جانوروں پر ظلم کرنے والوں کیلئے سخت سزا ہونا ضروری ہے: جسٹس عائشہ اے ملک
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک—فائل فوٹو
سپریم کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کا کہنا ہے کہ جانوروں پر ظلم کرنے والوں کے لیے سخت سزا ہونا ضروری ہے۔
لاہور میں جانوروں کے حقوق اور ماحولیات پر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں جانوروں کی بہبود اور حقوق پر مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک کا کہنا ہے کہ ضرورت ہے کہ جانوروں کے حقوق پورے کیے جائیں، تنظیمیں اس کے لیے اچھا کام کر رہی ہیں، اس پر مزید کام ہونا چاہیے، جانوروں اور انسانوں کا تعلق قدرت نے بنایا ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کی پہلی خاتون جج جسٹس عائشہ اے ملک کو برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی 2022ء کی100 بااثر خواتین کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح انسانوں کو بنیادی حقوق چاہئیں، اسی طرح جانوروں کو بھی چاہئیں، جانوروں کے کھانے اور پینے کا انتظام ہونا چاہیے، آوارہ کتوں کو مارنے کے کیس پر بہت غور و فکر کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کی جج کا کہنا ہے کہ ٹولنٹن مارکیٹ میں جانوروں کی صورتِ حال پر تشویش ہے، کیس کے دوران کسی کو نہیں پتہ تھا کہ کس قانون کے تحت کتوں کو مارا جاتا ہے، جہاں انسانی جانوں کے حقوق مقدم ہیں، وہیں جانوروں کے حقوق کی بھی ذمے داری بنتی ہے۔
جسٹس عائشہ اے ملک نے مزید کہا کہ لائیو اسٹاک کا مقصد ہی ان کے حقوق کا تحفظ ہے، ہمیں صحیح معنوں میں ایک ویلفیئر اسٹیٹ بننا ہو گا، ویلفیئر خواہ کسی طبقے کے لیے ہو، اس کے لیے مؤثر قانون سازی ناگزیر ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جانوروں کے حقوق کے لیے ایسی کانفرنسز کا انعقاد خوش آئند ہے، اس سے معاشرے میں مثبت پیغام جاتا ہے، لائیو اسٹاک ہماری زندگیوں کا اہم جزو ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جانوروں کے حقوق کہنا ہے کہ کے لیے
پڑھیں:
بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے بیوہ عورتوں کے حقوق سے متعلق تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کیا بیوہ کو دی گئی امدادی ملازمت اس کے دوبارہ نکاح کے بعد ختم کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس عدالت میں اس سے ملتا جلتا معاملہ زاہدہ پروین کیس میں زیرِ بحث آیا تھا جس پر عدالت نے شادی شدہ بیٹیوں کیخلاف اقدامات کو غیرآئینی قرار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: والد کی جگہ بیٹی نوکری کے لیے اہل قرار، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا دیا
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں، بیوہ کو اس کی دوبارہ شادی کی بنیاد پر ملازمت سے نکالنا صریحاً صنفی امتیاز ہے، بیوہ کی شناخت اس کے شوہر سے نہیں جڑی ہونی چاہیے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مالی خودمختاری عورتوں کی آئینی شناخت کا بنیادی جزو ہے، جس مرد کی اہلیہ کا انتقال ہوا ہو اس کی دوسری شادی پر آفس میمورینڈم لاگو نہیں ہوتا، بیوہ عورت کو دوسری شادی پر آفس میمورینڈم کے ذریعے نوکری سے برخاست کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ ایسی پالیسیز عورتوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہیں، ایسے اقدامات بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کے بھی خلاف ہیں، بیوگی کو کسی عورت کی محرومی یا کم حیثیتی کی علامت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بیوہ بھی دوسرے شہریوں کی طرح برابر کی عزت و حقوق کی حقدار ہے۔
یہ بھی پڑھیے: شادی شدہ بیٹیوں کو مرحوم والد کے کوٹے پر ملازمت نہ دینا غیر قانونی اور امتیازی سلوک ہے، سپریم کورٹ
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم ورٹ کے جنرل پوسٹ آفس فیصلے میں وزیراعظم کا امدادی پیکیج غیرآئینی قرار دیا گیا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق موجودہ مقدمے پر لاگو نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مستقبل کے لیے تھا، سابقہ تقرریاں متاثر نہیں ہوتیں۔
سپریم کورٹ نے چیف کمشنر، ریجنل ٹیکس آفیسر بہاولپور کی اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں مداخلت کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیوہ خواتین خواتین کے حقوق سپریم کورٹ فیصلہ ملازمت