ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ،مریضوں کی قوت خرید متاثر
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) کراچی میں دواؤں کی قیمتیں غریب مریضوں کی پہنچ سے دور ہوگئیں، گزشتہ سال دواؤں کی قیمتوں میں 3 سے 4 بار اضافہ کیا گیا۔ امراض قلب، نزلہ زکام، ذہنی دباؤ، ملٹی وٹامن، شوگر اور اینٹی الرجی سمیت روز مرہ میں استعمال ہونے والی ادویات کی قیمتوں میں 2023 ء کے مقابلے میں 2024ء میں 50 فیصد سے زاید اضافہ ہوا ہے، اس اضافے کے بعد مریضوں کی اکثریت نے ادویات روزانہ استعمال کے بجائے ایک 2 دن کے وقفے سے کھا رہے ہیں۔ پاکستان میں مجموعی طور پر 900 ادویات کی فارمولیشن رجسٹرڈ ہیں، ان میں 400 فارمولیشن جان بچانے والی
(Essential) جبکہ 500 فارمولیشن (Non-Essential) رجسٹرڈ ہیں۔ No-Essential ادویات کی قیمتوں کو ڈی کنٹرول کر دیا گیا جبکہ Essential ادویات پر سالانہ 7 فیصد تک اضافے کی اجازت ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں بیرون ملک سے منگوائے جانے والے ضروری انجکشن کی قلت برقرار ہے۔ ایلوپیتھی ادویات پر کوئی ٹیکس نہیں جبکہ Alternative (متبادل) ادویات پر 2024 سے 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عاید کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل عاصم جمیل صدیقی نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے Non-Essential ادویات کی قیمتوں کو ڈی کنٹرول کیے جانے کے بعد ان کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ Essential دواؤں پر سالانہ 7 فیصد اضافہ کی اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ادویات سمیت مختلف ویکسین کی قلت برقرار ہے جبکہ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ملٹی نیشنل فارما کمپنیوں کی قیمتیں مقامی فارما کمپنیوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ Non-Essential دواؤں کو ڈی کنٹرول کرنے کے بعد فارما کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں ازخود اضافہ کر دیا ہے اور یہ بات درست ہے کہ دوائیں عام مریضوں کی پہنچ سے دور ہو رہی ہیں۔ریسرچ رپورٹ کے مطابق بیشتر ادویات کی قیمتوں میں ایک سال کے دوران تین تین بار اضافہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے غریب مریضوں نے ادویات کا استعمال کم کر دیا ہے۔ہول سیل ادویات مارکیٹ کے زبیر وہاب نے بتایا کہ گزشتہ سال ادویات کی قیتموں میں مسلسل غیر اعلانیہ اضافہ ہو رہا ہے، گزشتہ سال ہر 15 دن بعد مختلف ادویات کی قیمتوں میں ہولناک اضافہ ہوا ہے اور ایسی بھی کئی ادویات ہیں جن کی قیمتوں میں ایک ماہ کے دوران 3 تین بار اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہر دوا کے پیکٹ پر 300 سے 400 روپے کا اضافہ ہوا ہے، کچھ ادویات کی قیمت میں 50 سے 75 فیصد نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ادویات کی قیمتوں میں مریضوں کی کر دیا
پڑھیں:
پاکستان سمیت بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں مسلسل اضافے کا رجحان
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )پاکستان سمیت بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور بین الاقوامی فنانشل ادارے رواں سال سونے کی قیمتیں مزید بڑھنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں پاکستان میں 24 قیراط ایک تولہ سونے کی قیمت تین لاکھ 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ عالمی منڈی میں فی اونس سونے کی قیمت 3300 ڈالر تک پہنچ گئی ہے.(جاری ہے)
پاکستان جیمز، جیولرز اینڈ مینو فکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد ارش جاوید نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے چین پر ٹیرف لگنے سے پہلے پاکستان میں سونے کی فی تولہ قیمت دو لاکھ 80 ہزار کے لگ بھگ تھی ان کا اندازہ ہے کہ جس طرح نرخ بڑھ رہا ہے تو پاکستان میں اس قیمتی دھات کی قیمت فی تولہ چار لاکھ روپے تک پہنچے کا امکان ہے. انہوں نے بتایا کہ ملک میںسونے کی خریداری میں 75 فیصد تک کمی آئی ہے شادیوں کے لیے زیادہ تر سونا خریدا جاتا ہے اور وہ بھی زیادہ گاہک پرانا سونا لا کر اس سے نئے ڈیزائن بنواتے ہیں محمد ارشد نے بتایا کہ جیولری سیکٹر میں کاروبار بالکل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور سونا مڈل کلاس لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہو گیا ہے جو سرمایہ کار تھے انہوں نے خریدا تو ہے لیکن اب نظر نہیں آرہے. اقتصادی امورکے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں سونے کی قیمت زیادہ بڑھتی ہے جس کی وجہ روپے کی دن بدن کم ہوتی ویلیو ہے چونکہ سونے کو آج بھی ”اصل کرنسی“قراردیا جاتا ہے لہذا انٹرنیشنل مارکیٹ میں سونے کی قیمت بڑھنے سے پاکستان جیسے کمزور معیشت والے ملکوں پر اس کے اثرات کرنسی کی ویلیو کے مطابق ہوتے ہیں . ان کا کہنا ہے کہ اسلامی ملک ہونے کے باوجود 76سالوں میں کسی بھی حکومت نے گولڈبیس معیشت پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج ملک معاشی بدحالی کا شکار ہے ‘ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکمران کلاس کا رویہ ہمیشہ تیل کی دولت سے مالامال عرب ملکوں کے بادشاہوں والا رہا ہے اور ملک میں زراعت سے لے کر صنعتوں تک تمام معاشی شعبوں کی ترقی کے لیے اقدامات نہیں کیئے گئے جس کے نتیجے میں تمام معاشی سیکٹرزوال پذیرہوتے گئے اور ملکی درآمدات میں برآمدت کے مقابلے میں اضافہ ہوتا رہا جس کے ساتھ معاشی خسارے میں بھی اضافہ ہوتا چلاگیا.