ڈبلیو ایچ او اور پیرس معاہدہ چھوڑنے کے امریکی فیصلے پر اظہار افسوس
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 جنوری 2025ء) اقوام متحدہ نے امریکہ کے صدر ٹرمپ کی جانب سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رکنیت اور پیرس موسمیاتی معاہدے سے دستبرداری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے صحت عامہ پر منفی اثرات ہوں گے اور عالمی حدت میں کمی لانے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
'ڈبلیو ایچ او' کے ترجمان طارق جاساروک نے کہا ہے کہ امریکی شہریوں سمیت دنیا بھر کے لوگوں کی صحت کے تحفظ، مضبوط طبی نظام قائم کرنے اور وباؤں سمیت ہنگامی طبی حالات کی نشاندہی، انہیں روکنے اور ان پر قابو پانے میں 'ڈبلیو ایچ او' کا اہم کردار ہے۔
ادارہ بہت سے ایسے مشکل علاقوں میں بھی ضروری طبی اقدامات کرتا ہے جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔ Tweet URL'ڈبلیو ایچ او' کو سب سے زیادہ مالی وسائل امریکہ سے ہی موصول ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
2023 میں اس کے مجموعی بجٹ میں امریکہ کا حصہ 18 فیصد تھا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ادارہ امریکی صدر کے فیصلے کا تجزیہ کر کے اس پر مزید بات کرے گا۔فیصلہ واپس لینے کا مطالبہامریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد متعدد انتظامی احکامات (ایگزیکٹو آرڈر) جاری کیے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکہ آئندہ 12 ماہ میں 'ڈبلیو ایچ او' کی رکنیت چھوڑ دے گا۔
ترجمان نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ کی حکومت اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔امریکہ نے 1948 میں کانگرس کے دونوں ایوانوں کی منظور کردہ متفقہ قرارداد کے ذریعے 'ڈبلیو ایچ او' میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس قرارداد کے تحت ملک کے لیے ادارے کی رکنیت چھوڑنے سے ایک سال قبل اس فیصلے کا اعلان کرنا ضروری ہے۔
قبل ازیں صدر ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران 2020 میں بھی امریکہ نے 'ڈبلیو ایچ او' سے علیحدگی اختیار کر لی تھی لیکن ان کے بعد آنے والے صدر جو بائیڈن نے یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔
امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے 'ڈبلیو ایچ او' کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگوں کی عمر، صحت اور خوشی میں اضافہ اسی ادارے کا مرہون منت ہے۔ 'ڈبلیو ایچ او' کی غزہ، یمن، افغانستان اور سوڈان جیسی مشکل جگہوں تک بھی رسائی ہے اور یہ ادارہ بین الاقوامی امدادی نظام کا لازمی جزو ہے۔
موسمیاتی معاہدے کی اہمیتعالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کی ترجمان کلیئر نولیس نے 2015 کے پیرس موسمیاتی معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کے حالیہ فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ممالک کے لیے اس معاہدے پر عمل کرنا ضروری ہے۔
دنیا کو بدترین موسمیاتی بحران کا سامنا ہے جس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ 2024 تاریخ کا گرم ترین سال تھا جس دوران عالمی حدت میں اضافہ قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.55 ڈگری سیلسیئس زیادہ رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ خود امریکہ کو موسمی شدت کے واقعات اور آبی حوادث سے بہت بڑے پیمانے پر معاشی نقصان کا سامنا ہے اور حالیہ دنوں لاس اینجلس کے جنگلوں میں لگنے والی آگ اس کی نمایاں مثال ہے۔
1980 کے بعد امریکہ نے 403 موسمیاتی آفات جھیلی ہیں جن کے نتیجے میں اسے 2.915 ٹریلین ڈالر سے زیادہ معاشی نقصان ہوا۔
امریکہ کے قائدانہ کردار کی ضرورتاقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے نتیجے میں جس تبدیلی کا تصور کیا گیا تھا وہ پہلے ہی جاری ہے۔ دنیا میں قابل تجدید توانائی کا انقلاب آ چکا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر روزگار پیدا ہو رہے ہیں اور خوشحالی آ رہی ہے۔
سیکرٹری جنرل کو یقین ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ امریکہ میں بھی شہر، ریاستیں اور کاروبار کاربن سے پاک مستحکم معاشی ترقی کے لیے کوشاں رہیں گے جس سے رواں صدی میں خوشحالی لانے کے لیے معیاری کاروباری منڈیاں اور روزگار تخلیق ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی مسائل کو حل کرنے کی جدوجہد میں امریکہ کا قائدانہ کردار بہت اہم ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایچ او کے لیے
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!