استنبول میں زہریلی شراب پینے سے تینتیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو کی ایک تازہ رپورٹ میں زہریلی شراب پینے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 33 بتائی گئی جبکہ بدھ تک اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد 23 بتائی جا رہی تھی۔
شبہ کیا جا رہا ہے کہ ان اموات کی وجہ نوش کی جانے والی شراب میں میتھانول کی ملاوٹ تھی جو صنعتی سطح پر تیار کی جانے والی الکوحل ہے اور اُس الکوحل سے کہیں مختلف ہوتی ہے، جو مشروبات میں موجود ہوتی ہے۔
عام نوش کی جانے والی شراب میں ایتھنول نامی کیمیائی الکوحل موجود ہوتی ہے۔بھارت میں زہریلی شراب پینے سے چون افراد ہلاک، سو سے زائد زیر علاج
استنبول شہر کے گورنر کے دفتر سے جمعرات کی شام کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ زہریلی الکوحل والی مشروبات فروخت کرنے کے شبے میں چار افراد کو ''جان بوجھ کر قتل کرنے‘‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یکم جنوری سے حکام نے استنبول میں 29 ٹن ملاوٹ شدہ شراب ضبط کی ہے جبکہ 64 کاروباری اداروں کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
پاکستان میں زہریلی شراب پینے سے کم از کم چوبیس افراد ہلاک
دوسری جانب شراب کے اسٹورز کے مالکان نے شراب پینے سے ہونے والی ان ہلاکتوں کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ شراب فروخت کرنے والے دکاندار حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ اُس کی طرف سے شراب پر زیادہ ٹیکس لگانے کی وجہ سے شراب فروشوں کی طرف سے گھر پر ہی شراب تیار کی جار ہی ہے۔
ترکی میں ملاوٹ شدہ الکوحل پینے سے شہریوں کے بیمار اور ہلاک ہونے کے واقعات عام ہیں۔حکام کے مطابق، 2024ء میں صرف استنبول میں اس طرح کی شراب نوشی سے کل 48 افراد ہلاک ہوئے۔
بہار، شراب پر پابندی کے باوجود زہریلی شراب پینے سے متعدد ہلاکتیں
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کے مخالفین کا ان پر الزام ہے کہ وہ معاشرے کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں۔ایردوآن متعدد بار کھلے عام شراب اور سگریٹ نوشی کی مخالفت کر چُکے ہیں۔
ک م/ ع ا(اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں زہریلی شراب پینے سے افراد ہلاک
پڑھیں:
تحقیقاتی ادارے کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونی والی کرپشن پر خاموش کیوں ہیں؟ نعیم الدین
نجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ انجمن امامیہ گلگت بلتستان کے مرکزی نائب صدر نعیم الدین سلیمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انسانی سماج میں حکومت اور اپوزیشن کا تصور ایک حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، اس لئے کہ وہ اقتدار میں ہوتی ہے، ایسے میں اپوزیشن اور عوام کو تنقید کا موقع نہ دینا حکومت کی کامیاب حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان میں منرلز کے معاملہ پر حکومت سے گلہ شکوہ ہونا فطری امر ہے اور حکومت کو ایسے مواقع میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لیکن پاکستان منرل انویسٹمنٹ فورم کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے واضح موقف سامنے نہ آنے کے نتیجہ میں عوام کی بے چینی بڑھ گئی، جس کا ازالہ کرنا بھی حکومت کے فرائض میں شامل تھا، جس کی کمی اب بھی محسوس کی جا رہی ہے اور آغا سید راحت حسین الحسینی جو کہ پورے گلگت بلتستان کے عوامی نمائندہ اور قائد ہیں نے جمعہ خطبے میں بھرپور عوامی ترجمانی کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جماعتی اور انفرادی حیثیت کے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی شخصیات اس کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ حکومتی مشنری بالخصوص میڈیا ایڈوائزر کی جانب سے بے چینی کے ازالہ کے بجائے مزید خلفشار پیدا کرنے کے بیان سے بے چینی جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ایک صوبائی معاون خصوصی کی جانب سے مذکورہ ایڈوائزر کے خلفشار کا بیان واپس لینے کے اعلان کو سمجھداری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مرکزی انجمن امامیہ کے جانب سے عوام الناس اور سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس بیان بازی کا سلسلہ کو روک دیا جائے۔ اہم ریاستی ادارے، اینٹی کرپشن اور FIA جیسے اداروں کو کارڈیک ہسپتال گلگت میں ہونے والی کرپشن کی تحقیقات پر مکمل خاموشی سوالیہ نشان ہے اور اسی ادارے میں میرٹ کے خلاف یکطرفہ طور پر ملازمین کی تقرری اقربا پروری میں سابقہ سیکریٹری صحت اور سابق وزیر صحت ملوث ہیں۔
اسی طرح کئی انکوائریاں سرد خانے کی نذر کی گئی ہیں۔ یہ وہ سوالیہ نشانات ہیں جن کا اظہار تو سیاسی مصلحت کاروں کی طرف سے خاموشی اور علماء کرام کی طرف سے نشاندہی پر آگ بگولہ ہونا ہے۔ تاہم اس کا جواب یہ مشیران اور وزاء سمیت پوری ریاست کو دینا پڑے گا۔ اگر آغا صاحب کی طرف لگایا گیا الزام درست نہیں تو اوپر بیان کئے گئے کریشن کی انکوائریاں کیوں پنڈنگ میں رکھی گئی ہیں۔ اس میں براہ راست سیکریٹری صحت اور سابقہ وزیر صحت کے ملوث ہونے کے شبہات کا جنم لینا اور اس پر حکومتی اور انتظامی خاموشی ان کے ملوث ہونے کی واضح دلیل ہے۔