فیصلے میں جج نے بھی کہا کہ پراسیکیوشن اہم دستاویزات اور شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی
اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 جنوری2025ء) 190 ملین پاونڈ کیس کے دوران اہم دستاویزات اور شواہد پیش نہ کیے جانے کا انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و اینکر شہزاد اقبال نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے 190 ملین پاونڈ کیس کے فیصلے سے متعلق ردعمل دیتے ہوئے بتایا کہ ایسے کیسز میں پراسیکیوشن پر ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ شواہد اور دستاویزات عدالت میں پیش کرے۔
تاہم 190 ملین پاونڈ کیس کے فیصلے میں جج کی جانب سے بھی بتایا گیا کہ کیس کے ٹرائل کے دوران پراسیکیوشن اہم دستاویزات اور شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔ دوسری جانب 190 ملین پاونڈ کیس کے فیصلے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تفصیلی ردعمل دیا گیا ہے۔ عوام اور کارکنان کے نام پیغام میں عمران خان نے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے- میں اس آمریت کو کبھی تسلیم نہیں کروں گا اور اس آمریت کے خلاف جدوجہد میں مجھے جتنی دیر بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہنا پڑا میں رہوں گا لیکن اپنے اصولوں اور قوم کی حقیقی آزادی کی جدوجہد پر سمجھوتہ نہیں کروں گا- ہمارا عزم حقیقی آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ہے، جس کے حصول تک اور آخری گیند تک لڑتے رہیں گے- کوئی ڈیل نہیں کروں گا اور تمام جھوٹے کیسز کا سامنا کروں گا- میں ایک بار پھر قوم کو کہتا ہوں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھیں- پاکستان میں 1971 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے- یحیٰ خان نے بھی ملک کو تباہ کیا اور آج بھی ڈکٹیٹر اپنی آمریت بچانے کے لیے اور اپنی ذات کے فائدے کے لیے یہ سب کر رہا ہے اور ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے- آج القادر ٹرسٹ کے کالے فیصلے کے بعد عدلیہ نے اپنی ساکھ مزید تباہ کر دی ہے- جو جج آمریت کو سپورٹ کرتا ہے اور اشاروں پر چلتا ہے اسے نوازا جاتا ہے- جن ججز کے نام اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے بھیجے گئے ان کا واحد میرٹ میرے خلاف فیصلے دینا ہے- یہ کیس تو دراصل نواز شریف اور اس کے بیٹے کے خلاف ہونا چاہییے تھا جنہوں نے برطانیہ میں اپنی 9 ارب کی پراپرٹی ملک ریاض کو 18 ارب میں بیچی- سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ ان کے پاس 9 ارب کہاں سے آئے؟ پانامہ میں ان سے جو رسیدیں مانگی گئیں وہ آج تک نہیں دی گئیں۔(جاری ہے)
قاضی فائز عیسی کے ساتھ مل کر حدیبیہ پیپر ملز میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ معاف کروائی گئی۔ القادر یونیورسٹی شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی طرح ہی عوام کے لیے ایک مفت فلاحی ادارہ ہے جہاں طلبأ سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے- القادر یونیورسٹی سے مجھے یا بشرٰی بی بی کو ایک ٹکے کا بھی فائدہ نہیں ہوا اور حکومت کو ایک ٹکے کا بھی نقصان نہیں ہوا- القادر ٹرسٹ کی زمین بھی واپس لے لی گئی جس سے صرف غریب طلبأ کا نقصان ہو گا جو سیرت النبی ﷺ کے بارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے- القادر ٹرسٹ کا ایسا فیصلہ ہے جس کا پہلے ہی سب کو پتہ تھا- چاہے فیصلے کی تاخیر ہو یا سزا کی بات سب پہلے ہی میڈیا پر آ جاتا ہے- عدالتی تاریخ میں ایسا مذاق کبھی نہیں دیکھا گیا- جس نے فیصلہ جج کو لکھ کر بھیجا ہے اسی نے میڈیا کو بھی لیک کیا- میری اہلیہ ایک گھریلو خاتون ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے- بشرٰی بی بی کو صرف اس لیے سزا دی گئی تاکہ مجھے تکلیف پہنچا کر مجھ پر دباؤ ڈالا جائے- ان پر پہلے بھی گھٹیا کیسز بنائے گئے- لیکن بشرٰی بی بی نے ہمیشہ اسے اللہ کا امتحان سمجھ کر مقابلہ کیا ہے اور وہ میرے کاز کے ساتھ کھڑی رہی ہیں- مذاکرات میں اگر 9 مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوتی تو وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں- بددیانت لوگ کبھی نیوٹرل ایمپائرز کو نہیں آنے دیتے- حکومت جوڈیشل کمیشن کے مطالبے سے اسی لیے راہ فرار اختیار کر رہی ہے کیونکہ وہ بد دیانت ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملین پاونڈ کیس کے کروں گا کے لیے
پڑھیں:
منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
منی پور میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف احتجاج نہیں،حقِ خود ارادیت کی وہ صدا ہے جو دہلی کی در ودیوار کو لرزہ بر اندام، کئے ہوئے ہے۔منی پور کے عوام، اپنی شناخت، اپنی زمین اور اپنے فیصلے واپس مانگ رہے ہیں۔منی پور میں آج پھر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند ہے، سچ پر پہرا ہے۔لیکن آزادی کی طلب وہ شعلہ ہے جو نہ گولی سے بجھتی ہے نہ پابندی سے۔آزادی کی تحریک’’ارمبائی ٹینگول‘‘ کے رہنما کنن سنگھ کی گرفتاری نے عوامی غصے کو ایک بار پھر ہوا دی ہے۔ سڑکیں مظاہرین سے بھر گئیں ،، فوج سے جھڑپیں ہوئیں، اور آواز بلند کی گئی کہ ’’ہم غلام نہیں،منی پور بھارت نہیں ‘‘ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ منی پور کے نوجوان اپنے گھروں سے نکل کر فوج کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، دہائیوں کے نسلی امتیاز، مذہبی جبر اور ثقافتی یلغار کے خلاف بغاوت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا منی پور بھارت کا حصہ ہے؟یا صرف نقشے پرصرف ایک لکیر ؟کیا وہاں کے لوگوں کی رائے، ثقافت، مذہب اور خود مختاری کوئی معنی نہیں رکھتی؟یہی سوال آج ہر منی پوری نوجوان کے دل میں آتش حریت کو بھڑکارہے ہیں ۔
منی پور کی چیخ آج آسمانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ یہ کوئی معمولی شور نہیں، یہ آزادی کی وہ پکار ہے جو دہلی کے تخت کو للکارتی ہے، بھارت کی بنیادیں ہلاتی ہے۔ منی پورکی یہ آگ محض عمارتوں یا سڑکوں کی نہیں، یہ دلوں کی آگ ہے، غیرت کا شعلہ ہے، جو دہائیوں کے ظلم، جبر اور استحصال سے بھڑک اٹھا ہے۔ سڑکوں پر کرفیو ہے، انٹرنیٹ بند، سچ پر پہرے ہیں، لیکن آزادی کی خواہش کو کون قید کر سکتا ہے؟ یہ وہ نغمہ ہے جو گولیوں سے خاموش نہیں ہوتا، فوج کے بوٹوں سے کچلا نہیں جاسکتا۔ منی پور کے نوجوان، وہ نازک ہاتھ جو کل تک قلم تھامے خواب بنتے تھے، آج پتھر اٹھائے، فوج کے سامنے سینہ تانے کھڑے ہیں۔ یہ لڑائی زمین کی نہیں، یہ جنگ شناخت کی ہے، عزت کی ہے، اپنے وجود کی ہے۔ منی پور کی یہ آواز تنہا نہیں، یہ کشمیر کی چیخ ہے، خالصتان کی آہ ہے، بھارت کی ہر مظلوم قوم کا نعرہ ہے۔جب آرام بائی ٹینگول کے رہنما کنن سنگھ کو گرفتار کیا گیا، تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ یہ ایک چنگاری تھی جو منی پور کے زخمی دل پر گری اور اسے آتش فشاں بنا دیا۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، انہوں نے ٹائر جلائے، راستے بند کیے، اور اپنے سینوں میں دہکتی آگ کو دنیا کے سامنے رکھ دیا۔ فوج سے جھڑپیں ہوئیں، کچھ نے خودسوزی کی کوشش بھی کی، منی پور میں آزادی کا نعرہ کوئی رات ں رات نہیں گونجا۔ یہ دہائیوں کا درد ہے، جب دہلی نے منی پور کے میتی،کوکی اور دیگر قبائل کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی، ان کی زمین چھینی، ان کی ثقافت کو مسخ کیا ، مذہب کا استحصال کیا ، ہر لمحہ ثابت کیا کہ منی پور کے شہری بھارت کے نقشے پر محض ایک دھبہ ہیں؟ان کی آواز، ان کا درد، ان کی خواہشات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ یہ سوال جو آج منی پور کی نوجوان نسل کو جوالامکھی بنائے ہوئے ہے، پون صدی سے جاری کشمیریوں کے نعرہ مستانہ کی صدائے بازگشت ہے، خالصتان کے جے کاروں، آزادی کے نعروں کی گونج ہے، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ یہ آتش حریت اب بجھنے والی نہیں،ہر اس قومکے دل کی آواز ہے،جو بھارتی جبر کا شکار ہے ، یہ آگ بھارت نام کی ریاست کو بھسم کئے بغیربجھنے والی نہیں۔ منی پور کا ہر نوجوان آج ایک سپاہی ہے، جو بھارت کے جھوٹے وعدوں ،ہندوتوا کی زہریلی چالوں، اور مکروہ بھارتی فوجی جبر کے خلاف لڑ رہا ہے۔
نریندر مودی، بھارت کا وہ وزیراعظم جس نے ہندوتوا کا پرچم بلند کیا اور آج اسی آگ میں خود جل رہا ہے۔ اس کی پالیسیوں نے منی پور کو نہیں، پورے بھارت کو ایک بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے۔ منی پور میں میتی اور کوکی قبائل کے درمیان نسلی کشیدگی کو مودی نے نہ صرف نظر انداز کیا، بلکہ اسے اپنی سیاسی چالوں کا حصہ بنایا۔ کشمیر میں دہائیوں سے جاری ظلم کو اس نے مزید گہرا کیا۔ خالصتان کی آواز، جو کبھی دب سی گئی تھی، آج پھر بلند ہو رہی ہے۔ مودی کا گودی میڈیا، جو سچ کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، منی پور کے درد کو دبا نہیں سکا۔ سوشل میڈیا نے وہ کام کیا جو بھارتی میڈیا نہ کر سکا۔ منی پور کی چیخ آج دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے۔ ایک ایکس پوسٹ چیختی ہے: ’’منی پور میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر ہیں، قبائلی جنگجو آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ یہ آواز بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ منی پور کی یہ لڑائی کوئی چھوٹا موٹا احتجاج نہیں، بھارت کی تباہی کے لئے اٹھا ہوا تیسرا قدم ، پہلا کشمیر ، دوسرا خالصتان اور تیسرا اب منی پور۔ اگر دہلی نے اسے زبردستی دبانے کی کوشش کی، تو یہ آگ دیگر ریاستوں تک پھیلے گی، بھارت کی جعلی وحدت کی لکیرمٹ رہی ہے ، سے بنی ہے، اب ٹوٹ رہی ہے۔ منی پور کا ہر پتھر، ہر نعرہ، ہر چیخ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ بھارت کی بنیادیں ہل رہی ہیں۔ یہ جنگ بندوقوں سے نہیں جیتی جا سکتی۔ منی پور کے لوگ زمین نہیں، اپنی غیرت، اپنی شناخت مانگ رہے ہیں۔ اور جب کوئی قوم اپنی شناخت کے لیے اٹھتی ہے، تو اسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
مودی کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے؟ اس نے پاکستان کا کام آسان کر دیا، اسے بھارت میں آزادی کی تحریکوں کو ہوا دینے کے لیے بجٹ خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مودی نے اپنی جارحانہ پالیسیوں اور پاکستان دشمنی کے بیانیے سے، پاکستانی قوم کو متحد کر دیا۔ اس نے پاکستانیوں کے دلوں سے ہر دشمن کا خوف نکال دیا۔ آج پاکستان ایک نئی توانائی کے ساتھ اپنے مقاصد کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ بھارت کے اندر ایسی آگ بھڑکائی کہ اب وہ خود ہی نہیں بلکہ کوئی بھی اسے بجھا نہیں سکتا۔ منی پور کی سڑکوں پر لہو بہہ رہا ہے، کشمیر کی وادیوں میں چیخیں گونج رہی ہیں، خالصتان کا پرچم ایک بار پھر بلند ہو رہا ہے،نکسل گوریلے پھر دہلی کے درودیوار ہلانے کو تیار ہیں ، یہ سب مودی کی دین ہے ۔ پاکستان کومودی کا شکر گزار ہونا چاہئے ، تھینک یو مودی ۔ لگے رہو ، ہمیں یقین ہے کہ تم برسوں کا کام مہینوں میں کرنے کی صلاحیت ، یقین ہے کہ تمہارے اسی دور اقتدار میں بھارت ماتا کی گائے نہ صرف ذبح ہوگی بلکہ حصے تقسیم ہوں گے،ہندوتوا کے چیتھڑے اڑیں گے اور یہ خونی ریاست بہت جلددنیا کے نقشے سے تاریخ کی کتابوں میں منتقل ہوجائے گی ۔شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لاکھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ تو نے پاکستان کو متحد کیا، اسے ایک نئی روح دی۔ تو نے بھارت کے اندر وہ آگ لگائی جو اب تیری اپنی سلطنت کو جلا رہی ہے۔ اگر تیری یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ تیرے ہی دور میں کشمیر آزاد ہوگا، خالصتان بنے گا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر ریاستیں بھی اپنی زنجیریں توڑ دیں گی۔ شکریہ مودی! تو نے بھارت کو اس موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں سے اس کا زوال ناگزیر ہے، تو نے وہ آگ لگائی جو اب شیطانی سلطنت کو جلا رہی ہے،یہی پالیسیاں جاری رہیں، تو انشاءاللہ کشمیر کی زنجیریں ٹوٹیں گی، خالصتان کا پرچم بلند ہوگا، منی پور اپنی شناخت واپس لے گا۔ بھارت کی دیگر مظلوم قومیں بھی اپنی غلامی کی بیڑیاں توڑ دیں گی۔