غزہ کی فتح عظیم اور تاریخی ہے، ہماری انگلی ٹریگر پر ہے، سید بدرالدین حوثی
اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT
یمن میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم انصاراللہ کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے فلسطینی قوم کو عظیم اور تاریخی فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کی صورت میں یمن اسرائیل کو دوبارہ نشانہ بنانے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انصاراللہ یمن کے سربراہ سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے غزہ میں جنگ بندی کی مناسبت سے جشن کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس جنگ بندی کو اہل غزہ اور ملت فلسطین کے لیے عظیم اور تاریخی فتح قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا: "خداوند متعال نے غزہ کی پٹی میں ملت فلسطین اور ان کے عزیز مجاہدین کو ایک عظیم اور تاریخی فتح عطا کی ہے۔ ہم خدا کے شکرگذار ہیں جس نے مجاہدین کی مدد کی، انہیں ثابت قدمی عطا کی اور فتح کے ذریعے ان کی پشت پناہی کی اور فلسطینی قوم کو صبر اور استحکام عطا فرمایا۔ ہم ملت فلسطین اور اس کے تمام گروہوں اور سرگرم افراد کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور خاص طور پر القسام بریگیڈز کے مجاہدین کو مبارکباد عرض کرتے ہیں۔ خدا نے انہیں جو عظیم کامیابی عطا کی ہے اس میں فلسطینی گروہوں کے درمیان وحدت اور اتحاد نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ غزہ کے مجاہدین شدید محاصرے کا شکار تھے اور ان کے پاس وسائل کی شدید قلت تھی جبکہ مدمقابل صیہونی دشمن پوری طرح اسلحے سے لیس تھا۔ اسی طرح امریکہ اور برطانیہ بھی غزہ جنگ میں اسرائیل کا پورا ساتھ دے رہے تھے تاکہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کا مکمل طور پر خاتمہ کر دے اور تمام جہادی سرگرمیوں کو ختم کر دے۔"
انصاراللہ یمن کے سربراہ نے مزید کہا: "فلسطینی قوم اور مجاہدین نے عظیم قربانیاں پیش کیں اور اسماعیل ہنیہ، صالح العاروری، یحیی السنوار جیسی عظیم شخصیات شہید ہوئیں لیکن ان کا ارادہ کمزور نہ ہوا۔ اگرچہ عرب ممالک نے شدید بزدلی کا مظاہرہ کیا اور حتی کچھ عرب حکومتوں نے فلسطین مخالف موقف بھی اختیار کیا لیکن خداوند متعال نے مجاہدین کی مدد کی اور انہیں طاقتور بنا دیا۔ غزہ کے مجاہدین نے اپنی جہادی سرگرمیوں کے ذریعے اسرائیلی دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور مختلف حالات میں انتہائی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ ان کا یہ عظیم کارنامہ تاریخ میں باقی رہ جائے گا اور آئندہ نسلوں کو رہنمائی فراہم کرے گا۔ طوفان الاقصی آپریشن فلسطین کی جہادی تاریخ میں ایک عروج جانا جاتا ہے۔ 15 ماہ تک مسلسل استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ اور اس کے نتیجے میں ایک عظیم اور اہم تبدیلی رونما ہوئی اور یہ ایک کامیاب تجربہ تھا۔ اسلامی مزاحمت اپنے سیاسی موقف پر سختی سے ڈٹی رہی اور کسی بھی بیرونی دباو کا شکار نہ ہوئی اور دشمن کو مذاکرات میں وہ کامیابیاں نصیب نہ ہونے دیں جو دشمن میدان جنگ میں حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں بھی اسلامی مزاحمت ثابت قدم رہی اور ڈٹ کر تباہی اور بھوک کا مقابلہ کیا۔"
سید عبدالملک بدرالدین الحوثی نے مزید کہا: "غزہ کی پشت پناہی کرنے والے محاذوں نے بھی بھرپور کردار ادا کیا اور یہ اسرائیلی دشمن کے خلاف جدوجہد کی تاریخ میں اہم موڑ تھا۔ مختلف قسم کے دباو اور فریب کاریوں کے باوجود ایران نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا اور اسرائیل کے خلاف بڑے وعدہ صادق فوجی آپریشن انجام دے کر فلسطینیوں کی حمایت کی۔ حزب اللہ لبنان نے بھی بے مثال انداز میں اہل غزہ کی حمایت کی اور اس راستے میں عظیم قربانیاں دیں۔ اس کے اعلی سطحی سربراہان، کمانڈرز اور مجاہدین شہید ہو گئے۔ حزب اللہ نے اسرائیلی دشمن پر کاری ضربیں لگائیں اور اس کا بھرپور انداز میں مقابلہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچایا۔ حزب اللہ نے اسی طرح لبنان پر صیہونی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمن کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ عراق نے بھی اپنے مزاحمتی اقدامات کے ذریعے فلسطین کی مدد کی اور یہ اقدامات فلسطینیوں کی فتح تک جاری رہے۔ یمن نے اسلامی مزاحمتی محاذ پر جو کردار ادا کیا وہ ایک مقدس اور دینی ذمہ داری تھی۔ ہماری حمایت صرف ہمدردی کے اظہار تک محدود نہیں رہی بلکہ ہم نے عمل کے میدان میں جامع اقدامات انجام دیے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عظیم اور تاریخی اسلامی مزاحمت کردار ادا کیا کیا اور کی اور اور اس غزہ کی نے بھی
پڑھیں:
فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (چھٹا اور آخری حصہ)
اب سے دو روز قبل ( چوبیس اکتوبر ) ہالوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کے عالمی دن کے موقع پر پولینڈ میں آشوٹز کنسنٹریشن کیمپ میں ہزاروں لوگوں نے نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ان مظاہرین میں اکثریت اسی برس قبل ہالوکاسٹ میں بچ جانے والے یہودیوں کی نئی پود کی تھی۔بیشتر کے ہاتھوں میں اسرائیلی پرچم تھے۔مگر ان نوجوانوں کے ہمراہ یہ بے حس بے خبری بھی چل رہی تھی کہ ان کے جو پرکھے نازیوں کے نسل کش کیمپوں سے زندہ بچ کے فلسطین پہنچے انھوں نے وہاں کی مقامی آبادی کو اپنی زمین سے اکھاڑنے اور وجود مٹانے کے لیے لگ بھگ وہی ہتھکنڈے استعمال کیے جو نازیوں نے ان کے ساتھ برتے تھے۔
جس طرح آج کی اسرائیلی پود نے غزہ کے کنسنٹریشن کیمپ پر پیاس ، بھوک اور موت برسائی ہے۔بالکل اسی طرح انیس سو بیالیس تینتالیس میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے یہودی محلوں کا محاصرہ کر کے نازیوں نے ایسا ہی سلوک کیا تھا۔
مگر ہیروشیما ناگاساکی کی جوہری تباہی سے جاپانیوں نے جس طرح امن کا سبق سیکھا اور خود کو ایک توسیع پسند جنگجو قوم سے انسانیت کی پرچارک قوم میں بدلا۔اس کے عین برعکس ہٹلر کے ہالوکاسٹ کیمپوں میں بچ جانے والوں اور ان کی اگلی نسلوں نے نسل کشی کے تجربے سے انسانیت سے بلاامتیاز محبت کا سبق سیکھنے کے بجائے ہٹلری ہتھکنڈوں کو مزید جدید اور بھیانک بنا کر موجودہ مرحلے تک پہنچا دیا۔
ہٹلر میں کم ازکم اتنی غیرت ضرور تھی کہ اس نے نسل کش کیمپوں میں لاکھوں انسانوں کے قتل کو مشتہر کرنے کے بجائے جرمنوں کی اکثریت اور باقی دنیا سے اس خونی ڈرامے کو حتی الامکان پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی۔مگر اس کے صیہونی وارث اپنی ایک ایک نسل کش حرکت کو فخریہ انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے جشن کی شکل دے رہے ہیں۔ہٹلر کے مظالم پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے والے ممالک آج کے ہٹلری ہتھکنڈوں کو اسرائیلیوں کا حق ِ دفاع قرار دے رہے ہیں۔
غزہ اور غربِ اردن میں اسرائیل ریاستی حقِ دفاع کے نام پر ’’ دھشت گردی ‘‘ کا قلع قمع کر رہا ہے مگر آٹھ دہائی قبل وارسا کے یہودی نازی قبضے کے خلاف جو مزاحمت کر رہے تھے وہ جبر کے خلاف دلیرانہ بغاوت کے نام پر ہر سال منائی جاتی ہے۔
وارسا کی نازی مخالف مسلح یہودی بغاوت انیس اپریل تا سولہ مئی انیس سو تینتالیس (انتیس دن) جاری رہی۔ اس مختصر سی بغاوت کی قیادت دو مقامی صیہونی گروہوں نے کی۔ان کے پاس چند اسمگلڈ رائفلیں ، دو چار درجن چھینے گئے گرینیڈ ، آتش گیر مادے سے بھری چند سو بوتلیں (مالوٹوف کاک ٹیل ) ڈنڈے اور سریے تھے۔
وارسا گھیٹو کہلائی جانے والی یہ آبادی مشرقی یورپ کی سب سے گنجان یہودی بستی تھی۔آٹھ سو تیس ایکڑ رقبے میں چار لاکھ انسان ٹھنسے ہوئے تھے۔یعنی فی کمرہ ساڑھے سات نفوس۔جولائی تا ستمبر انیس سو بیالیس نازی انتظامیہ نے روزانہ اس بستی سے سات ہزار یہودیوں کو صبح اور شام کی دو ٹرینوں میں بھر کے اسی کیلومیٹر دور قائم تریبلانکا نسل کش کیمپ کو روانہ کیا۔ان تین ماہ میں لگ بھگ پونے تین لاکھ مکینوں کو جبری طور پر موت کے سفر پر بھیجا گیا۔
ابتدا میں ان باشندوں کو یہ کہہ کر ٹرین میں سوار کروایا جاتا کہ انھیں ایک نئی جگہ بہتر زندگی گذارنے کے لیے منتقل کیا جا رہا ہے۔ زادِ راہ کے طور پر ہر کنبے کو خوراک کا تھیلا بھی دیا جاتا۔مگر بستی بدری کا سلسلہ شروع ہونے کے چند ہفتے بعد ہی یہاں کے مکینوں کو اندازہ ہو گیا کہ انھیں دوبارہ آبادکاری کے بہانے موت کے کیمپوں میں بھیجا جا رہا ہے۔اس شبہے کی ٹھوس بنیاد یہ تھی کہ روانہ ہونے والوں کا پیچھے رہ جانے والوں سے کبھی بھی کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔
چنانچہ وارسا گھیٹو کے رہائشیوں نے ٹرینوں میں سوار ہونے سے انکار کرنا شروع کر دیا۔مگر اس بستی کے مکینوں پر ہی مشتمل مقامی پولیس کو نازیوں نے یہ کام سونپا کہ روزانہ اتنے باشندے جمع کر کے روانہ کرنے میں مدد دے۔ ورنہ انھیں بھی ٹرین میں بٹھا دیا جائے گا۔
جنوری انیس سو تینتالیس تک جب یہ گھیٹو آدھے سے زیادہ خالی کروا لیا گیا تو مکینوں نے نازی اہلکاروں اور ان کی ایجنٹ مقامی پولیس کے خلاف ہفتے بھر کی بھرپور مزاحمت کی اور چند دنوں تک ان کی منتقلی کا کام معطل ہو گیا۔اس دوران مقامی یہودیوں نے خود کو بچانے کے لیے اپنے تئیں حفاظتی باڑھیں بنانے اور حملے کی صورت میں چھپنے کا انتظام شروع کر دیا۔ ان کے پولینڈ کی زیرِ زمین قومی مزاحمتی تحریکوں سے روابط استوار ہوئے اور چھوٹا موٹا اسلحہ بھی اسمگل ہو کر اندر آنے لگا۔
انیس اپریل انیس سو تینتالیس کو وارسا گھیٹو میں بغاوتِ عام شروع ہو گئی۔مکینوں نے اپنی ہی برادری کے چند غدار پولیس اہلکاروں اور مخبروں کو ٹھکانے لگا دیا۔ان کی مدد کو بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں پر سوار نازی دستے آئے تو انھیں بھی آتشگیر مادے سے بھری بوتلیں پھینک کے اندر آنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔مگر مقابلہ برابری کا نہیں تھا۔
نازیوں نے بستی پر بمباری کی۔گھروں کو ترتیب وار نذرِ آتش کرنا شروع کیا۔انڈر گراونڈڈ سیوریج پائپوں میں پناہ لینے والے انسانوں کو باہر نکالنے کے لیے دھوئیں کے بم اور دستی بم بے دریغ پھینکے گئے۔اس کے باوجود بغاوت پر قابو پانے میں انتیس دن لگ گئے۔
ان انتیس دنوں میں بستی کے تیرہ ہزار مکین مارے گئے۔ایک سو دس جرمن فوجی ہلاک و زخمی ہوئے۔وارسا گھیٹو کی بغاوت نازی مقبوضہ یورپ میں پہلی بڑی شہری مزاحمت تھی۔اس سے حوصلہ پا کر اگلے برس وارسا کا پورا شہر نازیوں کے خلاف کئی ہفتے ڈٹا رہا۔
یہودی بستی کو بلڈوزروں سے زمیں بوس کرنے کے بعد وہاں زندہ بچ جانے والے لگ بھگ پچاس ہزار جوانوں ، بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کو تریبلانکا اور آشوٹز منتقل کر کے گیس چیمبرز میں بھیج دیا گیا۔
اگر آپ وارسا گھیٹو کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر دیکھیں تو لگتا ہے گویا آج کے غزہ کی تصاویر ہیں۔نازی تو تاریخ کے ہاتھوں ختم ہو گئے مگر ان کی بھٹکی ہوئی ارواح نے آسانی سے قالب بدل لیا اور وہ آج تک آشوٹز ، وارسا اور تریبلانکا سے بہت دور فلسطین میں رقصاں ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)