانا ہو گا، محنت خواتین کرتی ہیں اور زرعی مصنوعات کو مارکیٹ تک مرد لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے لیے دارالامان پروٹیکشن سیل اور شکایتی مراکز ناکافی ہیں، خواتین کو قانونی اور انصاف کی سہولیات دستیاب نہیں، خواتین کو لیبر فورس کے طور پر قبول کر کے تمام مراعات دی جانی چاہییں۔ پاکستان سوسائٹی آف ایگریکلچر انجینئرنگ کے مرکزی رہنما انجینئر منصور رضوی نے کہا کہ عالمی ترقی میں خواتین برابر کی شریک ہیں، ہم نے اپنی آدھی آبادی کو ترقی سے دور رکھا ہوا ہے، ایسی کانفرنسوں کو دیگر یونیورسٹیوں تک لے جانا چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کرنے والی خواتین کو کرتی ہیں کے لیے

پڑھیں:

سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کردی

کراچی:

سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور صوبے کے زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کے لیے جامع منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

 وزیر زراعت سندھ سردار محمد بخش مہر کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے نہ صرف کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا بلکہ صوبے میں غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت سندھ نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کیلئے کسانوں کو تربیت دینے کیلئے کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر منصوبہ کے تحت سندھ واٹر اینڈ ایگریکلچر ٹرانسفارمیشن (SWAT) پروگرام شروع کیا ہے۔

اس پروگرام کے تحت کسانوں کو جدید زرعی طریقے سکھائے جا رہے ہیں جن میں فصل کی پیداوار میں اضافہ، پودے کی اونچائی، شاخوں کی تعداد، کیڑوں کے خاتمے اور کم پانی میں کاشت جیسے عملی طریقے شامل ہیں۔

سردار محمد بخش مہر نے بتایا کہ یہ منصوبہ 5 سالہ ہے جو 2028 تک جاری رہے گا۔ اس دوران 180 فیلڈ اسکول قائم کیے جائیں گے اور 4500 کسانوں کو تربیت فراہم کی جائے گی۔ پہلے مرحلے میں رواں سال 750 کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں کی تربیت دی جا رہی ہے۔

محکمہ زراعت کی جانب سے ابتدائی طور پر سکھر، میرپور خاص اور بدین میں 30 ڈیمو پلاٹس اور فیلڈ اسکولز قائم کیے گئے ہیں۔ ان ڈیمو پلاٹس پر لیزر لینڈ لیولنگ، گندم کی قطاروں میں کاشت اور متوازن کھاد کے استعمال جیسے طریقوں کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔

وزیر زراعت کے مطابق بدین کے کھورواہ مائنر میں زیرو ٹلج تکنیک کے تحت دھان کے بعد زمین میں بچی ہوئی نمی پر گندم اگائی گئی، جس سے اخراجات، پانی اور محنت میں نمایاں بچت کے ساتھ ماحولیات کو بھی فائدہ ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ تربیت مکمل ہونے کے بعد تمام کسانوں کو سبسڈی فراہم کی جائے گی تاکہ وہ اپنی زمینوں پر یہ جدید طریقے اپنائیں اور دوسروں کے لیے مثال قائم کریں۔

سردار محمد بخش مہر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے، جس کے باعث فصلیں متاثر ہو رہی ہیں اور کسان نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سندھ حکومت نے کسانوں کی تربیت کے ذریعے عملی اقدامات شروع کیے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت زرعی پالیسیوں میں کسان کو ریلیف فراہم کرے، علامہ مقصود ڈومکی
  • سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں کی مدد کررہے ہیں‘ وزیراعلیٰ سندھ
  • سندھ میں زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کا منصوبہ تیارہے‘سردارمحمد بخش مہر
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کر دی
  • سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کردی
  • دریائے سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں، بند ٹوٹ گئے، دیہات زیرِ آب
  • خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت