حکومت کو 7 روز میں مذاکرات کا تحریری جواب دینا ہے، عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 16th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ حکومت کو اب 7 روز میں مذاکرات کا تحریری جواب دینا ہے۔
اسد قیصر، محمود اچکزئی، محمد علی خان و دیگر کے ساتھ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ قومی اسمبلی میں آج بھی پی ٹی آئی کا احتجاج جاری ہے ۔ 190 ملین پاؤنڈز برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کا معاہدہ تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے شوکت خانم اسپتال بنایا ، القادر یونیورسٹی بنائی۔ انہوں نے پاکستان کی ترقی میں کام کیا ہے ۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ حکومت نے 7دن کے اندر مذاکرات کا تحریری جواب دینا ہے ۔ حکومت نے تسلیم کیا ہے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرائی جائے گی ۔ حکومت بتائے گی، اس کے بعد ہی مذاکرات آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم سیکٹر میں بھی پاکستان پیچھے چلا گیا ہے ۔ کس گاڑی کا انجن چل ہی نہ رہا ہو تو وہ گاڑی کیسے چلے گی ؟۔ 14 ارب ملک سے باہر گیا ہے ، ہم 2ارب کے لیے آئی ایم ایف سے بھیک مانگ رہے ہیں۔
محمود اچکزئی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ پاکستان کو بچانے کی صف میں کھڑے ہو جائیں ۔ ہمارے لوگ ، ادارے آئین کے ساتھ چلیں گے تو ہم کھڑے ہیں۔ جو آئین کے خلاف ہیں، ہم ان کے خلاف کھڑے ہوں گے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں ۔ اس وقت تمام اسٹیک ہولڈرز بیٹھ کر معاملات آگے بڑھائیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں اس وقت جو صورتحال چل رہی ہے اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ ہماری کابینہ نے منظور کیا تھا کہ ہماری ٹرانسپورٹ افغانستان سے ہوکر روس تک جائے گی ۔ پی ٹی آئی حکومت میں یہ معاہدہ بھی ہوچکا تھا ۔ خیبر پختونخوا کو 40 سال جنگوں میں دھکیلے رکھا ۔ جو بھی مسائل ہیں وہ ٹیبل پر بیٹھ کر حل کیے جائیں ، جذبات سے کام نہیں چلے گا ۔ ہمیں جینے کا موقع دیا جائے ، ہمیں پاکستانی سمجھا جائے ۔ ہمارا مطالبہ ہے افغانستان کے ساتھ تمام معاملات حل کیے جائیں۔
علامہ راجا ناصر عباس نے کہا کہ ضروری ہے سیاسی اداروں کو طاقت ور کیا جائے اور پاکستان کو صحیح ٹریک پر لایا جائے ۔ کرم کا راستہ 3 طرف سے افغانستان اور ایک طرف سے پاکستان کے ساتھ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں ظلم ہوا ہے ، تاریخ میں ایسے ظلم نہیں دیکھے ۔ اسرائیل کا ہدف تھا کہ حماس کو ختم کرنا ہے ، حماس اپنے وطن کو آزاد کرانا چاہتی ہے۔ آج اسرائیل کو شکست ہوئی ہے ۔ اس شکست کے اثرات دہائیوں تک یاد رکھے جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ پی ٹی آئی عمر ایوب انہوں نے کے ساتھ
پڑھیں:
IMF شرائط:حکومت کیلئے بڑے فیصلے،ریلیف دینا ناممکن
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ کی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں جب کہ وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے اقتصادی سروے جاری کردیاہے جس میں دعویٰ کیاگیاہے کہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی گروتھ)دواعشاریہ سات فیصدتک پہنچ گئی ہے جب کہ 2023میں جی ڈی پی کی شرح منفی تھی ،اسی طرح درآمدات میں گیارہ اعشاریہ سترہ فیصداضافہ بتایاگیاہے اور افراط زرچاراعشاریہ چھ اور اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ بائیس سے گیارہ فیصدپرآگیاہے،فائلرزکی تعدادبڑھ کر سینتیس لاکھ تک پہنچ گئی اوررواں سال ترسیلات زر ریکارڈاضافے کے ساتھ اڑتالیس ارب ڈالرتک پہنچنے کاامکان ظاہرکیاگیا،فی کس آمدنی ،جو1824ڈالرہے،ا س میں گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ اعشاریہ چھ فیصداضافہ ظاہرکیاگیاہے،لائیوسٹاک میں چاراعشاریہ سات،پولٹری میں آٹھ اعشاریہ ایک فیصداضافہ دیکھنے میں آیاتاہم اہم فصلوں گندم اور کپاس میں ساڑھے چودہ فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے،وزیرخزانہ نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ صنعتی ترقی میں چاراعشاریہ 77فیصداضافہ ہوا،رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا،اگراسی رفتارسے آبادی بڑھتی رہی تو یہ 40کروڑتک پہنچ جائے گی پھرسوچئے ملکی معیشت کاکیاہوگا،جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کاتعلق ہے اس کاباضابطہ اعلان بجٹ تقریرمیں کیاجائے گااب تک کی معلومات کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصداور پنشن میں ساڑھے سات فیصداضافہ کیاجارہاہے،آئی ایم ایف پروگرام کے باعث پاکستان کی معیشت کواستحکام ملا،کڑی شرائط کے باعث عام آدمی کو مشکلات کاسامناکرناپڑا،مہنگائی ایک ریکارڈسطح تک گئی اوراب مہنگائی بڑھنے کی رفتارکم ہوکرچارفیصدتک ہونے کادعویٰ کیاگیاہے،آئی ایم ایف کے بغیرحکومت کوئی بھی بڑافیصلہ نہیں کرسکتی،کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث حکومت کی مجبوری ہوتی ہے، ،بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے سے پہلے کابینہ میں اس کی منظوری دی جائے گی،اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ معاشی مشکلات کومدنظررکھتے ہوئے بعض مشکل فیصلے لیناحکومت کی مجبوری ہیلیکن ٹیکسز کے معاملے میں حقائق کو مدنظررکھ کرایسے فیصلے کئے جانے چاہئیں جس سے غریب اور متوسط طبقے پر مزیدبوجھ نہ پڑے،نئے بجٹ میں تنخواہ دارطبقے کے لئے نمایاں ریلیف اور بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کرناوقت کاتقاضااوردیرینہ مطالبہ ہیجسے پورا کیاجاناچاہئے،ملک جب بھی معاشی بحران کاشکارہواتو سب سے زیادہ قربانی ہمیشہ تنخواہ دارطبقے نے ہی دی،جس پرہربجٹ میں ٹیکسوں کابوجھ ڈالاگیا،یہی وجہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ شدید مالی دباؤ اور معاشی چیلنجز کا شکار ہے، مہنگائی ، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور بڑھتے ہوئے ٹیکس کے بوجھ نے عام تنخواہ دار افراد کی زندگی کو نہایت مشکل بنا دیا ہے، تنخواہ دار طبقے کے افرادکی خوشحالی براہِ راست ملکی ترقی سے جڑی ہے، اگر یہ طبقہ مالی پریشانیوں میں مبتلا رہے تو اس کا اثر ملکی پیداوار، سماجی استحکام اور معیشت کی مجموعی کارکردگی پر منفی پڑتا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس نظام کو اس طرح ترتیب دے جو تنخواہ دارطبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالے، اسی طرح بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے یانفاذ کی روش نہ صرف تک کی جانی چاہئے۔
Post Views: 5