صیہونیت کی الف ب ت (حصہ دوم)
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
ہر یہودی صیہونی نہیں ہوتا اور ہر صیہونی یہودی نہیں ہوتا۔
مثلاً سابق امریکی صدر جو بائیڈن کرسچن ہیں لیکن خود کو صیہونی کہتے ہیں۔نوم چومسکی یہودی ہیں مگر صیہونی نہیں۔
جب انیسویں صدی کے آخری عشروں میں روس میں یہود مخالف جذبات نے پرتشدد صورت اختیار کر لی اور ( اٹھارہ سو اکیاسی تا چوراسی ) زار شاہی کی سرپرستی میں یہود کشی اور امتیازی قوانین کے سبب ہزاوں یہودی خاندانوں کو جان و مال کی امان کے لیے روس چھوڑ کر مشرقی اور وسطی یورپ میں پناہ لینا پڑی تو یہودی دانش مندوں میں مستقبل کے بارے میں یہ سنجیدہ بحث چھڑ گئی کہ بحیثیت قوم یورپ میں ہمارا کیا مستقبل ہے ؟
ایک طبقے کا خیال تھا کہ ہمیں الگ تھلگ رہنے کی عادت ترک کرنے ، فرسودہ رہن سہن چھوڑنے ، چند لگے بندھے پیشوں کے دائرے سے نکلنے اور ہر مسئلے کے حل کے لیے مقامی رابی (مذہبی پیشوا ) سے رجوع کرنے کے بجائے خود کو بتدریج مغربی سماج میں ضم کر لینا چاہیے۔
دوسرے دانش مندوں کا خیال تھا کہ قومی لاچاری کا بس ایک مداوا ہے کہ کسی مسیحا کی آمد کا لامتناہی انتظار کیے بغیر ایک آزاد خودمختار یہودی ریاست کے لیے جدوجہد کی جائے اور یہ ریاست ارضِ فلسطین ( جوڈیا و سماریا ) ہی ہو سکتی ہے جسے یہودیوں کو لگ بھگ دو ہزار برس قبل بالجبر چھوڑنا پڑا اور جس کی واپسی کا وعدہ خدا نے بھی ہم سے کر رکھا ہے۔تو کیوں نہ خدا کو زحمت دیے بغیر ہم اپنے زورِ بازو پر یہ کام سرانجام دیں۔
مگر کٹر مذہبی طبقہ سمجھتا تھا کہ ہمیں تورات میں کیے گئے الہامی وعدوں کی لاج رکھتے ہوئے صبر سے اس مسیحا کا انتظار کرنا چاہیے جو ہمیں دوبارہ ارض فلسطین میں بسائے گا۔اس آسمانی وعدے کے برعکس سوچنا الہامی تعلیمات سے بغاوت و انحراف ہے۔
یہ بحث نئی نہیں تھی بلکہ مشرقی و وسطی یورپ کے یہودی چائے خانوں میں سترہ سو ستر کے عشرے سے روشن خیال اصلاح پسندوں اور تبدیلی کے خواہاں دانشوروں کے مابین چھڑی ہوئی تھی۔اگلے سو برس میں اس نے ایک ٹھوس اور منظم شکل اختیار کر لی۔
زیون یا صیہون یروشلم کی ایک پہاڑی کا عبرانی نام ہے اور زائیونسٹ کا مطلب ہے حبیبِ زیون ۔چنانچہ روس اور رومانیہ سمیت وسطی و مشرقی یورپ کے ہم خیال دانشوروں نے ہوویوی زیون ( حبِ زیون ) نامی تھنک ٹینک قائم کیا۔
اٹھارہ سو بیاسی میں روسی شہر اوڈیسہ میں یہود کش فسادات کے ردِعمل میں وہاں کے ایک رہائشی ڈاکٹر لیون پنسکرز کا ایک کتابچہ آٹو ایمنیسپیشن ( راہ نجات ) کے نام سے شایع ہوا۔اس میں تجویز کیا گیا کہ اپنے بل بوتے پر ایک قومی وطن حاصل کرنے میں ہی عافیت ہے ورنہ ہم ہمیشہ غیر محفوظ رہیں گے۔اس کتابچے کو جدید صیہونیت کی پہلا بنیادی دستاویز کہا جا سکتا ہے۔یہ کتابچہ یورپی یہودی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
ایک قومی وطن کے خیال کو منظم نظریاتی شکل دینے کے لیے نومبر اٹھارہ سو چوراسی میں جرمن شہر کاٹووٹز میں ہوویوی زیون کے بنیر تلے ڈاکٹر لیون پنسکر کی زیرِ صدارت بتیس دانش مند سر جوڑ کے بیٹھے۔ان میں سے بائیس مندوب روسی تھے۔ کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ یورپی ممالک میں ہوویوی زیون کی مقامی شاخیں قائم کی جائیں تاکہ قومی وطن کی ضرورت کے نظریے کا منظم پرچار ہو سکے۔
جو یہودی خاندان فلسطین میں بسنا چاہیں ان کی ہرممکن مالی و مادی اعانت ہو سکے۔اٹھارہ سو اٹھہتر سے فلسطین نقلِ مکانی کرنے والے اکادکا یورپی خاندانوں نے مستقبل کے تل ابیب کے نزدیک پیتا تکوا کے نام سے چھوٹی سی بستی کی شکل میں اجتماعی کاشتکاری کا تجربہ شروع کر دیا۔
اس تجربے نے بعد ازاں کیبوتز تحریک کی منظم شکل اختیار کی۔( کیبوتز سے مراد ایسی آبادکار بستی جو ہر اعتبار سے خودکفیل ہو اور اسے مقامی آبادی کی مدد پر کم سے کم تکیہ کرنا پڑے )۔ہوویوی زیون کی قیادت نے یہودی آبادکار خاندانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے کچھ مالی مدد بھی بھیجی مگر بیشتر یورپی یہودیوں میں تحریکِ نقلِ مکانی ابتدا میں زیادہ مقبول نہ ہو سکی۔
البتہ ہوویوی زیون نے یہودی برادریوں میں کام جاری رکھا۔اور اس کے نتیجے میں سوئس شہر بیسل میں انتیس اگست اٹھارہ سو ستانوے میں پہلی تین روزہ صیہونی کانگریس منعقد ہوئی۔
کانگریس کی صدارت ہنگری کے ایک صحافی ، وکیل ، ادیب اور سیاسی ایکٹوسٹ تھیوڈور ہرزل نے کی۔ابتدا میں اس کانگریس کا انعقاد میونخ میں تجویز کیا گیا مگر جرمن یہودی مذہبی حلقوں اور لبرل اصلاح پسندوں کی مخالفت کے سبب اسے بیسل منتقل کرنا پڑا۔کارروائی جرمن زبان میں لکھی گئی۔
کانگریس میں سترہ ممالک سے دو سو آٹھ یہودی مندوب شریک ہوئے۔نصف کا تعلق روس اور مشرقی یورپ سے تھا۔سترہ خواتین کو بطور مبصر مدعو کیا گیا (انھیں ووٹنگ میں حصہ لینے کی اجازت اگلے برس منعقد ہونے والی دوسری صیہونی کانگریس میں ملی )۔
ایک تفصیلی اعلانِ نامہ باسل جاری ہوا۔ لبِ لباب یہ تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے لیے سیاسی و قانونی کوشش باضابطہ شروع کی جائے۔یہودی کسانوں ، ہنرمندوں اور تاجروں کو فلسطین میں بسنے پر راغب کیا جائے۔اس مقصد کے لیے ہر ملک کی یہودی آبادی میں ایک آگہی مہم تیز کی جائے۔تین ستمبر اٹھارہ سو ستانوے کو تھیوڈور ہرزل نے کانگریس کے اختتام کے بعد اپنی ڈائری میں یہ تاریخی پیرا لکھا۔
’’ بیسل میں آج ہم نے ایک یہودی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔اگر آج میں یہی بات برسرِ عام کہوں تو دنیا بہت ہنسے گی۔مگر اگلے پانچ یا زیادہ سے زیادہ پچاس برس میں ہر کوئی اسے ابھرتا ہوا دیکھے گا ‘‘۔
دوسری صیہونی کانگریس اگلے برس مئی میں جرمن شہر کاؤلون میں منعقد ہوئی۔اس میں عوامی چندہ جمع کرنے کی خاطر جیوش کولونیل ٹرسٹ کے نام سے ایک بینک کے قیام کی منظوری دی گئی۔ا نیس سو ایک میں ہونے والی پانچویں سالانہ صیہونی کانگریس میں جیوش نیشنل فنڈ قائم ہوا۔اس کا مقصد فلسطین میں زمینوں کی خریداری تھی۔
اسرائیل میں آباد ہونے والے یہودیوں کی سماجی و اقتصادی حالت بہتر بنانے اور انھیں یکجا کرنے کے لیے زائیونسٹ کمیشن قائم ہوا۔اس کمیشن نے فلسطین کا ارضیاتی سروے کیا۔کمیشن کے تحت تعلیم ، آبادکاری ، زرعی امور ، مالیات ، نقل مکانی اور بندوبست ِاراضی کے شعبے کام کرنے لگے۔
انیس سو اکیس میں صیہونی کمیشن کا نام فلسطین زائیونسٹ ایگزیکٹو ہو گیا۔اس کے تحت قائم جیوش ایجنسی نے فلسطین میں برطانیہ کی انتدابی انتظامیہ کے لیے یہودی آبادکاروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مشاورتی کردار ادا کرنا شروع کیا۔
صیہونی کانگریس کا دفتر انیس سو سات میں یروشلم میں قائم کیا گیا۔ اب یہ کانگریس اسرائیل میں ہر چار برس بعد منعقد ہوتی ہے۔
اگلے مضمون میں ہم صیہونیت کے باوا آدم تھیوڈور ہرزل کی زندگی اور نظریات کا احاطہ کریں گے تاکہ ہمیں صیہونی ذہن سمجھنے میں مدد مل سکے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صیہونی کانگریس فلسطین میں اٹھارہ سو کیا گیا میں یہ تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، مولانا شعیب احمد
مولانا شعیب احمد کا کہنا تھا کہ اسرائیل انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کو چیلنج کر کے فلسطین کو نقشے سے مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، چھوٹے بچوں کو بھوکا پیاسا مارا جارہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھارتی ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مولانا شعیب احمد نے فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل معصوم لوگوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر رہا ہے۔ انہوں نے پہلگام حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سب کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی کے حملوں اور اس سے متعلق خبروں کو سیاسی فائدے کے لئے غلط استعمال نہ کیا جائے اور معاشرے میں نفرت اور دشمنی نہ پھیلائی جائے۔ وقف ایکٹ میں ترمیم پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ موضوع آج ملک میں مسلمانوں کو درپیش اہم ترین مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کی وجہ سے مساجد، مدارس اور یتیم خانے خاتمے کے دہانے پر ہیں۔ مولانا شعیب احمد نے کہا کہ وقف کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے عبوری احکامات اور تبصرے تسلی بخش ہیں۔
مولانا شعیب احمد کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کو چیلنج کر کے فلسطین کو نقشے سے مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، چھوٹے بچوں کو بھوکا پیاسا مارا جا رہا ہے جو ظلم کی انتہا ہے۔ انہون نے کہا کہ ایسی صورتحال میں فلسطینیوں کے لئے خصوصی دعا کی جانی چاہیئے۔ ادھر سرینگر کی عیدگاہ میں نماز عید کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے بھی کہا کہ فلسطین میں جو مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے، اسے فوری طور پر بند ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج عید نماز کے دوران فلسطین کے لوگوں کی آزادی، بھلائی اور سلامتی کے لئے دعا کی ہے۔ انہوں نے کہا "ہم دعا کرتے ہیں کہ فلسطین جلد ہی اسرائیلی مظالم سے آزاد ہو"۔