190 ملین پاؤنڈ حکومت کے اکاؤنٹ میں آچکے ہیں: فوادچودھری کا بڑا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک: سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا 190 ملین پاؤنڈ کی رقم حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں ہے، 2 سال یہ سپریم کورٹ میں رہے 22 ارب روپے ان پر پرافٹ مل گیا، یہ پیسے حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔
نجی نیوز چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سابق وزیر فواد چودھری کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے 190 ملین ڈالر کے حساب سے رشوت لینی ہے تو کیا وہ نواز شریف کی لندن کے پراپرٹی ایون فیلڈ کے ساتھ اپنا اپارٹمنٹ نہیں لے سکتا تھا، یا ٹائم اسکوئر میں۔ جو لوگ عمران خان کو جانتے ہیں وہ یقین نہیں کریں گے کہ کیسا احمقانہ الزام اُن پر لگایا گیا ہے۔
غزہ جنگ بندی معاہدہ ہماری تاریخی کامیابی، خطے میں امن بحال ہو گا: ٹرمپ
190 ملین پاونڈ کیس میں فرح گوگی، بشریٰ بی بی ملزم نہیں ہیں، شوکت خانم کو ہرسال چندے کی مد میں 9 ارب روپے اکٹھے ہوتے ہیں، ہسپتال ان پیسوں کی تحقیقات نہیں کرسکتا کہ یہ کس کس نے عطیہ کیے ہیں، اسی طرح القادر یونیورسٹی ایک مفت تعلیمی ادارہ ہے جس کو ٹرسٹیز چلاتے ہیں۔
فواد چودھری نے کہا کہ اگر کسی نے پیسے دیے ہیں کہ اس سے تعلیمی ادارہ بنالیں، تو اس کو رشوت تصور کرنا حیران کن بات ہے، 190 ملین پاؤنڈ کیس کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوگی۔
خسرہ وبا تیزی سے پھیلنے لگی،3 بچوں کی جان لے گئی
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف فیصلے آنے کے بعد تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ علی امین گنڈا پور کی بانی پی ٹی آئی سے بات ہوئی ہے۔
بعد ازاں بیرسٹر گوہر نے یہ بیان دیا ہے کہ ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں، لگتا ہے کہ مذاکرات آگے بڑھیں گے اور تلخیاں کم ہوجائیں گی۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: فواد چودھری
پڑھیں:
23 اپریل کو ایل او سی سرجیور میں دو دراندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔
اسلام آباد:کنٹرول لائن پر دراندازی کا ایک اور بھارتی جھوٹ بے نقاب ہوگیا، 23 اپریل کو لائن آف کنٹرول کے علاقے سرجیور میں دو مبینہ دراندازوں کو ہلاک کرنے کا بھارتی دعویٰ جھوٹا نکلا۔
ذرائع کے مطابق جھوٹا بھارتی دعویٰ بظاہر ایک من گھڑت بیانیے کو پھیلانے کی دانستہ کوشش ہے، وقت کے تسلسل، زمینی حقائق اور جاری کردہ تصویری شہادتوں میں سنگین تضادات پائے جاتے ہیں جس واقعے میں دو افراد کو درانداز قرار دیا جا رہا ہے ان کی شناخت مقامی افراد کے طور پر ہوئی ہے۔
ملک فاروق ولد صدیق اور محمد دین ولد جمال الدین گاؤں سجیور کے پُرامن شہری تھے، مارے جانے والے افراد کے لواحقین نے 22 اپریل کی صبح ان کے لاپتا ہونے کی اطلاع دی تھی، ان افراد کی گمشدگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ کسی ممکنہ دراندازی سے پہلے ہی غائب ہو چکے تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی ذرائع کی جانب سے جاری کردہ تصاویر واضح طور پر بھارت کے مؤقف کو جھٹلا رہی ہے کہ تصویر میں ایک متوفی کی لاش صاف ستھری، چمکتی ہوئی کالی جوتیوں کے ساتھ دکھائی دیتی ہے، یہ لاش دشوار گزار پہاڑی راستے سے دراندازی کرنے والے کی ہرگز نہیں ہو سکتی، مارے جانے والے شخص کے کپڑے بھی حیران کن حد تک صاف ہیں، اس کے ہتھیار پر مٹی یا خون کے نشانات تک نہیں، اس کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر کسی قسم کی لڑائی کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔
اسی طرح دوسری لاش کے پاس کسی قسم کا لوڈ بیئرر، اضافی گولہ بارود، پانی کی بوتل، یا کوئی بھی جنگی ساز و سامان موجود نہیں، اگر یہ واقعی ایک درانداز ہوتا تو وہ اس طرح ناپختہ اور غیر محفوظ حالت میں کبھی بھی حرکت نہ کرتا، ایک شخص کے پاس تو صرف پستول ہے جو کہ دراندازی کی کسی بھی فوجی حکمت عملی سے مطابقت نہیں رکھتا۔
مقامی افراد اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات اس حقیقت کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پُرامن شہری تھے، ہلاک ہونے والے افراد کا کسی بھی عسکری یا غیر قانونی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں تھا بھارتی افواج نے انہیں بے دردی سے قتل کر کے اسے ایک فالس فلیگ آپریشن کا رنگ دے دیا، بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ اس انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا سختی سے نوٹس لے۔