Al Qamar Online:
2025-06-09@21:01:19 GMT

امریکی صدارتی نظام میں ایگزیکٹو آرڈرز کی کیا اہمیت ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT

امریکی صدارتی نظام میں ایگزیکٹو آرڈرز کی کیا اہمیت ہے؟

ویب ڈیسک — 

اپنے اقتدار کے پہلے روز ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنا امریکی صدور کی ایک روایت ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر ایک ایسا حکم نامہ ہوتا ہے جسے جاری کرنے کے لیے صدر کو کانگریس کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔ تاہم اس صدارتی حکم نامے کی بھی حدود ہیں۔

آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ایگزیکٹو آرڈر کس طرح جاری ہوتے ہیں، ان میں کتنی قوت ہوتی ہے، ان کی حدود کیا ہیں اور آیا یہ احکامات غیر مؤثر بھی کیے جا سکتے ہیں۔

ایگزیکٹو آرڈرز کیا ہوتے ہیں؟

بنیادی طور پر ایگزیکٹو آرڈر صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک ایسی دستاویز ہےجو یہ ظاہر کرتی ہے کہ صدر کس طرح وفاقی حکومت کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ ایگزیکٹو آرڈر وفاقی ایجنسیوں کے لیے ہدایات ہوتی ہیں کہ انہیں کیا کارروائی کرنی ہے یا انہیں کیا رپورٹس حاصل کرنی ہے۔

صدر ٹرمپ اپنے پہلے عہدے کی مدت کی دوران وائٹ ہاؤس میں ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

بعض ایگزیکٹو آرڈر قابل اعتراض بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرسمس کے اگلے روز وفاقی ملازمین کو چھٹی دے دینا۔ اسی طرح ایگزیکٹو آرڈرکسی بڑی اور اہم پالیسی کی بنیاد بن سکتے ہیں، جس کی ایک حالیہ مثال سابق صدر بائیڈن کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے بارے میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کا اجرا ہے۔ اس حکم نامے میں اس کے استعمال پر مؤثر نگرانی کے لیے قواعد و ضوابط بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔

ایگزیکٹو آرڈر کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں

امریکی آئین کے تحت قوانین کانگریس کے ایوان منظوری کے بعد حتمی دستخطوں کے لئے صدر کے بھیجتے ہیں اور دستخط ہونے کے بعد وہ قانون کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ جب کہ ایگزیکٹو آرڈر صدر براہ راست جاری کرتا ہے۔

امریکن بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر کو کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے اور قانون ساز اسے براہ راست رد نہیں کر سکتے، لیکن کانگریس کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کے طریقے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کے لیے اس کی فنڈنگ روک سکتی ہے یا کچھ اور رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے، جس سے ایگزیکٹو آرڈر پر کارروائی عملی طور پر رک جاتی ہے۔

ایگزیکٹو آرڈرز کا اجرا کتنا عام ہے

سینٹاباربرا میں قائم کیلی فورنیا یونیورسٹی کے امریکن پریذیڈنسی پراجیکٹ کے لیے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکی تاریخ میں اب تک کئی ہزار ایگزیکٹو آرڈر جاری ہو چکے ہیں۔ چند صدور کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد یہ ہے۔




جارج واشنگٹن نے 8 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے تھے۔

جب کہ فرینکلین روز ویلٹ کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد 3721 تھی۔

حالیہ دور میں سابق صدر بائیڈن نے اپنے عہدے کی مدت کے دوران 160 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔

جب کہ صدر ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے دن 100 سے زیادہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کریں گے۔






Photo Gallery:

تصاویر: ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری

ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری، میکسیکو کی سرحد کے کنٹرول کو سخت بنانے، توانائی کے حصول کو ترقی دینے، وفاقی کارکنوں کے لیے قوانین اور صنفی پالیسیاں وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے ٹک ٹاک کو فروخت کے لیے مزید وقت دینے کے لیے بھی ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کون روک سکتا ہے

کانگریس اور عدالت دونوں کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کی طاقت موجود ہے۔




مثال کے طور پر کانگریس نے 1992 میں اس وقت کے صدر جارج ایچ بش کے سائنسی تحقیق کے لیے انسانی جنین کے ٹشوزکے لیے ایک بینک کے قیام کو یہ اقدام منظور کر کے غیر مؤثر بنا دیا تھا کہ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہو گا۔

اس کے علاوہ کانگریس ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کے لیے درکار فنڈنگ روک کر یا وفاقی ایجنسیوں کو ایگزیکٹو آرڈر پر عمل نہ کرنے کا کہہ کر اسے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔

عدالت کے ذریعے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرمؤثر بنانے کا ایک واقعہ صدر ہیری ٹرومین کے دور میں پیش آیا جب انہوں نے کوریائی جنگ کے دوران ایک اسٹیل مل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکہ کی سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ صدر کے پاس کانگریس کی منظوری کے بغیر نجی جائیداد قبضے میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔

(اس رپورٹ کی تفصیلات اے پی سے لی گئیں ہیں)

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ایگزیکٹو آرڈر پر عمل ایگزیکٹو آرڈرز کی ایگزیکٹو آرڈر کو کانگریس کی کے لیے

پڑھیں:

کولمبیا کے صدارتی امیدوار انتخابی مہم کے دوران فائرنگ سے شدید زخمی، حالت نازک

کولمبیا کے معروف دائیں بازو کے صدارتی امیدوار اور سینیٹر میگوئل یوریب ہفتے کے روز ایک انتخابی جلسے کے دوران گولی لگنے سے شدید زخمی ہو گئے۔ حکام کے مطابق یوریب کو تین گولیاں لگیں جن میں سے دو سر پر اور ایک گھٹنے پر ماری گئی۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 39 سالہ میگوئل یوریب دارالحکومت بوگوٹا میں اپنے حامیوں سے خطاب کر رہے تھے۔ جائے وقوعہ پر لی گئی تصاویر میں انہیں خون میں لت پت ایک سفید گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے دکھایا گیا، جب کہ لوگوں کا ایک گروپ انہیں سہارا دے کر خون روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔

حفاظتی عملے نے حملہ آور کو قابو میں کر لیا، جو کہ ایک 15 سالہ لڑکا بتایا جا رہا ہے۔

 https://Twitter.com/jesusra25547629/status/1931530170717909445

یوریب کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوری طور پر سانتا فے کلینک منتقل کیا گیا، جہاں اسپتال حکام نے بتایا کہ وہ انتہائی نازک حالت میں نیورو سرجری اور ویسکیولر آپریشن سے گزر رہے ہیں۔

ان کی اہلیہ نے ان کے ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر پیغام جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس وقت وہ زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔”

پولیس ڈائریکٹر کارلوس فرناندو تریانا کے مطابق حملہ آور زخمی ہو گیا تھا اور اس کا علاج جاری ہے۔ فائرنگ میں ایک مرد اور ایک خاتون شہری بھی زخمی ہوئے، جبکہ موقع سے گلاک طرز کا ایک پستول برآمد کر لیا گیا۔

جمہوریت پر حملہ

اس حملے کی مذمت سیاسی حلقوں سمیت بین الاقوامی سطح پر بھی کی جا رہی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسے “جمہوریت پر براہِ راست حملہ” قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ یہ واقعہ کولمبیا کی بائیں بازو کی حکومت کی اشتعال انگیز زبان کا نتیجہ ہے۔

صدر گوستاوو پیٹرو نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا: “یہ صرف ایک شخص پر حملہ نہیں بلکہ آزادیِ اظہار، جمہوریت اور سیاسی سرگرمیوں پر حملہ ہے۔”

کولمبیا کی وزارت دفاع نے واقعے کی مکمل تحقیقات اور ذمہ داروں کی تلاش کے لیے سیکیورٹی اور انٹیلیجنس اداروں کو متحرک کر دیا ہے، وزیر دفاع پیڈرو سانچیز نے ملزمان کی معلومات دینے پر 7 لاکھ 25 ہزار امریکی ڈالر انعام کا اعلان کیا ہے۔

سیاسی وراثت

میگوئل یوریب، جو کہ 2026 کے صدارتی انتخابات کے امیدوار ہیں، دائیں بازو کی ڈیموکریٹک سینٹر پارٹی کے رکن ہیں اور صدر پیٹرو کے سخت ناقد سمجھے جاتے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ یوریب کو پہلے سے کوئی براہِ راست دھمکی نہیں ملی تھی، تاہم ان کے ساتھ نجی سیکیورٹی موجود تھی۔ کولمبیا میں سیاسی تشدد، منشیات مافیا اور باغی گروہوں کی وجہ سے پبلک شخصیات کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔

میگوئل یوریب معروف صحافی ڈیانا ٹر بے کے بیٹے ہیں، جنہیں میڈیئن کارٹیل نے اغوا کے بعد قتل کر دیا تھا۔ ان کے نانا، خولیو سیزرٹر بے، 1978 سے 1982 تک کولمبیا کے صدر رہ چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سانتا فے شدید زخمی صدارتی امیدوار فائرنگ کولمبیا میگوئل یوریب نازک

متعلقہ مضامین

  • مودی نے گزشتہ 11 برسوں میں بھارت کی جمہوریت، معیشت اور سماجی تانے بانے کو تباہ کیا، کانگریس
  • امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری
  • سبزی خور بنیں، بیماریوں سے بچیں: ماہرین صحت کی تحقیق نے سبزیوں کی اہمیت اجاگر کر دی
  • امریکا کا دورہ مکمل، پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
  • کولمبیا کے صدارتی امیدوار انتخابی مہم کے دوران فائرنگ سے شدید زخمی، حالت نازک
  • کولمبیا میں صدارتی امیدوار پر قاتلانہ حملہ، حالت تشویشناک
  • امریکا کا دورہ مکمل: پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • پاکستانی سفارتی وفد امریکا سے برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • وزیر مملکت بلال بن ثاقب کی ایلون مسک کے والد سے ملاقات