کرم: امدادی قافلے پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 10
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2025ء) کرم میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زائد سے حالات کشیدہ ہیں اور علاقے میں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ وہاں کی آبادی ایک طرح سے محصور ہو کر رہ گئی۔ جمعرات کو انہی لاکھوں محصور شہریوں کے لیے خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان لے جانے والے 33 گاڑیاں پر حملہ کیا گیا تھا۔
کرم: تعاون نہ کرنے کی پاداش میں اشیائے ضرورت کی سپلائی بند
ایک مقامی پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں مرنے والوں کی تعداد اب دس تک پہنچ چکی ہے اور ہلاک شدگان میں دو سکیورٹی اہلکار، چار ڈرائیور اور چار شہری شامل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ پانچ سے چھ ڈرائیورز کو ایک مقامی گروپ نے اغوا کر لیا ہے۔(جاری ہے)
ضلع کرم حالیہ برسوں سے شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ جھڑپوں کی لپیٹ میں رہا ہے.
اس فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کے لیے جنگ بندی کی کئی ناکام کوششیں کی گئیں۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں کا استمعال کر رہے ہیں۔
قومی سطح پر سنی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان کے شورش زدہ شمال مغربی صوبے میں صوبے خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے۔ اسی وجہ سے کرم میں گزشتہ عشروں کے دوران بار بار فرقہ وارانہ تصادم دیکھنے میں آتا رہا ہے۔ وہاں بدامنی اور ہلاکتوں کی تازہ ترین لہر بھی اسی کشیدگی کا تسلسل ہے۔ ضلع کرم کا رابطہ فی الحال بیرونی دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
ایران میں عدالت پر حملہ: چھ افراد ہلاک، بیس زخمی
ایرانی صوبے سیستان-بلوچستان میں عدالت پر حملے میں چھ افراد ہلاک غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں، نیتن یاہو غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں، نیتن یاہواسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کی حکومت حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کے متبادل راستے تلاش کر رہی ہے۔
ان کا یہ بیان جمعے کے روز ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب اسرائیل اور امریکہ نے قطر میں جاری مذاکرات سے اپنے وفود واپس بلا لیے ہیں، جس کی وجہ سے مذاکرات کے مستقبل پر مزید غیر یقینی کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔حماس کا کہنا ہے کہ مذاکرات آئندہ ہفتے دوبارہ شروع ہونے کی توقع ہے اور اس نے اسرائیلی اور امریکی وفود کی واپسی کو محض دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی قرار دیا ہے۔
(جاری ہے)
مصر اور قطر، جو امریکہ کے ساتھ مل کر ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے بھی کہا ہے کہ یہ تعطل عارضی ہے اور مذاکرات دوبارہ ہوں گے تاہم اس کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کو قطر میں موجود امریکی وفد کے انخلا کے بعد کہا کہ حماس کے تازہ ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی میں سنجیدہ نہیں۔
ان کے بقول امریکہ اب ’’متبادل راستوں‘‘ پر غور کر رہا ہے، تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے بیان میں وٹکوف کی بات کو دہراتے ہوئے کہا، ’’حماس یرغمالیوں کی رہائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم اپنے امریکی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اب ایسے متبادل طریقے تلاش کر رہے ہیں، جن سے یرغمالیوں کو واپس لایا جا سکے، حماس کی دہشت گردی کا خاتمہ ہو، اور اسرائیل و خطے میں دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔
‘‘خطے کے ماہرین اس ڈیڈ لاک کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں، کیونکہ مذاکراتی عمل کے مکمل طور پر ختم کی صورت میں ایک نئی اور بڑی جنگ چھڑنے کا خدشہ ہے، جس کے اثرات اسرائیل، فلسطین کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا کہ آیا مذاکرات آئندہ ہفتے واقعی دوبارہ شروع ہوں گے یا نہیں۔
یہ تعطل ایسے وقت پر آیا ہے، جب غزہ میں انسانی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اسرائیلی محاصرے اور خوراک کی شدید قلت کے باعث علاقے کو قحط جیسے حالات کا سامنا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے یا تو خوراک مکمل طور پر بند ہے یا انتہائی محدود مقدار میں داخل ہونے دی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے مطابق یہ حکمت عملی حماس کو پہنچنے والی امداد کو روکنے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔رواں ماہ غذائی قلت کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے، جس سے عالمی اداروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اسرائیل سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے، مگر حالات بدستور ابتر ہو رہے ہیں۔
ایرانی صوبے سیستان-بلوچستان میں عدالت پر حملے میں چھ افراد ہلاک
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق جنوب مشرقی صوبے سیستان-بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد نے ہفتے کے روز ایک عدالت کی عمارت پر فائرنگ اور دستی بموں سے حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت چھ افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔
سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق سکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین حملہ آوروں کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔
ایرانی سکیورٹی اداروں کے قریب سمجھی جانے والی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کے پیچھے شدت پسند گروہ ’’جیش العدل‘‘ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
یہ گروہ ایران کے مشرقی علاقے سیستان اور پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلا رہا ہے۔سیستان بلوچستان افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں سے متصل ہے اور یہ خطہ طویل عرصے سے بدامنی، منشیات کی اسمگلنگ اور مسلح گروہوں کی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔ اکتوبر 2024 میں اسی صوبے میں ایرانی پولیس قافلے پر حملے میں کم از کم 10 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
یہ علاقہ ایران کے پسماندہ ترین حصوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں سنی مسلم آبادی اکثریت میں ہے، جبکہ ایران کی حکومت شیعہ مسلک پر مبنی ملائیت پر قائم ہے۔ اس فرقہ وارانہ تناؤ نے ماضی میں بھی کئی مواقع پر خونریز جھڑپوں کو جنم دیا ہے۔
پس منظر
جیش العدل ماضی میں بھی ایران کے سکیورٹی اداروں کو نشانہ بناتی رہی ہے اور اس پر الزام ہے کہ وہ بیرونی حمایت یافتہ ہے۔
ترقی کے فقدان اور سکیورٹی چیلنجز کے درمیان یہ حملہ ایران کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب خطے میں سیاسی اورسلامتی کے امور سے متعلق جاری کشیدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔