غربت اور والدین کے سخت رویے سے بچوں کے جرائم پیشہ ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
ایک منفرد سماجی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ غربت، محرومی، والدین کے سخت رویے یا والدین کے ذہنی مسائل کے ساتھ پرورش پانے والے افراد کم عمری میں ہی پرتشدد رویے کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔
طبی تحقیقاتی جریدے میں شائع رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچپن میں مسلسل غربت اور والدین کی ذہنی بیماری سے بچوں کے 17 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے پر تشدد رجحان یا ہتھیار اٹھانے کے خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔محققین کے مطابق دنیا بھر میں نوجوانوں کا جرائم یا پر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہونا عام ہے۔ماہرین نے 2020 میں برطانیہ اور ویلز میں کرمنل نظام انصاف کے تحت پہلی بار104,400 مجرموں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا، جن میں سے 11فیصد کی عمریں 10 سے 17 کے درمیان تھیں۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر جرائم پیشہ عناصر میں ملوث بچے وہ تھے جنہیں 14 سال کی عمر تک خاندانی مشکلات اورغربت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ماہرین کے مطابق بچوں کے 17 سال کی عمر پر پہنچنے کے بعد یہ نتائج اخذ کیے گئے کہ بچپن میں غربت اور خاندانی مشکلات کا سامنا کرنے والے بچوں کے نوجوانی میں پر تشدد کارروائیوں یا جرائم پیشہ واقعات میں ملوث ہونے کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ بچپن میں غربت کے شکار بچوں میں سے 10 میں سے ایک بچے نے ہتھیاروں کا استعمال کیا، جب کہ ایک میں سے چار بچوں نے بتایا کہ ان کا سامنا پولیس سے بھی ہوا۔ماہرین نے کہا کہ بچوں کا جرائم پیشہ عناصر کی جانب راغب ہونا یا جرائم کرنے کا تعلق بچپن میں ان کی جانب سے غربت، محرومی، والدین کے تلخ رویوں اور والدین کی ذہنی بیماریوں کے سامنے کرنے سے ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جرائم پیشہ والدین کے بچپن میں بچوں کے
پڑھیں:
سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل،ہزاروں افراد محصور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-01-25
خرطوم (مانیٹرنگ ڈیسک) سوڈان میں والدین کے سامنے سیکڑوں بچے قتل کو قتل کردیا گیا‘ ہزاروں افراد محصور ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات ہوئے۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زاید افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن ہزاروں اب بھی محصور ہیں۔ جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو “قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سیکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زاید ہلاکتیں ہوئی ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام آخری اطلاعات تک جاری تھا۔سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زاید افراد بے گھر اور ہزاروں ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔یہ واقعات پانچ دن بعد پیش آ رہے ہیں جب ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے الفاشر پر قبضہ کر لیا تھا۔اپریل 2023 سے سوڈانی فوج کے ساتھ جاری جنگ کے دوران آر ایس ایف نے 18 ماہ کے محاصرے کے بعد بالآخر دارفور کے اس آخری فوجی گڑھ پر قبضہ کر لیا۔ کئی عینی شاہدین کے مطابق تقریباً 500 شہریوں اور فوج کے ساتھ منسلک اہلکاروں نے اتوار کے روز فرار کی کوشش کی مگر زیادہ تر کو آر ایس ایف اور اس کے اتحادیوں نے قتل یا گرفتار کر لیا۔رپورٹس کے مطابق دارفور میں زیادہ تر غیر عرب نسلوں کے لوگ آباد ہیں، جو سوڈان کے غالب عرب باشندوں سے مختلف ہیں۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق آر ایس ایف کو متحدہ عرب امارات سے ہتھیار اور ڈرون فراہم کیے گئے، تاہم اماراتی حکام نے بیان میں اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی کسی بھی حمایت کے الزام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔دوسری جانب فوج کو مصر، سعودی عرب، ایران اور ترکیہ کی حمایت حاصل ہے۔ الفاشر پر قبضے کے بعد آر ایس ایف نے دارفور کے تمام 5 صوبائی دارالحکومتوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا، جس سے ملک عملاً مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔