بنگلہ دیش اورانڈیا،سیاسی تنا ؤاور کشیدگی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
مغربی بنگال میں انڈیا اور بنگلہ دیش کے پانچ اضلاع سے متصل طویل سرحدی ریاستوں پر انڈیا کی طرف سے خار دار تاروں کی باڑ لگانے پر دونوں ملکوں میں سرحدی تنازعہ شدت اور طول اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی ہو رہی ہے اس کے پڑوسی ملک انڈیا کے ساتھ سرحد پر کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جب مغربی بنگال میں بنگلہ دیشی سرحدی گارڈز کی 58 ویں بٹالین کے کمانڈر کرنل رفیق الاسلام نے منگل کے روز بنگلہ دیشی میڈیا کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ دریائے کوٹلیا کے کنارے پانچ مربع کلومیٹر کا علاقہ قبضے میں لے لیا گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں اس سرحدی علاقے میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے جس کی وجہ سے انڈیا کی سرحد کی حفاظت پر مامور فورس بی ایس ایف اور بنگلہ دیشی سرحدی گارڈز بی جی بی کے درمیان کشیدگی اور بے چینی دونوں میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ عام طور پر پرسکون رہنے والی اس سرحد پر اب واضح طور پر تنائو پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس علاقے میں کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد سے انڈین سرحدی حفاظتی فورس اور بنگلہ دیش کے سرحدی گارڈز کو آپس میں مل کر ایک فلیگ میٹنگ (ضابطے کی ایک ملاقات)کرنا پڑی۔
دراصل دریائے کوٹلیا کے کنارے 5 مربع کلومیٹر پر بنگلہ دیش کے قبضے کے بعد اس مسئلے کی سنگینی کو فوری کم کرنے کے لئے دونوں ممالک نے فلیگ میٹنگ میں اس پر قابو پانے کے لئے مذاکرات کئے ہیں۔ اب چاہے مسئلہ سرحدی دراندازی کو روکنا ہو یا انڈیا کی سرحد پر خار دار تاریں لگانے کی بات ہو، بی ایس ایف اور بی جی بی کا اکثر ملاقات کرنا ایک عام بات ہے۔ دونوں پڑوسی ممالک کی سرحد پر سکیورٹی کے فرائض انجام دینے والی ان دونوں فورسز کے درمیان کسی بھی قسم کی جھڑپ کی تاحال مصدقہ اطلاعات تو نہیں ہیں لیکن کئی مقامات پر کشیدہ صورتحال پائی جاتی ہے۔ اس میں مغربی بنگال کا سب سے اہم علاقہ نارتھ 24پرگنا ضلعے میں واقع بونگاں میں واقع پیٹراپول سرحدی چوکی جو سب سے مصروف سرحدی چیک پوائنٹ ہے جہاں بنگلہ دیشی سرحدی گارڈز بھی تعینات رہتے ہیں۔
دریائے کوٹلیا کا یہ متنازعہ علاقہ جس پر بنگلہ دیش نے قبضے کا اعلان کیا ہے وہ باگڈا حلقے کے راناگھاٹ گاؤں میں آتا ہے اور پیٹراپول سرحدی چوکی سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔ سرحد کے دوسری جانب بنگلہ دیش کا علاقہ مہیش پور ہے۔ رفیق الاسلام کے اس بیان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ سرحدی فورسز کے افسران کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو مزید خراب ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس کے بعد صورتحال کو قابو میں لے لیا گیا ہے۔
ایسے میں گزشتہ روز بنگلہ دیشی وزیر خارجہ کے سیکرٹری محمد جاشم الدین نے ڈھاکہ میں تعینات انڈین ہائی کمشنر پرنے ورما کو طلب کرکے انڈین بارڈر سکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) کی تازہ سرگرمی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں یہ پیغام دیا کہ وہ انڈیا میں تمام متعلقہ حکام کو یہ بتا دیں کہ وہ ایسی اشتعال انگیز حرکتوں سے باز رہیں اور سرحد پر خاردار تاریں لگانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیتے ہوئے خبردار بھی کیا کہ اس عمل سے دونوں ممالک کی سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انڈین میڈیا کے مطابق جاشم الدین نے ڈھاکہ نے انڈیا پر دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے سرحد کے ساتھ پانچ مقامات پر باڑ لگانے کی کوشش کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے فوری روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
رفیق الاسلام کے بیان کے بعد پیٹراپول کی سرحدی چوکی پر انڈیا کی بی ایس ایف کے اعلیٰ افسران اور بنگلہ دیشی سرحدی گارڈز کے درمیان ایک ہنگامی فلیگ میٹنگ سے قبل ہی انڈین سرحدی فورس بی ایس ایف نے رفیق الاسلام کے دعووں کو یکسرمسترد اور گمراہ کن بیان قرار دیتے ہوئے کہا ہے بی ایس ایف یہ یقین دہانی کرانا چاہتا ہے کہ ایک انچ زمین بھی قبضے میں نہیں لی گئی ہے اور نہ ہی ہم ایسی کسی بھی کارروائی کی اجازت دیں گے۔ انڈین سرحدی حفاظتی فورس نے مزید وضاحت کی کہ اس علاقے میں بین الاقوامی سرحد دریائے کوڈالیا درمیان سے گزرتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی درستگی کے ساتھ پہلے ہی نشان دہی کی جا چکی ہے۔ دریا کے دونوں طرف ستون اور پتھر نصب کیے گئے ہیں تاکہ سرحد کو واضح طور پر نشان زد کیا جا سکے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ فوری طور پر یہ فلیگ میٹنگ بلانے کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے۔
اب جانتے ہیں کہ بنگلہ دیشی سرحدی گارڈ کے افسر نے اپنے متنازع بیان میں مزید کیا کہا اور کس بنیاد پر کہا؟بنگلہ دیشی افسر نے رفیق الاسلام نے بیان میں دعویٰ کیا کہ پہلے بنگلہ دیش کے اس سرحدی گائوں والوں کو دریائے کوڈالیا کا استعمال کرنے میں مشکلات درپیش تھیں تاہم موجودہ صورت حال کے تناظر میں اب ہمارے دریائے کوڈالیا کے کنارے رہنے والے اس پانی کو بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا کے بی ایس ایف حکام نے جوابا کہا کہ دریا کے دونوں اطراف کے بسنے والے اپنے اپنے علاقوں میں پانی کا استعمال کرتے رہے ہیں اور یہ صورتحال اب بھی ویسی ہی برقرار ہے۔ یاد رہے کہ اس علاقے میں دونوں ممالک کے درمیان خار دار تاروں کی باڑ موجود نہیں ہے۔
مغربی بنگال قانون ساز اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سبیندو ادھیکاری نے اس واقعے کی کی ویڈیو اپنے سوشل میڈیا پیج پر شیئر کی ہے۔ جس کے بعد خاردار تاروں کی باڑ لگانے کا کام کچھ دیر کے لئے روک دیا گیا۔ انڈین بارڈر سکیورٹی فورس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیشی بارڈر گارڈ کے افسران کو یہ اطلاع تھی کہ انڈین سرحد پر خاردار تاریں لگائی جا رہی ہیں۔ بی ایس ایف نے بنگلہ دیشی سکیورٹی حکام کو واضح کیا کہ خاردار تاریں لگانے کا کام دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدے کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے نیلوتپل پانڈے کے مطابق غلط فہمی دور ہونے کے بعد تار لگانے کا کام دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔
انڈیا میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما سبیندو ادھیکاری نے اس پورے معاملے کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ بنگلہ دیشی بارڈر گارڈ کے سپاہی سکھدیو پور گائوں کے لوگوں کے قوم پرست جذبات کی وجہ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے۔ اتنا ہی نہیں، انہوں نے اپنی پوسٹ میں یہ بھی لکھا کہ مقامی انڈین شہریوں نے بی ایس ایف کے ساتھ مل کر بنگلہ دیش بارڈر سکیورٹی فورس کو یہ باور کرایا کہ بنگلہ دیش بارڈر سکیورٹی فورس کی اس طرح کی کوششوں کو قومی سلامتی کے مفاد میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہ لوگوں میں پیدا ہونے والی بیداری کا نتیجہ ہے۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان بارڈر سکیورٹی فورس اور بنگلہ دیش رفیق الاسلام بنگلہ دیش کے انڈین سرحد بی ایس ایف کرتے ہوئے علاقے میں کے ساتھ کی سرحد کیا کہ کے بعد
پڑھیں:
پہلگام واقعہ کے بعد پاک بھارت کشیدگی ، لیکن اب آگے کیا ہوگا؟ سینئر صحافی نے سب کچھ واضح کردیا
اسلام آباد (ویب ڈیسک) پہلگام واقعے کے بعد پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہیں، ایک طرف تو بھارت کے فالس فلیگ آپریشن کے خلاف ملک کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں جس پر بھارتی فورسز نے کریک ڈائون بھی شروع کردیا تو دوسری طرف تابڑ توڑ بیانات و دعووں کا سلسلہ بھی جاری ہے ، اب اس صورتحال میں سینیئر صحافی سلیم صافی نے بھی اپنا تجزیہ پیش کیا ہے ۔
روزنامہ جنگ میں چھپنے والے اپنے کالم میں سلیم صافی نے لکھا کہ ’’ بھارت میں ابھی چند روز قبل وقف املاک کے حوالے سے ایک بل منظور کیا گیا جسے مسلمان اپنی املاک کو ہڑپ کرنے کا حربہ قرار دے رہے ہیں ۔
دریائے سندھ ہمارا ہے،مودی سن لے، اس میں ہمارا پانی بہے گا یا انکا خون، بلاول بھٹو
اس بل کی اپوزیشن جماعت کانگریس آئی نے بھی مخالفت کی لیکن مودی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اسکے تناظر میں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ ہندوستان کے اندر جذباتی مسلمان نوجوان بندوق اٹھانے پر مجبور ہوجائیں کیونکہ اس وقت ان کی رہنمائی کیلئےابوالکلام آزاد اور قائداعظم جیسے عدم تشدد پر یقین رکھنے والے لیڈر موجود نہیں ۔
جہاں تک مقبوضہ کشمیر کا تعلق ہے تو مودی نے اسے کشمیریوں کے لئے ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے، حریت کانفرنس کی زیادہ تر قیادت جیلوں میں ہے یا ہاؤس اریسٹ ہے، پاکستان کیساتھ ان کی ہر طرح کی کمیونیکیشن کو بند کر دیا گیا ہے، کچھ عرصہ قبل مودی نے مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرکے اسے جبری طور پر صوبہ بنا دیا لیکن اس کے ساتھ ایک پورا روڈ میپ بھی دیا گیا جس کی رو سے ہندوؤں کو لاکر وہاں بسایا جارہا ہے تاکہ مسلمان اقلیت میں تبدیل ہوجائیں ، مقبوضہ کشمیر میں اس نے سات لاکھ فوج تعینات کی ہے جو تقریبا ًپاکستان کی پوری فوج کے برابر ہے ۔
بھارت نے جیلوں میں قید پاکستانی ماہی گیر اور چرواہوں کے انکاؤنٹرکرنا شروع کردیئے : عطاء تارڑ
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان اور انڈیا ازلی دشمن ہیں اور ہر ایک سے دوسرے کے خلاف جو کچھ ہوسکتا ہے کرے گا لیکن تماشہ یہ ہے کہ ہندوستان ابھی تک پاکستانی مداخلت کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کر سکا لیکن پاکستان کے پاس دیگر متعدد شواہد کے ساتھ ساتھ کلبھوشن یادیو کی صورت میں ایک بین ثبوت موجود ہے ۔
انڈین انٹیلی جنس نے پاکستان میں اتنا اثرورسوخ بڑھا لیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی سپورٹ کے علاوہ اب انہوں نےپاکستان میں مختلف شخصیات کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ہے اور گزشتہ چند سال کے اندر پاکستان میں متعدد انڈیا مخالف جہادی شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا ، ہندوستان اس معاملے میں اتنا آگے بڑھا کہ اس نے کینیڈا جیسے ملک میں سکھ رہنما کو قتل کیا جس کی وجہ سے کینیڈا نے اپنے ملک سے اس کے سفیر کو بے دخل کیا لیکن سدھرنے کی بجائے نریندرمودی روز بروز پینترے بدل کر جارحیت کے نئے طریقے ایجاد کررہا ہے ۔
پاک ، بھارت کشیدگی : وزیر خارجہ کا سعودی و ایرانی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ
حالیہ پہلگام واقعے کو دیکھ لیجئے، سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس پر وہاں کے لاکھوں بہادر شہری کب تک خاموش رہیں گے ۔ جبر حد سے بڑھ جائے تو وہ غیرتمند اقوام کی موت کا خوف ختم کر دیتا ہے ۔ جس طرح کہ ہم فلسطین میں دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے جنگ شہادت کیلئے شروع کی ۔ روزانہ درجنوں لوگ شہید ہورہے ہیں لیکن مزاحمت سے باز نہیں آتے ۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمان دیکھ رہے ہیں کہ ایک طرف تو انکو غلام بنا دیا گیا ہے اور دوسری طرف باہر سے لوگوں کو لاکر ان کی زمینوں پر بسایا جارہا ہے ۔ اس تناظر میں وہ زیادہ دیر خاموش نہیں رہیں گے لیکن پہلگام کے واقعے کے بارے میں تو پاکستان کا موقف ہے بلکہ خود انڈیا کے اندر بہت سارے لوگوں کا مؤقف ہے کہ یہ فالس فلیگ آپریشن تھا ۔
کیا پاکستان آنے والے سکھ یاتریوں کو دیگر ممالک کے ویزے نہیں ملیں گے؟
اس کی ایک دلیل یہ دی جارہی ہے کہ وقف املاک بل سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ڈفیوز کرنا مقصود تھا ۔ دوسرا حملہ اس وقت کیا گیا جب امریکہ کے نائب صدر ہندوستان کے دورے پر تھے ۔ جب یہ واقعہ ہوا تو پاکستان نے اس کی مذمت کی (واضح رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے سے بڑے واقعات کی انڈیا مذمت نہیں کرتا) لیکن انڈین میڈیا اور بی جے پی نے فوراً بغیر کسی تحقیق کے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے حالانکہ اب مقبوضہ کشمیر کے باسی اور انڈیا کے بعض ذی شعور لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب عسکریت پسند پاکستان سے آرہے تھے تو مقبوضہ کشمیر میں تعینات سات لاکھ فوجی کہاں تھے ؟۔
پشین میں خفیہ معلومات پر سی ٹی ڈی کا آپریشن ، فائرنگ کے تبادلے میں 9 مبینہ حملہ آور ہلاک
حقیقت جو بھی ہے لیکن جنونی مودی کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا ۔ وہ دورہ سعودی عرب مختصر کرکے انڈیا پہنچے اور سیکورٹی کونسل کا اجلاس منعقد کرکے سارا ملبہ پاکستان پر ڈال دیا، پاکستانیوں کے ویزے کینسل کرنے کا اعلان کیا ۔ پاکستانی سفارتخانے کےاسٹاف میں کمی کردی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا، جس کا ورلڈبینک ثالث ہے اور انڈیا اسے یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ یہ ایشو پریس کانفرنس میں تو موجود تھا لیکن اعلامیہ میں نہیں،اگلے روز پاکستان نے بھی کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا اور اسی نوع کے اقدامات کے ذریعے انڈیا کو جواب دیا ، ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ پاکستان کے پاس بھی شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا آپشن موجود ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ انڈیا مزید کچھ کرے گا یا پھر انہی اقدامات پر اکتفا کرے گا؟ غالب رائے یہ ظاہر کی جارہی ہے کہ انہی پر اکتفا کرکے پاکستان کے اندر پراکسی وار کو تیز کرے گا، میزائل فائر کرنے کا امکان بھی کم ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ پاکستان بھی میزائل حملے کی صورت میں جواب دے گا اور ہمارے میزائل بھی غوری ، ابدالی اور غزنوی وغیرہ ہیں جنکے نام سن کر مودی جیسے لوگ خوفزدہ ہوجاتے ہیں تو پھر کیا انڈیاثاسٹرائک کرئیگا ۔ میرے نزدیک اس کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ ابھینندن کے منہ میں ابھی تک پاکستان ائیرفورس کی چائے کا ذائقہ موجود ہے اور اتنی جلدی انڈین پائلٹ دوبارہ پاکستان میں Fantastic چائے نہیں پینا چاہیں گے ۔
ہوسکتا ہے اب کی بار وہ پانی کے ذریعے ہمیں چھیڑنے کی کوشش کرے کیونکہ انہیں علم ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت ہے اور پہلے سے سندھ کے پانی کے حوالے سے صوبوں کا ایک تنازع موجود ہے ۔
یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نےفوری طور پر یہ اعلان کیاکہ سی سی آئی میں اتفاق کے بغیر چھ نہروں پر کام نہیں ہوگا لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ بھرپور سفارتکاری کرے، ڈار صاحب کچھ دنوں کیلئے وزارت خزانہ کو بھلا کر حقیقی معنوں میں وزیر خارجہ بن جائیں اور ورلڈبینک سے رجوع کے علاوہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر بھی ہندوستان کی آبی جارحیت کوبے نقاب کریں‘‘۔
مزید :