ججز کمیٹی کو توہین عدالت نوٹس دے سکتے ہیں، مگر ایسا کریں گے نہیں، جسٹس منصور
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ نے بینچز اختیارات کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ تشکیل دینے کیلیے چیف جسٹس پاکستان کو معاملہ بھجوا سکتے ہیں، آگے انکی مرضی فل کورٹ بنائیں یا نہ بنائیں۔
دوران سماعت عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26 ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، احسن بھون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے، وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔
ہم ریگولر ججز کمیٹی کے دو ممبران (چیف جسٹس پاکستان،سربراہ آئینی بنچ ) کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر سکتے ہیں لیکن ایسا کریں گے نہیں۔ بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا،سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی ،کیا جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جا سکتا ہے؟
عدالتی معاون احسن بھون نے کہا ماضی میں عدالتوں نے تشریح کے نام پر آئین سبوتاژ کیا ، سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ اس کی مثال ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ ماضی بڑا خراب تھا، کیا حال ٹھیک ہے؟ احسن بھون نے کہا حال تو آپ لکھیں گے اور ایسا فیصلہ نہیں کریں گے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا ہم نے کیا فیصلہ کرنا ہے ہم کونسا آئینی کورٹ ہیں ۔ احسن بھون نے کہا ہم اسی لیے کہتے تھے کہ آئینی عدالت بنائی جائے۔ جسٹس منصور نے کہا تھوڑا دھکا اور لگا دیتے۔ احسن بھون نے کہا کہ آئینی بینچ کے سوا کسی دوسرے بینچ کو آئینی قانونی معاملات پرکھنے کا اختیار نہیں۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا ہم اسی سوال کا جائزہ لینے بیٹھے تھے کہ ہم سے کیس ہی لے لیا گیا، کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اگر غیر آئینی بینچ کی کوئی وزڈم ہوتی ہے، ہم صرف یہ جائزہ لینے بیٹھے کمیٹی ہم سے مقدمہ آرٹیکل 191کے تحت واپس لے سکتی ہے یا نہیں۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بینچ کمیٹی ہی نے تشکیل دیا تھا، ہم نے تو نہیں بنایا، اس بینچ نے جوڈیشل آرڈر جاری کیا، ساری شرارت ہمارے اس آرڈر کی ہے۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا آرٹیکل 191اے آئین کا حصہ ہے جسے کسی جوڈیشل فورم نے کالعدم قرار نہیں دیا گیا، اگر آپکا پچھلا عدالتی بنچ آئینی سوالات پر فیصلہ دیتا تو وہ خلاف قانون ہوتا، یہ معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا، اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر آج بھی نافذالعمل قانون ہے، سپریم کورٹ کا بنچ قانون کے مطابق ہی کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا آئینی بنچ نان جوڈیشل فورم کے ذریعے بنائے گئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اس لیے درست قرار دیا کہ عدلیہ بنچ بنائے گی۔ خواجہ حارث نے کہا آئین میں درج ہے آئینی بنچ کیسے بنے گا، دو رکنی ریگولر بنچ توہین عدالت کیس میں فل کورٹ نہیں بنا سکتی، سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت چیف جسٹس سے گزارش کی جا سکتی ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کل کہیں لوگ یہ نہ کہیں سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔ نذر عباس نے اپنے جواب میں کہا مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا، ہمیں کوئی شوق نہیں ہے توہین عدالت کا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا توہین عدالت کی کارروائی محدود ہوتی ہے، اگر عدالت نے اس کارروائی سے باہر نکلنا ہے تو معاملہ چیف جسٹس کو بجھوایا جائے، آپکے پاس اختیار سماعت محدود ہے، معاملہ کمیٹی کو بھیجنا چاہیے، اگر عدالت آرٹیکل 184 یا اپیل سن رہی ہوتی تو الگ بات تھی۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس منصور شاہ نے کہا احسن بھون نے کہا جوڈیشل ا رڈر توہین عدالت سپریم کورٹ ججز کمیٹی نے کہا کہ چیف جسٹس کمیٹی کو نے کہا ا فل کورٹ
پڑھیں:
عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر اپیلیں نمٹادی گئیں
—فائل فوٹوسپریم کورٹ نے بانئ پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانئ پی ٹی آئی کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بانئ پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ کی تشکیل مکمل نہ ہونے کی وجہ سے کاز لسٹ منسوخ کر دی گئی۔
پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی کارکردگی دکھائے گی۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے سوال کیا کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا؟
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم بانئ پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے سوال کیا کہ جیل میں زیرِ حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے؟ میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد ضمنی چالان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لے کر ٹیسٹ کروالیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے سوال کیا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی؟
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 14جولائی 2024ء کو ٹیم بانئ پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کر دیا، بانئ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کہا گیا گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہو گا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جا کر فارنزک ٹیسٹ کرائیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہوچکے ہیں۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دے دی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔
ذوالفقار نقوی نے کہا کہ میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں، 5 دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، نامزدملزم کی اپیل 2017ء میں ابتدائی سماعت کے لیے منظور ہوئی، کیس میں نامزد ملزم 7 سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، ہمیں 3 ماہ کا وقت دیں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ بانئ پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر کی گئی اپیلیں 2 بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانئ پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کے لیے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے، بانئ پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچوئل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔