خورشید ندیم اور دنیاوی کامیابی کا ہیضہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
مسلمانوں کے لیے دنیا اور آخرت کا باہمی تعلق یہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت دارالجزا۔ دنیا عمل کے لیے ہے اور آخرت عمل کی جزا کے لیے۔ چنانچہ اصل کامیابی دنیا کی نہیں آخرت کی ہے۔ کروڑوں انسان ہوں گے جو دنیا میں کامیاب ہوں گے مگر آخرت میں ان کا شمار ناکام ترین لوگوں میں ہوگا۔ کروڑوں انسان ہوں گے جو دنیا میں بظاہر ناکام ہوں گے مگر آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں دنیا پرستی عام ہے چنانچہ جسے دیکھیے دنیا کی کامیابی کے ہیضے میں مبتلا ہے۔ معروف کالم نویس اور دانش ور خورشید ندیم چونکہ غامدیانہ فکر کے ترجمان ہیں اس لیے دنیاوی کامیابی کا ہیضہ ان کو زیادہ گرفت میں لیے ہوئے ہے لیکن خورشید ندیم کا مسئلہ صرف دنیاوی کامیابی کے ہیضے کا نہیں۔ وہ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے غلبے سے مرعوب ہیں اور انہیں اسلامی تحریکوں کا کیا اسلام کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے۔ انہوں نے انہی حوالوں سے اپنے ایک حالیہ کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل رہا ہے۔ مزاحمت کی تمام علامتیں ختم ہو رہی ہیں۔ حماس اور حزب اللہ‘ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پی ایل او اور القاعدہ کی طرح ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔ ایران کا مزاحمتی کردار علامتی رہ گیا ہے۔ روس اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکا۔ مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ زیر ِ غور ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے حسب ِ منشا اس کے خدوخال تراشنے کا کام شروع ہو چکا۔
یہ سب نوشتہ ٔ دیوار تھا۔ مشرقِ وسطیٰ سے کوسوں دور بیٹھا یہ لکھاری بھی اسے پڑھ رہا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس ’دیوار‘ کے پاس بیٹھنے والوں کی نظروں سے یہ تحریر اوجھل رہی۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت بھی اسے پڑھ نہ سکی۔ میرا خیال ہے کہ عرب قیادت نے اِسے پڑھ لیا تھا۔ اس نے اس تحریر سے مطابقت رکھتے ہوئے‘ اپنی حکمت ِ عملی بنائی۔ اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے بیک وقت دو نقشے سامنے آرہے تھے۔ ایک طرف سعودی عرب، امارات اور قطر میں بلند وبالا عمارتیں آسمان کو چھو نے لگی تھیں۔ ’ورچوئل شہر‘ بسانے کے منصوبے بن رہے تھے۔ فٹ بال کے عالمی میلے کی میزبانی کی جا رہی تھی۔ دبئی عالمی تجارت کا مرکز بن رہا تھا۔ شارجہ میں عالمی کتاب میلے سج رہے تھے۔ دوسری طرف جنگ کا منظر تھا۔ اسرائیل اور ایران میں کشمکش تھی۔ میزائل کا شور اور بارود کی بْو تھی۔ شام میں خانہ جنگی تھی۔ حزب اللہ کا اعلانِ جہاد تھا۔ یمن میں باضابطہ لڑائی ہو رہی تھی۔ حماس اور داعش کا غلغلہ تھا۔ انتقام کی باتیں تھیں۔
ترکیہ بھی اس منظرنامے کا حصہ ہے لیکن وہ کسی جنگ میں نہیں اْلجھنا چاہتا۔ اس کی پہلی ترجیح داخلی استحکام ہے۔ اس کے ساتھ وہ امت ِ مسلمہ کا حصہ ہونے کا بھرم بھی رکھنا چاہتا ہے۔ اس بھرم کو قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کے خلاف نعرہ بازی جاری ہے۔ دوسری طرف اس کی وحشت و درندگی کے باوجود اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور شام کے مستقبل کے حوالے سے امریکا کے ساتھ مل کر ’سفارت کاری‘ کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ترکیہ کا نقطۂ نظر بھی وہی ہے جو عربوں کا ہے۔ (روزنامہ دنیا، 11 جنوری 2025ء)
خورشید ندیم نے مذکورہ سطور میں کہیں مغرب اور اس کے اتحادیوں کے غلبے کا ذکر نہیں کیا مگر یہ ذکر ان کے تجزیے میں پس منظر کے طور پر موجود ہے۔ چنانچہ خورشید ندیم کا خیال یہ ہے کہ ہوتا تو وہی ہے جو مغرب اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں۔ پی ایل او اور القاعدہ مٹ گئیں تو حماس بھی فنا ہوجائے گی اور اسرائیل ہی غالب رہے گا۔ یہاں تک کہ گریٹر اسرائیل آج نہیں تو کل ایک حقیقت بن کر سامنے آجائے گا اور اس طرح مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ اُبھر کر سامنے آئے گا۔ لیکن جو بات غامدیانہ فکر کے زیر اثر خورشید ندیم کو معلوم نہیں وہ یہ ہے کہ مسئلہ مسلمانوں کے مستقبل کا نہیں ہے۔ اسلام کے مستقبل کا ہے اور اسلام کا مستقبل شاندار ہے۔ چنانچہ اگر مسلمان اسلام سے چمٹے رہیں گے تو ان کا مستقبل بھی شاندار ہوگا۔ صفی لکھنوی کا شعر ہے۔
اس دین کی فطرت کو قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
اور اقبال بھی کہہ گئے ہیں۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
مسلمانوں کی تاریخ ان اشعار کی درستی پر گواہ ہے۔ برصغیر میں مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی ایجاد کرکے اسلام کو پس منظر میں دھکیل دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی اگلی نسل میں داراشکوہ پیدا ہوگیا جو کہا کرتا تھا کہ معاذ اللہ ہندوئوں کی مقدس کتاب گیتا قرآن سے بہتر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میں اسلام کا مستقبل مخدوش ہوچکا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سربلندی کے لیے مجدد الف ثانی کو پیدا فرمایا۔ انہوں نے جہانگیر کے خلاف علم جہاد بلند کردیا اور بالآخر جہانگیر کو مجدد الف ثانی کے آگے سر جھکانا اور دربار میں اسلام کو سربلند کرنا پڑا۔ اس کشمکش میں داراشکوہ کو بھی شکست ہوئی اور شریعت کے غلبے کے علمبردار اورنگ زیب عالمگیر کو غلبہ حاصل ہوا اور اس نے 50 سال تک علما کی مدد سے برصغیر میں اسلام کی بالادستی کی جدوجہد کی۔ یہ بات بھی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ہے کہ شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر سے قرآن و حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا مگر شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے اس علم کو ازسر نو زندہ کیا۔ چنانچہ آج برصغیر میں قرآن کی تفسیر اور حدیث کا علم زندہ ہے تو شاہ ولی اللہ کی وجہ سے۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں مغرب کی غلامی کے زیر اثر پوری امت مسلمہ یہ بات بھول گئی تھی کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو پوری امت کے شعور کا حصہ بنانے کے لیے برصغیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو کارِ تجدید کے لیے پیدا کیا اور آج مولانا کے زیر اثر پوری امت اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کی قائل ہے۔
خورشید ندیم کو شاید معلوم ہو کہ 1095ء میں اس وقت کے پوپ اربن دوم نے چرچ میں کھڑے ہو کر کہا اسلام ایک شیطانی مذہب اور مسلمان ایک شیطانی مذہب کے پیروکار ہیں۔ اس نے ساری عیسائی دنیا سے کہا کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا سے شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو مٹادیں۔ پوپ کی تقریر کا اثر یہ ہوا کہ 1099ء میں عیسائی اقوام ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور انہوں نے ان صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے پہلے مرحلے میں عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے مسلمانوں کا اس بڑے پیمانے پر قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیوں میں اتنا خون جمع ہوگیا کہ گھوڑوں کا چلانا دشوار ہوگیا۔ اس وقت صلاح الدین ایوبی پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان ایک صدی سے پہلے دوبارہ بیت المقدس کو فتح کرلیں گے۔ صلاح الدین ایوبی 1137 میں پیدا ہوا اور اس نے 1187 میں عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لے لیا۔
اس سلسلے میں بیسویں صدی کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ برصغیر پر وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ کا قبضہ تھا۔ برصغیر میں مسلمان ایک اقلیت تھے۔ انگریز اور ہندو اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن تھے مگر برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ایک علٰیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا اور پاکستان کے نام سے اس الگ مملکت کو بہت جلد حاصل کرلیا۔ یہ کل کی بات ہے کہ وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک سپر پاور روس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ روس کی تاریخ یہ تھی کہ وہ جہاں جاتا تھا وہاں سے واپس نہیں آتا تھا مگر صرف دس سال میں روس کو اسلام کے تصور جہاد نے شکست دے دی اور روس بکھر کر رہ گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا افغانستان میں آیا تو سب نے کہا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا مگر 20 سال میں امریکا بھی افغانستان میں شکست کھا گیا۔
جہاں تک کامیابی کے ہیضے کا تعلق ہے تو مسلمانوں کا اصل مسئلہ دنیاوی کامیابی نہیں، مسلمانوں کا اصل مسئلہ شہادت حق کا فرض ادا کرنا ہے۔ اس لیے کہ نتیجہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ نتیجہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انبیا و مرسلین کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
سیدنا ابراہیمؑ صرف ایک فرد تھے۔ ان کے پاس نہ کوئی ریاست تھی نہ فوج۔ مال و دولت تھی نہ کوئی قوم یا منظم جماعت، اس کے باوجود انہیں حکم ہوا کہ نمرود کو چیلنج کریں۔ سیدنا ابراہیمؑ نے اس حکم کے جواب میں خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے نمرود کے مقابلے کی قوت عطا فرما پھر میں نمرود کو چیلنج کروں گا۔ سیدنا نوحؑ 900 سال تک تبلیغ کرتے رہے اور ایک روایت کے مطابق اتنی طویل مدت میں چند افراد مسلمان ہوئے۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی ریاست اور فوج نہیں تھی مگر انہیں حکم ہوا ہ فرعون کو چیلنج کریں اور انہوں نے فرعون کو چیلنج کیا۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ دنیاوی معیارات کے حوالے سے کفار اور مشرکین کے مقابلے پر رسول اکرمؐ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ غزوہ بدر میں 313 مسلمان ایک ہزار کے لشکر جرار کے مقابل تھے اور اگر اللہ فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد نہ فرماتا تو رسول اکرمؐ کی ’’کامیابی‘‘ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حماس نے اسلام کی روح کے عین مطابق اسرائیل کی طاقت کے خلاف ’’شہادتِ حق‘‘ کا فرض ادا کردیا ہے۔ اور وہ بھی اس جلال وجمال کے ساتھ کہ اسرائیل اپنی ساری طاقت اور امریکا و یورپ کی پشت پناہی کے باوجود ایک سال تک حماس کو سرنگوں نہیں کرسکا۔ یہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور امریکا کے خلاف برسرپیکار طالبان کے معجزے سے زیادہ بڑا معجزہ ہے۔ اس لیے کہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو پوری مغربی اور اسلامی دنیا کی حمایت حاصل تھی اور طالبان کے لیے پاکستان سب سے بڑی پناہ گاہ تھا۔ مگر حماس نے تن تنہا ایک سال تک اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے۔
مستقبل کا حال خدا کو معلوم ہے یا مخبر صادق رسول اکرمؐ کو۔ خدا نے قرآن میں صاف کہا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ اور رسول اکرمؐ کی یہ حدیث شاید خورشید ندیم کے مطالعے میں نہیں آئی کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک کہ اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور دورہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مسلم دنیا مدتوں سے کاٹ کھانے والی آمریت کا تجربہ کررہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں بہت جلد خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا دور شروع ہوسکتا ہے۔ انبیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کی معجزوں کے ذریعے مدد کی ہے۔ اس وقت مسلمان طاقت کے ہولناک عدم توازن کا شکار ہیں چنانچہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا دور شروع ہوگا تو ’’آسمانی مداخلت‘‘ یا Divine Intervention مسلمانوں کے ساتھ ہوگی اور اتنے بڑے بڑے معجزات ہوں گے کہ مغرب کی ساری مادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی ان کے آگے بچوں کا کھیل نظر آئے گی اور چند برسوں میں پوری دنیا مسلمان ہوجائے گی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسلمانوں کے رہے گا جب تک اسرائیل کے اللہ تعالی مسلمان ایک بیت المقدس کا مستقبل رسول اکرم اور اس کے اس کے بعد ہوگی اور اسلام کے کی تاریخ انہوں نے کو چیلنج یہ ہے کہ ہے اور ا کے ساتھ کے خلاف بھی اس کا حصہ نہیں ا سال تک اس لیے گی اور کے لیے ہوں گے اور ان یہ بات
پڑھیں:
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔
حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔
جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔
یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔
اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔
یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔
لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔
دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔
تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔
مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم