Jasarat News:
2025-11-05@04:36:11 GMT

خورشید ندیم اور دنیاوی کامیابی کا ہیضہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

خورشید ندیم اور دنیاوی کامیابی کا ہیضہ

مسلمانوں کے لیے دنیا اور آخرت کا باہمی تعلق یہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے اور آخرت دارالجزا۔ دنیا عمل کے لیے ہے اور آخرت عمل کی جزا کے لیے۔ چنانچہ اصل کامیابی دنیا کی نہیں آخرت کی ہے۔ کروڑوں انسان ہوں گے جو دنیا میں کامیاب ہوں گے مگر آخرت میں ان کا شمار ناکام ترین لوگوں میں ہوگا۔ کروڑوں انسان ہوں گے جو دنیا میں بظاہر ناکام ہوں گے مگر آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں میں دنیا پرستی عام ہے چنانچہ جسے دیکھیے دنیا کی کامیابی کے ہیضے میں مبتلا ہے۔ معروف کالم نویس اور دانش ور خورشید ندیم چونکہ غامدیانہ فکر کے ترجمان ہیں اس لیے دنیاوی کامیابی کا ہیضہ ان کو زیادہ گرفت میں لیے ہوئے ہے لیکن خورشید ندیم کا مسئلہ صرف دنیاوی کامیابی کے ہیضے کا نہیں۔ وہ مغرب اور اس کے اتحادیوں کے غلبے سے مرعوب ہیں اور انہیں اسلامی تحریکوں کا کیا اسلام کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے۔ انہوں نے انہی حوالوں سے اپنے ایک حالیہ کالم میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔

’’مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدل رہا ہے۔ مزاحمت کی تمام علامتیں ختم ہو رہی ہیں۔ حماس اور حزب اللہ‘ دکھائی یہ دیتا ہے کہ پی ایل او اور القاعدہ کی طرح ماضی کا قصہ بن جائیں گی۔ ایران کا مزاحمتی کردار علامتی رہ گیا ہے۔ روس اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ کھو چکا۔ مشرقِ وسطیٰ کا نیا نقشہ زیر ِ غور ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے حسب ِ منشا اس کے خدوخال تراشنے کا کام شروع ہو چکا۔

یہ سب نوشتہ ٔ دیوار تھا۔ مشرقِ وسطیٰ سے کوسوں دور بیٹھا یہ لکھاری بھی اسے پڑھ رہا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس ’دیوار‘ کے پاس بیٹھنے والوں کی نظروں سے یہ تحریر اوجھل رہی۔ اسلامی تحریکوں کی قیادت بھی اسے پڑھ نہ سکی۔ میرا خیال ہے کہ عرب قیادت نے اِسے پڑھ لیا تھا۔ اس نے اس تحریر سے مطابقت رکھتے ہوئے‘ اپنی حکمت ِ عملی بنائی۔ اس کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ کے بیک وقت دو نقشے سامنے آرہے تھے۔ ایک طرف سعودی عرب، امارات اور قطر میں بلند وبالا عمارتیں آسمان کو چھو نے لگی تھیں۔ ’ورچوئل شہر‘ بسانے کے منصوبے بن رہے تھے۔ فٹ بال کے عالمی میلے کی میزبانی کی جا رہی تھی۔ دبئی عالمی تجارت کا مرکز بن رہا تھا۔ شارجہ میں عالمی کتاب میلے سج رہے تھے۔ دوسری طرف جنگ کا منظر تھا۔ اسرائیل اور ایران میں کشمکش تھی۔ میزائل کا شور اور بارود کی بْو تھی۔ شام میں خانہ جنگی تھی۔ حزب اللہ کا اعلانِ جہاد تھا۔ یمن میں باضابطہ لڑائی ہو رہی تھی۔ حماس اور داعش کا غلغلہ تھا۔ انتقام کی باتیں تھیں۔

ترکیہ بھی اس منظرنامے کا حصہ ہے لیکن وہ کسی جنگ میں نہیں اْلجھنا چاہتا۔ اس کی پہلی ترجیح داخلی استحکام ہے۔ اس کے ساتھ وہ امت ِ مسلمہ کا حصہ ہونے کا بھرم بھی رکھنا چاہتا ہے۔ اس بھرم کو قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کے خلاف نعرہ بازی جاری ہے۔ دوسری طرف اس کی وحشت و درندگی کے باوجود اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں اور شام کے مستقبل کے حوالے سے امریکا کے ساتھ مل کر ’سفارت کاری‘ کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ ترکیہ کا نقطۂ نظر بھی وہی ہے جو عربوں کا ہے۔ (روزنامہ دنیا، 11 جنوری 2025ء)

خورشید ندیم نے مذکورہ سطور میں کہیں مغرب اور اس کے اتحادیوں کے غلبے کا ذکر نہیں کیا مگر یہ ذکر ان کے تجزیے میں پس منظر کے طور پر موجود ہے۔ چنانچہ خورشید ندیم کا خیال یہ ہے کہ ہوتا تو وہی ہے جو مغرب اور اس کے اتحادی چاہتے ہیں۔ پی ایل او اور القاعدہ مٹ گئیں تو حماس بھی فنا ہوجائے گی اور اسرائیل ہی غالب رہے گا۔ یہاں تک کہ گریٹر اسرائیل آج نہیں تو کل ایک حقیقت بن کر سامنے آجائے گا اور اس طرح مشرق وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ اُبھر کر سامنے آئے گا۔ لیکن جو بات غامدیانہ فکر کے زیر اثر خورشید ندیم کو معلوم نہیں وہ یہ ہے کہ مسئلہ مسلمانوں کے مستقبل کا نہیں ہے۔ اسلام کے مستقبل کا ہے اور اسلام کا مستقبل شاندار ہے۔ چنانچہ اگر مسلمان اسلام سے چمٹے رہیں گے تو ان کا مستقبل بھی شاندار ہوگا۔ صفی لکھنوی کا شعر ہے۔

اس دین کی فطرت کو قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
اور اقبال بھی کہہ گئے ہیں۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

مسلمانوں کی تاریخ ان اشعار کی درستی پر گواہ ہے۔ برصغیر میں مغل بادشاہ اکبر نے دین الٰہی ایجاد کرکے اسلام کو پس منظر میں دھکیل دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں کی اگلی نسل میں داراشکوہ پیدا ہوگیا جو کہا کرتا تھا کہ معاذ اللہ ہندوئوں کی مقدس کتاب گیتا قرآن سے بہتر ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو برصغیر میں اسلام کا مستقبل مخدوش ہوچکا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی سربلندی کے لیے مجدد الف ثانی کو پیدا فرمایا۔ انہوں نے جہانگیر کے خلاف علم جہاد بلند کردیا اور بالآخر جہانگیر کو مجدد الف ثانی کے آگے سر جھکانا اور دربار میں اسلام کو سربلند کرنا پڑا۔ اس کشمکش میں داراشکوہ کو بھی شکست ہوئی اور شریعت کے غلبے کے علمبردار اورنگ زیب عالمگیر کو غلبہ حاصل ہوا اور اس نے 50 سال تک علما کی مدد سے برصغیر میں اسلام کی بالادستی کی جدوجہد کی۔ یہ بات بھی برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ ہے کہ شاہ ولی اللہ سے پہلے برصغیر سے قرآن و حدیث کا علم تقریباً اُٹھ چکا تھا مگر شاہ ولی اللہ اور ان کے خانوادے نے اس علم کو ازسر نو زندہ کیا۔ چنانچہ آج برصغیر میں قرآن کی تفسیر اور حدیث کا علم زندہ ہے تو شاہ ولی اللہ کی وجہ سے۔ یہ بات بھی سامنے کی ہے کہ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں مغرب کی غلامی کے زیر اثر پوری امت مسلمہ یہ بات بھول گئی تھی کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو پوری امت کے شعور کا حصہ بنانے کے لیے برصغیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو کارِ تجدید کے لیے پیدا کیا اور آج مولانا کے زیر اثر پوری امت اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کی قائل ہے۔

خورشید ندیم کو شاید معلوم ہو کہ 1095ء میں اس وقت کے پوپ اربن دوم نے چرچ میں کھڑے ہو کر کہا اسلام ایک شیطانی مذہب اور مسلمان ایک شیطانی مذہب کے پیروکار ہیں۔ اس نے ساری عیسائی دنیا سے کہا کہ عیسائیوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا سے شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو مٹادیں۔ پوپ کی تقریر کا اثر یہ ہوا کہ 1099ء میں عیسائی اقوام ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوئیں اور انہوں نے ان صلیبی جنگوں کا آغاز کیا جو کم و بیش دو سو سال جاری رہیں۔ ان جنگوں کے پہلے مرحلے میں عیسائیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرکے مسلمانوں کا اس بڑے پیمانے پر قتل عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیوں میں اتنا خون جمع ہوگیا کہ گھوڑوں کا چلانا دشوار ہوگیا۔ اس وقت صلاح الدین ایوبی پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مسلمان ایک صدی سے پہلے دوبارہ بیت المقدس کو فتح کرلیں گے۔ صلاح الدین ایوبی 1137 میں پیدا ہوا اور اس نے 1187 میں عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لے لیا۔

اس سلسلے میں بیسویں صدی کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ برصغیر پر وقت کی واحد سپر پاور برطانیہ کا قبضہ تھا۔ برصغیر میں مسلمان ایک اقلیت تھے۔ انگریز اور ہندو اسلام اور مسلمانوں کے کھلے دشمن تھے مگر برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ایک علٰیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا اور پاکستان کے نام سے اس الگ مملکت کو بہت جلد حاصل کرلیا۔ یہ کل کی بات ہے کہ وقت کی دو سپر پاورز میں سے ایک سپر پاور روس نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ روس کی تاریخ یہ تھی کہ وہ جہاں جاتا تھا وہاں سے واپس نہیں آتا تھا مگر صرف دس سال میں روس کو اسلام کے تصور جہاد نے شکست دے دی اور روس بکھر کر رہ گیا۔ نائن الیون کے بعد امریکا افغانستان میں آیا تو سب نے کہا کہ اب افغانستان میں وہی ہوگا جو امریکا چاہے گا مگر 20 سال میں امریکا بھی افغانستان میں شکست کھا گیا۔

جہاں تک کامیابی کے ہیضے کا تعلق ہے تو مسلمانوں کا اصل مسئلہ دنیاوی کامیابی نہیں، مسلمانوں کا اصل مسئلہ شہادت حق کا فرض ادا کرنا ہے۔ اس لیے کہ نتیجہ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ نتیجہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ انبیا و مرسلین کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔
سیدنا ابراہیمؑ صرف ایک فرد تھے۔ ان کے پاس نہ کوئی ریاست تھی نہ فوج۔ مال و دولت تھی نہ کوئی قوم یا منظم جماعت، اس کے باوجود انہیں حکم ہوا کہ نمرود کو چیلنج کریں۔ سیدنا ابراہیمؑ نے اس حکم کے جواب میں خدا سے یہ نہیں کہا کہ پہلے مجھے نمرود کے مقابلے کی قوت عطا فرما پھر میں نمرود کو چیلنج کروں گا۔ سیدنا نوحؑ 900 سال تک تبلیغ کرتے رہے اور ایک روایت کے مطابق اتنی طویل مدت میں چند افراد مسلمان ہوئے۔ سیدنا موسیٰؑ کے پاس بھی ریاست اور فوج نہیں تھی مگر انہیں حکم ہوا ہ فرعون کو چیلنج کریں اور انہوں نے فرعون کو چیلنج کیا۔ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ دنیاوی معیارات کے حوالے سے کفار اور مشرکین کے مقابلے پر رسول اکرمؐ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ غزوہ بدر میں 313 مسلمان ایک ہزار کے لشکر جرار کے مقابل تھے اور اگر اللہ فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد نہ فرماتا تو رسول اکرمؐ کی ’’کامیابی‘‘ کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حماس نے اسلام کی روح کے عین مطابق اسرائیل کی طاقت کے خلاف ’’شہادتِ حق‘‘ کا فرض ادا کردیا ہے۔ اور وہ بھی اس جلال وجمال کے ساتھ کہ اسرائیل اپنی ساری طاقت اور امریکا و یورپ کی پشت پناہی کے باوجود ایک سال تک حماس کو سرنگوں نہیں کرسکا۔ یہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور امریکا کے خلاف برسرپیکار طالبان کے معجزے سے زیادہ بڑا معجزہ ہے۔ اس لیے کہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو پوری مغربی اور اسلامی دنیا کی حمایت حاصل تھی اور طالبان کے لیے پاکستان سب سے بڑی پناہ گاہ تھا۔ مگر حماس نے تن تنہا ایک سال تک اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کی ہے۔

مستقبل کا حال خدا کو معلوم ہے یا مخبر صادق رسول اکرمؐ کو۔ خدا نے قرآن میں صاف کہا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ اور رسول اکرمؐ کی یہ حدیث شاید خورشید ندیم کے مطالعے میں نہیں آئی کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوگی۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک کہ اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا دور دورہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ چاہے گا اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ مسلم دنیا مدتوں سے کاٹ کھانے والی آمریت کا تجربہ کررہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا میں بہت جلد خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا دور شروع ہوسکتا ہے۔ انبیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت کے عدم توازن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا کی معجزوں کے ذریعے مدد کی ہے۔ اس وقت مسلمان طاقت کے ہولناک عدم توازن کا شکار ہیں چنانچہ خلافت علیٰ منہاج النبوہ کا دور شروع ہوگا تو ’’آسمانی مداخلت‘‘ یا Divine Intervention مسلمانوں کے ساتھ ہوگی اور اتنے بڑے بڑے معجزات ہوں گے کہ مغرب کی ساری مادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی ان کے آگے بچوں کا کھیل نظر آئے گی اور چند برسوں میں پوری دنیا مسلمان ہوجائے گی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے رہے گا جب تک اسرائیل کے اللہ تعالی مسلمان ایک بیت المقدس کا مستقبل رسول اکرم اور اس کے اس کے بعد ہوگی اور اسلام کے کی تاریخ انہوں نے کو چیلنج یہ ہے کہ ہے اور ا کے ساتھ کے خلاف بھی اس کا حصہ نہیں ا سال تک اس لیے گی اور کے لیے ہوں گے اور ان یہ بات

پڑھیں:

پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟

پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے مابین گزشتہ مذاکرات کے دور میں جن معاملات پر ڈیڈلاک تھا وہ ڈیڈلاک برقرار ہے اور مذاکرات شروع ہونے سے قبل جو ماحول ہونا چاہییے تھا وہ ماحول نہیں جو مذاکرات کی کامیابی کے لیے اچھا شگون نہیں تاہم اگر جنگ بندی پر ہی دونوں ممالک اتفاق کر لیتے ہیں تو یہ چیز بھی ایک اہم قدم کے طور پر شمار کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان مذاکرات کامیاب، ٹی ٹی پی کی شامت، مولانا فضل الرحمان آگ اگلنے لگے

25 سے 30 اکتوبر پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات ایک لحاظ سے ناکام ہوئے کہ ان میں دہشتگردی کی مانیٹرنگ کے حوالے سے میکنزم طے نہیں ہو پایا لیکن ان مذاکرات میں سیز فائر کو 6 نومبر تک توسیع دی گئی۔

پاک افغان صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین نے اس صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذاکرات کا اگلا مرحلہ کتنا کامیاب ہو گا، اس بات کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ طرفین کی جانب سے اعتماد سازی کے لیے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں کیونکہ اِس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ لیکن 30 اکتوبر سے اب تک ہم نے دیکھا کہ دونوں اطراف سے تند و تیز بیانات جاری کیے گیے۔

افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں ایک بیان دیا کہ استنبول مذاکرات میں افغان حکومت نے پاکستان کی جانب سے سیکیورٹی خدشات کے حامل افراد کو ڈیپورٹ کرنے کی پیشکش کی لیکن پاکستان نے انکار کرتے ہوئے انہیں افغانستان میں ہی روکنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پاکستان کی حالیہ کارروائیاں (جیسے فضائی حملے) امریکا کی افواج کو بگرام ایئر بیس پر واپس لانے کی راہ ہموار کرنے کا مقصد رکھتی ہیں اور امریکا کے ڈرون پاکستان کی فضائی حدود سے گزر کر افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ مجاہد نے مزید کہا کہ پاکستان کا واحد مطالبہ تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنا ہے لیکن ٹی ٹی پی افغان حکومت کے ماتحت نہیں اور یہ پاکستان کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

اس کے جواب میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ان بیانات کو ’مکار اور گمراہ کن‘ قرار دیا اور کہا کہ طالبان حکومت افغانستان کی نمائندہ نہیں ہے، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے، اور نسلی گروہوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان حکومت میں گہرے اندرونی اختلافات ہیں اور یہ افغان عوام کو اظہار رائے، تعلیم اور سیاسی نمائندگی جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے۔

مزید پڑھیے: پاک افغان بارڈر کی بندش: خشک میوہ جات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ

یہ ردعمل پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرحدی تناؤ اور مذاکرات کے تناظر میں سامنے آیا جہاں پاکستان نے مجاہد کے دعووں کو ’جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کرنے‘ کا الزام لگایا اور کہا کہ انہوں نے دراصل افغانستان سے دہشتگردوں کو گرفتار کرنے یا پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان 6 نومبر 2025 کو استنبول میں ہونے والا مذاکرات کا تیسرا دور ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہو گا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو پناہ دی جا رہی ہے جو پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔

دوسری جانب افغانستان پاکستان پر فضائی حملوں اور سرحدی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتا ہے۔

اکتوبر کے آخر میں استنبول میں ہونے والے ابتدائی مذاکرات میں فریقین نے جنگ بندی پر اتفاق کیا جو 6 نومبر تک برقرار رہے گی۔

اگلے دور میں جنگ بندی کی نگرانی اور عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات چیت ہو گی۔ تاہم گہرے عدم اعتماد اور جاری الزامات کی وجہ سے بڑی پیشرفت کا امکان کم ہے۔

پاکستان کی فوج نے واضح کیا ہے کہ اگر سرحدی حملے اور دراندازی کی کوششیں جاری رہیں تو جنگ بندی ختم ہو سکتی ہے۔

اعتماد سازی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، طاہر خان

افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 6 نومبر کو مذاکرات میں کیا ہوتا ہے اس کے نتائج کے لیے انتظار کرنا پڑے گا لیکن مذاکرات کی کامیابی میں چیلنجز تو ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا جو دوسرا دور ہوا تھا اس کے بعد سے اعتماد سازی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے مذاکرات پر مثبت اثر ہو۔

مزید پڑھیں: پاک افغان مذاکرات ناکام، خواجہ آصف نے طالبان کو وارننگ دے دی

طاہر خان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان وہی تلخی اور کشیدگی ہے اور سرحدیں بند ہیں سوائے مہاجرین کے لیے کیونکہ پاکستان خود ان کی واپسی چاہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی جانب سے اعتماد سازی کی بجائے بیانات کا سلسلہ جاری ہے جو کہ ایک منفی چیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مثبت بات نہیں کر سکتے تو خاموشی بہتر ہوتی ہے کیونکہ بیانات میں تلخی ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک دوسرے کو مثبت پیغامات نہیں دیے جا رہے اب ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے لیے گانے بنائے جا رہے ہیں جو مذاکرات اور دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے بالکل بھی درست نہیں۔

طاہر خان نے کہا کہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال جوں کی توں ہے۔ کل ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان آیا اور اُس سے پہلے کابل سے بھی بیانات آئے تو ان سے پتا چلتا ہے کہ جن معاملات پر ڈیڈلاک تھا وہ ابھی تک برقرار ہے لیکن مذاکرات سے پہلے جو ماحول ہے وہ مذاکرات کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ 25 سے 30 اکتوبر مذاکرات کے بعد جنگ بندی اور مزید مذاکرات پر اتفاق اچھی بات تھی لیکن اس کے بعد کچھ ایسی چیزیں ہونی چاہیے تھیں جو مذاکراتی عمل کو آگے بڑھا پاتیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

6 نومبر اہم مگر محدود پیشرفت کا موقع ہے، محمود جان بابر

افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور مبصر محمود جان بابر کہتے ہیں کہ 6 نومبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کسی بڑے بریک تھرو کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

انہوں ے کہا کہ اتنا بھی ہو جائے کہ مستقل جنگ بندی کے لیے کوئی طریقہ کار طے کر لیا جائے تو یہ بھی پہلا مثبت قدم سمجھا جائے گا۔ ممکن ہے ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں ایک فریم ورک طے ہو جائے جس میں سرحدی نگرانی، معلومات کا تبادلہ اور مرحلہ وار اقدامات شامل ہوں لیکن یہ فوری امن نہیں دے گا ہاں کشیدگی کو کم ضرور کر دے گا اور دیرپا امن کی امید قبل از وقت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیرِدفاع تو پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں حالات کھلی جنگ کی سمت جا سکتے ہیں۔ اور جنگ کی صورتحال تو ہے اور اس کا اثر سرحدی علاقے کے لوگوں کی زندگیوں پر پڑے گا۔6 نومبر اہم مگر محدود پیش رفت کا موقع ہے۔ دور کو فیصلہ کن سمجھا جا رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اصل رکاوٹ کہاں ہے۔ اِن مذاکرات کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں کیونکہ پاکستان کا دوٹوک مؤقف ہے کہ افغان سرزمین پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ دہشتگردی میں ملوث گروہ افغانستان سے کاروائیاں کر رہے ہیں جبکہ کابل کا کہنا ہے کہ ان گروہوں پر ان کا مکمل کنٹرول نہیں اِس لیے ان کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بداعتمادی کی دیوار کھڑی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا کہنا ہے افغان مذاکراتی ٹیم اکثر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹتی ہے اور کابل سے بار بار پوچھتی ہے کہ ہمیں آگے کیا کرنا چاہیئے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ جبکہ کابل سمجھتا ہے کہ پاکستان کی شرائط اس کی خودمختاری کے خلاف ہیں اور یوں دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر پا رہے۔ مذاکرات کی کامیابی میں حائل تیسری رکاوٹ سرحدی جھڑپیں ہیں۔

افغانستان بار بار الزام لگاتا ہے کہ پاکستان ڈرون حملے کر رہا ہے جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ ایک ایسا مانیٹرنگ کا طریقہ کار اپنایا جائے جو جنگ بندی خلاف ورزیوں کی تصدیق کر سکے کہ کس کی وجہ سے سے سرحدی جھڑپیں ہوئی ہیں۔
مزید پڑھیں: استنبول: پاک افغان وفود کے درمیان جواب الجواب کے بعد ایک بار پھر مذاکرات شروع
مذاکرات کی راہ میں سرحدی بندش کی رکاوٹ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے سرحد کے آرپار بسنے والے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ اِن مذاکرات کی کامیابی کے بارے میں کسی کو بھی خوش فہمی نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاک افغان کشیدگی پاک افغان مذاکرات پاک افغان مذاکرات کا اگلا دور

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان طالبان مذاکرات کا اگلا دور، 6 نومبر کو ہونے والی بیٹھک کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں؟
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ
  • حکومت تعلیم کے شعبے میں بہتر اقدامات کررہی ہے، ندیم الرحمن میمن
  • بھارت ابھی تک پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، عطاء اللہ تارڑ
  • بھارت ابھی تک پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے، عطا اللہ تارڑ
  • وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی انتخابی کامیابی کے خلاف دائر درخواست مسترد
  • الیکشن ٹریبونل نے مریم نواز کی کامیابی کے خلاف انتخابی عذرداری پر فیصلہ سنا دیا
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی کامیابی کے خلاف انتخابی عذرداری مسترد
  • پاکستان کی سفارتی کامیابیاں دنیا تسلیم کرتی ہے، عطاء اللہ تارڑ
  • جمعیت علماء اسلام کے تحت عوامی حقوق کیلئے لانگ مارچ