جسٹس منصور، جسٹس عائشہ اور جسٹس عقیل عباسی کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
—فائل فوٹو
بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ ہونے کا معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا۔
ذرائع کے مطابق جسٹس امین الدین خان کو بھی تینوں ججز کی جانب سے خط لکھا گیا ہے، جس میں بینچ کے اختیارات سے متعلق کیس کا ذکر کیا گیا ہے۔
خط کے متن کے مطابق جسٹس عقیل عباسی کو 16 جنوری کو بینچ میں شامل کیا گیا، وہ سندھ ہائی کورٹ میں کیس سن چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی اور ریگولر بینچز کے اختیارات کے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ایڈیشنل جوڈیشل رجسٹرار نذر عباس کو توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔
ذرائع کے مطابق خط میں 20 جنوری کو کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کی بھی شکایت کی گئی اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے 17 جنوری کے اجلاس کا بھی ذکر کیا گیا۔
جسٹس منصور نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ان کا نقطۂ نظر ریکارڈ پر موجود ہے۔
اپنے خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے کمیٹی اجلاس میں شرکت سے انکار کیا، انہوں نے کہا کہ ان کے آرڈر پر عمل کیا جائے۔
خط میں انہوں نے کہا کہ مجھے کمیٹی میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کمیٹی پہلے والا بینچ تشکیل دے کر 20 جنوری کو سماعت فکس کر سکتی تھی۔
جسٹس منصور نے خط میں کہا کہ کیس فکس نہ کرنا جوڈیشل آرڈر کو نہ ماننے کے مترادف ہے۔
انہوں نے خط میں اس معاملے کو توہینِ عدالت قرار دیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: کے اختیارات
پڑھیں:
مزاحمت کو غیر مسلح کرنا غزہ میں غیرقانونی صیہونی بستیوں کی تعمیر کا پیش خیمہ ہے، عدنان منصور
سابق وزیر خارجہ لبنان نے اعلان کیا ہے کہ مزاحمت کو غیر مسلح کرنا درحقیقت غزہ میں غیرقانونی اسرائیلی بستیوں کے قیام اور فلسطینی عوام کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنیکا مذموم منصوبہ ہے اسلام ٹائمز۔ لبنان کے سابق وزیر خارجہ عدنان منصور نے اعلان کیا ہے کہ سفاک اسرائیلی رژیم، غزہ میں جو کچھ کر رہی ہے وہ پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے انجام پانے والی ایک "اجتماعی نسل کشی" ہے۔ عدنان منصور نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی و تجارتی تعلقات منقطع کرنے میں "اکابر" اسلامی ممالک کی ناکامی نے ہی اسرائیلی قابضوں کو غزہ میں اپنے گھناؤنے جنگی جرائم جاری رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یورپی ممالک کسی بھی قسم کی روک ٹوک یا پابندیاں عائد کئے بغیر ہی غزہ میں جنگ کے خاتمے کا محض "مطالبہ" کرتے آ رہے ہیں، سابق لبنانی وزیر خارجہ نے الاقصی نیٹ ورک کو بتایا کہ امریکہ بھی غزہ میں انجام پانے والی وسیع نسل کشی سے انکاری ہے۔
عدنان منصور نے غزہ کی پٹی میں بھوک سے جان دے دینے والے بچوں کی تصاویر کو المناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مصری عوام فلسطینی کاز پر یقین رکھنے والے اصیل لوگ ہیں لیکن اگر اس ملک کی حکومت، قابض صیہونیوں کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کی سطح کو کم کرنے کی صرف دھمکی ہی دے دیتی تب بھی یہ کارگر ثابت ہوسکتی تھی۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عرب ممالک کو غزہ کے خلاف جاری غیر انسانی جارحیت کو روکنے کے لئے متفقہ فیصلہ و موقف اختیار کرنا چاہیئے تھا، انہوں نے کہا کہ عرب لیگ نے اس سلسلے میں اب تک کچھ کیا ہی نہیں!
لبنان کے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ مزاحمت سے اسلحہ رکھوانے پر مبنی منصوبہ در حقیقت غزہ میں غیر قانونی یہودی بستیوں کے قیام اور وہاں کے باشندوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنے کا پیش خیمہ ہو گا۔ انہوں نے تاکید کی کہ اسرائیل ایک قابض رژیم ہے کہ جو مزاحمت کو غیر مسلح کرنا اور فلسطینی عوام پر ایسی ہی مزید کارروائیاں مسلط کرنا چاہتی ہے جو اب تک متعدد بار انجام دی گئی ہیں جبکہ قانونی اعتبار سے، قبضے کے تحت موجود ہر قوم کو، مزاحمت اور اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ بیان کرتے ہوئے کہ امریکہ کسی بھی ملک کو دو ریاستی حل پر عملدرآمد نہیں کرنے دے گا، عدنان منصور نے تاکید کی کہ فلسطین کے اردگرد موجود ممالک کو اپنی اقتصادی و سیاسی طاقت کے ذریعے موثر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ سابق لبنانی وزیر خارجہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے اپنے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری پر بھی اکتفاء نہیں کیا بلکہ وہ درحقیقت عرب ممالک کی سرزمین سے متعلق اپنی حرص کو مزید آگے بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناجائز قبضے کے چنگل میں پھنس جانے والی کوئی بھی قوم؛ یا تو ذلت کا شکار ہو کر ہتھیار ڈال دیتی ہے یا پھر مزاحمت کے ذریعے اپنا دفاع کرتی ہے۔ اپنی گفتگو کے آخر میں عدنان منصور کا مزید کہنا تھا کہ کچھ ذلت کے ساتھ گھٹنے ٹیک کر مارے جاتے ہیں جبکہ بعض عزت و وقار کی موت اور اپنی مقبوضہ سرزمین کی آزادی کے خواہاں ہوتے ہیں!