افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
واقعہ اسراء و معراج
’’پاک ہے وہ اللہ تعالی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے تاکہ ہم اْسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں، یقیناً اللہ تعالی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے‘‘۔ (سورۃ الاسراء: 1)
آیتِ مذکورہ میں ’’اسراء ومعراج‘‘ کے واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا، حدیث اورسیرت کی کتابوں میں اس واقعے کی تفصیلات بکثرت صحابہ کرام سے مروی ہے جن کی تعداد 25 تک پہنچتی ہے۔
قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام (یعنی بیت اللہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اِس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک بْراق پر لے گئے۔ وہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر وہ آپ کو عالمِ بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقاتِ سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔
آخرکار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کے بعد آپ بیت المَقدِس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا گیا۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعے کا ذکر کیا تو کفارِ مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔
اس سفرکی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالمِ خواب میں پیش آیا یا بیداری میں؟ اورآیا حضور بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرادیاگیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔ سْبحَانَ الَّذِی اَسرَی سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتارہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارقِ عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیرمحدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ’’ایک رات اپنے بندے کولے گیا‘‘ جسمانی سفر پر صریحاً دلالت کرتے ہیں۔ خواب کے سفر کے لیے یہ الفاظ کسی طرح موزوں نہیں ہوسکتے۔ لہذا ہمارے لیے یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبیؐ کو کرایا۔
معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبیؐ کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثَّل کرکے دکھایا گیا تھا۔ مثلاً زناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔ اسی طرح بْرے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائی گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالمِ آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اپنے بندے کو اللہ تعالی
پڑھیں:
دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
دعا ایک ایسی روحانی طاقت ہے جو ہر مذہب، ہر دور اور ہر دل کی گہرائیوں میں زندہ ہے۔ چاہے انسان کسی دین سے ہو، کسی خطے سے ہو، جب دل بیقرار ہوتا ہے، زبان سے نکلا ہوا ایک سادہ لفظ ’’اے خدا!‘‘ پورے آسمان کو ہلا دیتا ہے۔ قرآن، تورات، انجیل، احادیثِ نبویہ، رومی کی تعلیمات اور آج کے سائنسدان سب اس امر پر متفق ہیں کہ دعا میں ایک غیر مرئی طاقت ہے جو انسان کی روح، جسم اور کائنات کے ساتھ گہرے تعلقات پیدا کرتی ہے۔
-1 دعا قرآن کی روشنی میں:قرآن کریم دعا کو عبادت کی روح قرار دیتا ہے:’’وقال ربکم ادعونِی استجِب لکم(سورۃ غافر: 60)’’ اور تمہارے رب نے فرمایا کہ مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘
واِذا سالک عِبادِی عنیِ فاِنیِ قرِیب (سورۃ البقرہ: 186)
’’جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو (کہہ دو کہ) میں قریب ہوں۔‘‘
-2 احادیث کی روشنی میں:حضرت محمدﷺ نے فرمایا:’’الدعا ء ھو العِبادۃ‘‘ (ترمذی) دعا ہی عبادت ہے۔ایک اور حدیث میں فرمایا:جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا، اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔(ترمذی)
-3 تورات اور بائبل میں دعا:تورات میں حضرت موسی علیہ السلام کی دعائوں کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے، خصوصاً جب وہ بنی اسرائیل کے لیے بارش یا رہنمائی مانگتے ہیں۔بائبل میں حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں:مانگو، تمہیں دیا جائے گا؛ تلاش کرو، تم پا ئوگے؛ دروازہ کھٹکھٹا، تمہارے لیے کھولا جائے گا۔(متی 7:7)
-4 مولانا رومی کا نکتہ نظر:مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا وہ پل ہے جو بندے کو معشوقِ حقیقی سے جوڑتا ہے۔ایک اور مقام پر کہتے ہیں:تم دعا کرو، تم خاموشی میں بھی پکارو گے تو محبوب سنے گا، کیونکہ وہ دلوں کی آواز سنتا ہے، نہ کہ صرف الفاظ۔
-5 سائنسی اور طبی تحقیقات:جدید سائنسی تحقیقات بھی دعا کی اہمیت کو تسلیم کر چکی ہیں: ہارورڈ میڈیکل اسکول کی ایک تحقیق کے مطابق، دعا اور مراقبہ دل کی دھڑکن کو کم کرتے ہیں، دماغی سکون پیدا کرتے ہیں اور قوتِ مدافعت کو بڑھاتے ہیں۔
ڈاکٹر لاری دوسے ، جو کہ ایک معروف امریکی ڈاکٹر ہیں، نے کہا:میں نے اپنی میڈیکل پریکٹس میں ایسے مریض دیکھے ہیں جو صرف دعا کی طاقت سے بہتر ہو گئے، جب کہ دوا کام نہ کر رہی تھی۔
ڈاکٹر ہربرٹ بینسن کے مطابق‘ دعا جسم میں ریلیکسیشن رسپانس پیدا کرتی ہے، جو ذہنی دبائو، ہائی بلڈ پریشر، اور بے خوابی کا علاج بن سکتی ہے۔
-6 دعا کی روحانی قوت اور موجودہ دنیا: آج جب دنیا مادی ترقی کی دوڑ میں الجھی ہوئی ہے، انسان کا باطن پیاسا ہے۔ دعا وہ چشمہ ہے جو انسان کی روح کو سیراب کرتا ہے۔ یہ دل کی صدا ہے جو آسمانوں تک پہنچتی ہے۔ دعا صرف مانگنے کا نام نہیں، بلکہ ایک تعلق، ایک راستہ، ایک محبت ہے رب کے ساتھ۔
دعا ایک معجزہ ہے جو خاموشی سے ہماری دنیا کو بدل سکتی ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو نہ صرف بیماریوں کا علاج ہے، بلکہ تنہائی، خوف، بے سکونی اور بے مقصد زندگی کا حل بھی ہے۔ اگر انسان اپنے دل سے اللہ کو پکارے، تو وہ سنتا ہے، اور جب وہ سنتا ہے، تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔
دعا ایک تحفہ ہے جو ہم ایک دوسرے کو دے سکتے ہیں اور دعا کا تحفہ دوسروں کو دے کر اس کا اجروثواب بھی حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ دعا حضور قلب و ذہن سے روح توانائی سے کی جائے یعنی پوری توجہ اور اللہ پر کامل توکل کے ساتھ کی جائے۔ دعا پر نہیں مگر طاقت پرواز رکھتی ہے ۔ اللہ ہمیں قلب و روح گہرائیوں سے دعا کرنے کی سمجھ اور توفیق عطا فرمائے اور ایک دوسرے کو یہ عظیم اور مقدس تحفہ بانٹے رہیں۔
اے اللہ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہماری دعائیں قبول فرما اور ہمیں مستجاب دعا بنا ۔ یا سمیع الدعاء