ڈیجیٹل دُنیا اور ہمارے بچے بچیاں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اپنے بچوں کیلئے ایک اچھا آن لائن رول ماڈل بنیں۔ بچے بچیوں کیساتھ باہمی اعتماد بڑھائیں اور اعتماد پیدا کریں اور کھل کر بات چیت کریں۔ اپنے بچے بچیوں کو انکے آن لائن منفی تجربات کیلئے مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔ آن لائن نامناسب سلوک کی صورت میں اپنے بچے بچیوں کو شناخت کرنے اور ریسپانس کا طریقہ بتائیں۔ گھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کے أصول باہمی مشورے سے بنائیں۔ بچے بچیوں میں تنقیدی سوچ پیدا ہونے کی حوصلہ افزائی کریں۔ بچے بچیوں کو آن لائن اور آف لائن رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے بچوں کو آن لائن محفوظ رکھنے کیلئے دستیاب تکنیکی ٹولز کا استعمال کریں۔ اپنے بچے بچیوں کو اپنے ہم عمروں اور دوستوں کے دباو کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کریں۔ تحریر: سید انجم رضا
ماہر عمرانیات کرہ ارض پر انسانی سماج اور معاشرے کے ارتقائی سفر کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں، ابتدائی انسانی زندگی غار اور شکار کا دور کہا جاتا ہے، جہاں انسان صرف مرد و عورت کے جوڑوں کی صورت میں زندگی گزارتا تھا، اولاد پیدا ہونے اور افراد بڑھ جانے کے کے بعد باقاعدہ خاندان، قبیلے، گروہ، برادری جیسے ادارے تشکیل پانے لگے اور انسان نے شکار کے ساتھ اناج، پھل، سبزیوں کو بھی بطور خوراک استعمال کرنا شروع کیا تو اب "زرعی دور" شروع ہوگیا، اس دور میں انسان نے بڑی بڑی بستیاں بسانی شروع کر دی اور باقاعدہ منظم مملکت، ریاست، آئین قانون کی تشکیل شروع کر دی اور ان قوانین اور ضابطوں کے تحت زندگی بسر ہونے لگی۔ پہیے کی ایجاد کو انسانی معاشرتی زندگی بنیادی سب سے بڑی ایجاد سمجھا جاتا ہے، جس نے انسانی معاشرے کی بہتری میں بہت اہم کردار ادا کیا اور یہ سب دور سینہ گزٹ، نسل در نسل علم و حکمت کی منتقلی کا دور تھا، انسان تصویریں بناتا بناتا تحریر کے فن کو بھی ایجاد کرچکا تھا اور اپنے حساب کتاب کو منضبط کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے ضابطوں، قوانین کو تحریر کی شکل مین محفوط کرنے کے مقام تک پہنچ چکا تھا۔
پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور کارخانہ داری یعنی صنعتی ترقی نے انسانی معاشرے کے رہن سہن کو ایک نیا رخ اور نیا انداز ادا کر دیا، اب انسانی معاشرتی ترقی سفر تیز تر ہوچکا تھا۔ انسانی معاشرے کا سب سے بڑا حُسن ہے کہ وہ اپنی اقدار، عقائد، روایات کے نام پر معاشرے کو جوڑ کر مضبوط رکھتا ہے۔ انسانی معاشرے کی ترقی میں رابطہ کاری، ایک دوسرے سے جڑے رہنا بھی بہت لازمی امر ہے۔ انسان نے اپنا مافی الضمیر، اپنے جذبات، اپنے خیالات، اپنے نظریات و عقائد کی ترسیل و ابلاغ کے لئے روز بروز نئی سے نئی اختراعات کی ہیں۔ زرعی دور سے صنعتی دور تک کا سفر انسانی معاشرے کی وہ اُڑان ہے، جس نے حضرت انسان کے سامنے کائنات کے سب راز کھول کر رکھ دیئے ہیں۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، انٹرنیٹ کی ترقی کا سفر بہت سُرعت اور تیزی ہو رہا ہے، انسانی معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا دخیل انٹرنیٹ کا استعمال بن چکا ہے۔
فی زمانہ انسانی ادوار کی اس تقسیم میں "ڈیجٹل دور" کرہ ارض پر انسانی معاشرے کے ہر مسئلے کا حل بن چُکا ہے۔ انسانی معاشرہ انٹرنیٹ کے ذریعے، فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ اور انسٹا گرام جیسی ورچوئل دُنیا کا سماج بن چُکا ہے۔ کرونا جیسی آفت میں انٹرنیٹ نے انسانی معاشرے کی معمول کی زندگی کے سفر کو برقرار بھی رکھا بلکہ زندگی بسر کرنے کے نئے سے نئے طریقوں سے متعارف کروا دیا۔ آن لائن بزنس، آن لائن تعلیم، آن لائن میٹنگز، آن لائن گیمز، آن لائن کنسٹلٹینسی، غرض بہت سے منافع بخش کام جن کے لئے زیادہ افرادی قوت، وسائل اور وقت درکار ہوتا تھا، انٹرنیٹ کے ذریعے جھٹ پٹ اور ارزاں اور کم وقت میں مکمل ہونے لگے ہر بدلتے ہوئے دور میں نئے پیداواری رشتوں کے ساتھ انسانی معاشرے کو نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔
آج دنیا کے 5 ارب کے قریب افراد انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں اور آج کل کے جدید دور میں ہر گھر میں ہر کسی کی انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہے، ہر کسی کے پاس گھروں میں لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور اسمارٹ فونز موجود ہیں۔ ایسی صورتحال میں بچوں کو ان چیزوں سے دور رکھنا ممکن نہیں ہے۔ ڈیجیٹل دنیا میں انٹرنیٹ پر تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ بھی آسانی سے میسر ہے، اور یہ سب کچھ۔ کیا ہمارے بچے بچیوں کی ضرورت ہے؟ کیا ان کے لئے فائدہ مند ہے؟ یا ان کے لئے مضر اور نقصان دہ ہے۔؟ ہمارے بچے بچیاں اپنی تفریح اور ایجوکیشن کے لیے ان لائن رابطوں میں رہنے لگے ہیں اور اکثر سوشل میڈیا کے مختلف ایپس کا استعمال بھی کرتے ہیں، اس وقت بچوں کو نہیں پتہ ہوتا کہ وہ کس سے بات کر رہے ہیں اور اس ویڈیو کے دیکھنے کے بعد سکرین پر کیا نظر آنے والا ہے۔ بعض اوقات بچے اپنی ذاتی معلومات شیئر کر دیتے ہیں، جس سے ان کو بہت سے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلاً سائبر بلنگ، نازیبا تصاویر اور ذاتی تصاویر کا اپڈیٹ کرکے ان کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا بلیک میلنگ فیک اکاؤنٹ وغیرہ۔
والدین کو کیا کرنا چاہیئے؟
والدین اپنی معاشی اور سماجی مصروفیات و سرگرمیوں کی بنا پر ہر وقت اپنے بچے بچیوں پہ نظر بھی نہیں رکھ سکتے۔ ایسے میں والدین کے لئے ضروری ہے کہ کم از کم آن لائن تحفظ کے بارے میں خود بھی باخبر ہوں اور اپنے بچے بچیوں کو بھی آن لائن سیفٹی کے طریقوں سے آگاہ کریں۔ اس کے لئے سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ والدین اپنے بچے بچیوں کے ساتھ باہمی اعتماد اور پیار کا رشتہ مضبوط کریں، والدین کا اپنے بچے بچیوں کے ساتھ اعتماد کا تعلق قائم کرنا اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر گفتگو، بحث مباحثہ کرنا بہت ضروری ہے۔ والدین اپنے بچے بچیوں سے بات کریں اور انہیں سمجھانے کی کوشش کریں کہ کونسی معلومات ان کے لئے بہتر ہیں اور کونسی نہیں۔
جیسے بچوں کو سائبر بولنگ وغیرہ کے بارے میں سمجھائیں، بچوں کو انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے استعمال کی صحیح معلومات دیں اور بچوں کو آن لائن سیفٹی کے طریقوں کے بارے میں آگاہ کریں۔ اسی طرح "پیرینٹل کنٹرول“ بچے بچیوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اس کے ذریعے والدین اپنے بچے بچیوں کے لئے اپنے کمپیوٹر کو محفوظ بنا سکتے ہیں اور وہ مواد جو بچے بچیوں کے لئے صحیح نہیں ہے، اسے بلاک کرنا، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے استعمال کا وقت یعنی اسکرین ٹائم طے کرنا اور انٹرنیٹ سرچ کو بچوں کے حق میں بنانا۔ ”پیرینٹل کنٹرول“ کے ذریعے آپ یہ سب کچھ آسانی سے کرسکتے ہیں۔ یوٹیوب دُنیا بھر میں پاپولر ترین اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والی وڈیو لائیبریری ہے، یوٹیوب میں ایک سیکنڈ میں کئی ہزار وڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں اور دیکھی جاتی ہیں، جس میں بہت سے وڈیوز بچے بچیوں کے لئے انتہائی غیر مناسب ہوسکتی ہیں۔
یوٹیوب کے غیر مناسب کانٹینٹ سے اپنے بچے بچیوں کو بچانے کے لئے والدین کو یوٹیوب سیفٹی موڈ کے بارے میں جاننا ضروری ہے، یہ غیر ضروری کانٹینٹ کو سرچ سے ہٹا دیتا ہے۔ یہ ویڈیو فلٹر ہوتا ہے، جو ایسے ویڈیو کو سرچ نہیں کرنے دیتا جس میں قابل اعتراض کانٹینٹ یا کمنٹ ہوتے ہیں، یہ آپ کے بریو براؤزر پر ایکٹیو کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آن لائن گیمز اپلی کیشنز میں بھی بہت زیادہ قابلَ اعتراض کانٹینٹ موجود ہوتا ہے، جو بچے بچیوں کی ذہنی عمر سے مطابقت بھی نہیں رکھتا اور بعض أوقات بچے بچیوں ذہنی و نفسیاتی امراض کا اسیر بنا دیتا ہے۔
ضروری ہے کہ والدین!!!!!!!!!!!
اپنے بچوں کے لیے ایک اچھا آن لائن رول ماڈل بنیں۔ بچے بچیوں کے ساتھ باہمی اعتماد بڑھائیں اور اعتماد پیدا کریں اور کھل کر بات چیت کریں۔ اپنے بچے بچیوں کو ان کے آن لائن منفی تجربات کے لیے مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔ آن لائن نامناسب سلوک کی صورت میں اپنے بچے بچیوں کو شناخت کرنے اور ریسپانس کا طریقہ بتائیں۔ گھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کے أصول باہمی مشورے سے بنائیں۔ بچے بچیوں میں تنقیدی سوچ پیدا ہونے کی حوصلہ افزائی کریں۔ بچے بچیوں کو آن لائن اور آف لائن رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے بچوں کو آن لائن محفوظ رکھنے کے لیے دستیاب تکنیکی ٹولز کا استعمال کریں۔ اپنے بچے بچیوں کو اپنے ہم عمروں اور دوستوں کے دباو کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ عطا کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی حوصلہ افزائی کریں انسانی معاشرے کی میں انٹرنیٹ کے بارے میں استعمال کر کا استعمال کو آن لائن اپنے بچوں ضروری ہے کے ذریعے ہیں اور کرنے کے بچوں کو کے ساتھ کے لیے اور ان
پڑھیں:
صفائی میں انقلاب: کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کا عیدقرباں پر آلائشیں اٹھانے کا ڈیجیٹل نظام متعارف
کراچی:کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن نے پہلی مرتبہ قربانی کی آلائشوں کو اٹھانے کی نگرانی ڈیجیٹل کنٹرول روم کے ذریعے کی،گراونڈ پر موجود تمام ہیوی مشینری و گاڑیوں کی نقل و حرکت لائیو ٹریکنگ کے ذریعےکی گئی جبکہ قربانی کے لیے مختص 17کیمپس کو سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے کنٹرول روم سے منسلک کیاگیا۔
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کی جانب سے رواں سال عید الضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کو ٹرنچنگ سائٹس تک پہنچانے کے لیے اضافی اقدامات کے علاوہ ڈیجیٹل کنٹرول روم کا قیام عمل میں لایاگیا، جس کے ذریعے گوگل میپ اور گاڑیوں میں نصب ٹریکنگ سسٹم کے ذریعےجانوروں کی آلائشوں کو اٹھانے اور انھیں ٹرنچنگ پوائٹس تک پہنچانے کے تمام عمل کی نگرانی کی گئی، جانوروں کے ذبح کےعمل کو سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ڈیجیٹل کنٹرول روم میں دیکھا گیا۔
سی بی سی کے مینجر آئی ٹی و کنٹرول روم کے ہیڈ سعد مشتاق کے مطابق آلائشوں کو جدید طریقے سے گھروں سے اٹھاکر انھیں ٹرنچنگ یا لینڈفل سائٹس تک پہنچانے کے اس نظام کو سی بی سی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عمرفاروق ملک کی جانب سے متعارف کروایا گیا،جس میں 2ماہ سے کام جاری تھا۔
عیدقرباں پر یہ تجربہ انتہائی مفید رہاکیونکہ اس کے ذریعے کسی بھی کمپلینٹ کو حل کرنے کا وقت 10سے 15 منٹ جبکہ کم سے کم وقت 5منٹ لگا، ڈیجیٹل کنٹرول روم میں مختلف شفٹوں میں عملے نے کام کیا،ان کا کہنا ہےکہ گزشتہ سال یا اس پہلے کے برسوں میں آلائشیں اٹھانے کےکام میں کمپلنٹس کی شرح 1500کے لگ بھگ ہوا کرتی تھیں، مگر اس سسٹم کے ذریعے کمپلینٹس کی تعداد کو 300 پر لایا گیا۔
سعد مشتاق کےمطابق اس تمام ترعمل کے دوران سابقہ ڈیٹا سے بھی کام لیاگیا کہ اس وقت کن کن علاقوں میں زیادہ پیچیدہ صورتحال ہوا کرتی تھی،ڈیجیٹل کنٹرول روم صرف عید قرباں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کواب پورے سال فعال رکھاجائےگا تاکہ شہریوں کے کوڑا کرکٹ،گٹر کے ڈھکن، سڑکوں پر پڑنے والے گڑھوں اور اسٹریٹ لائٹس سمیت دیگر مسائل کا فوری حل تلاش کیاجاسکے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اس سسٹم کومزید موثربنانے کے لیےاس کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے منسلک کیاجائےگا تاکہ اس میں کم سے کم انسانی عمل دخل ہو اور یہ نظام خودکار طریقے سےکام کرتا رہے۔
ایگزیکٹو آفیسر سی بی سی عمرفاروق ملک کا کہنا ہے کہ عید الضحیٰ پراس بات کو یقینی بنایا گیا کہ علاقے میں صفائی،آلائشوں کے محفوظ اور بروقت تلفی کے ذریعے رہائشیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جاسکے، عید قرباں کے تینوں دن جاری رہنے والی خصوصی صفائی آپریشن کے دوران 160 گاڑیوں کا استعمال کیا گیاجبکہ 1200 سے زائد کنٹونمنٹ اہلکاروں نےشب و روز خدمات انجام دیں تاکہ علاقےکو صاف،محفوظ اور تعفن سے پاک رکھا جا سکے۔
قربانی کی سہولت کو منظم اور آسان بنانے کے لیے سی بی سی نے مختلف علاقوں میں قربانی کےخصوصی کیمپس قائم کیے،ان علاقوں میں ڈی ایچ اے فیز1، 2، 2 ایکسٹینشن،فیز 4، فیز 6، فیز 7، 7 ایکسٹینشن،کمرشل ایونیو تا خیابان شجاعت،زمزمہ ایریا تا خیابان طارق،فیز5،خیابان شجاعت تا سی ویو اپارٹمنٹس،فیز 8، کلفٹن بلاک 8 اور9کے علاقےشامل تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ان اقدامات کا مقصد شہریوں کو محفوظ،سہل اور شرعی طریقے سے قربانی کی سہولت فراہم کرنا تھا،جانوروں کی قربانی صرف گھریلو حدود یا سی بی سی کے قائم کردہ کیمپس میں کی جانے کی اجازت تھی،کھلے میدانوں یا سڑکوں پر قربانی کرنا سختی سے ممنوع تھا،یہ اقدامات صحت و صفائی،شہری نظم و ضبطاورمذہبی شعائر کی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے۔
محمد عمر فاروق علی ملک نے کہا کہ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہے اور شہریوں کے تعاون کا تہہ دل سے شکر گزار ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن مستقبل میں بھی اپنی خدمات کو مزید بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔