اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے بینچز اختیارات کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ تشکیل دینے کیلیے چیف جسٹس پاکستان کو معاملہ بھجوا سکتے ہیں، آگے انکی مرضی فل کورٹ بنائیں یا نہ بنائیں۔

دوران سماعت عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26 ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، احسن بھون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے، وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔

ہم ریگولر ججز کمیٹی کے دو ممبران (چیف جسٹس پاکستان،سربراہ آئینی بنچ ) کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر سکتے ہیں لیکن ایسا کریں گے نہیں۔ بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا،سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی ،کیا جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جا سکتا ہے؟

عدالتی معاون احسن بھون نے کہا ماضی میں عدالتوں نے تشریح کے نام پر آئین سبوتاژ کیا ، سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ اس کی مثال ہے۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ ماضی بڑا خراب تھا، کیا حال ٹھیک ہے؟ احسن بھون نے کہا حال تو آپ لکھیں گے اور ایسا فیصلہ نہیں کریں گے۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا ہم نے کیا فیصلہ کرنا ہے ہم کونسا آئینی کورٹ ہیں ۔ احسن بھون نے کہا ہم اسی لیے کہتے تھے کہ آئینی عدالت بنائی جائے۔ جسٹس منصور نے کہا تھوڑا دھکا اور لگا دیتے۔ احسن بھون نے کہا کہ آئینی بینچ کے سوا کسی دوسرے بینچ کو آئینی قانونی معاملات پرکھنے کا اختیار نہیں۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا ہم اسی سوال کا جائزہ لینے بیٹھے تھے کہ ہم سے کیس ہی لے لیا گیا، کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اگر غیر آئینی بینچ کی کوئی وزڈم ہوتی ہے، ہم صرف یہ جائزہ لینے بیٹھے کمیٹی ہم سے مقدمہ آرٹیکل 191کے تحت واپس لے سکتی ہے یا نہیں۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بینچ کمیٹی ہی نے تشکیل دیا تھا، ہم نے تو نہیں بنایا، اس بینچ نے جوڈیشل آرڈر جاری کیا، ساری شرارت ہمارے اس آرڈر کی ہے۔

عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہا آرٹیکل 191اے آئین کا حصہ ہے جسے کسی جوڈیشل فورم نے کالعدم قرار نہیں دیا گیا، اگر آپکا پچھلا عدالتی بنچ آئینی سوالات پر فیصلہ دیتا تو وہ خلاف قانون ہوتا، یہ معاملہ ججز کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا، اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر آج بھی نافذالعمل قانون ہے، سپریم کورٹ کا بنچ قانون کے مطابق ہی کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا آئینی بنچ نان جوڈیشل فورم کے ذریعے بنائے گئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اس لیے درست قرار دیا کہ عدلیہ بنچ بنائے گی۔ خواجہ حارث نے کہا آئین میں درج ہے آئینی بنچ کیسے بنے گا، دو رکنی ریگولر بنچ توہین عدالت کیس میں فل کورٹ نہیں بنا سکتی، سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت چیف جسٹس سے گزارش کی جا سکتی ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کل کہیں لوگ یہ نہ کہیں سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے۔ نذر عباس نے اپنے جواب میں کہا مجھے قربانی کا بکرا بنایا گیا، ہمیں کوئی شوق نہیں ہے توہین عدالت کا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا توہین عدالت کی کارروائی محدود ہوتی ہے، اگر عدالت نے اس کارروائی سے باہر نکلنا ہے تو معاملہ چیف جسٹس کو بجھوایا جائے، آپکے پاس اختیار سماعت محدود ہے، معاملہ کمیٹی کو بھیجنا چاہیے، اگر عدالت آرٹیکل 184 یا اپیل سن رہی ہوتی تو الگ بات تھی۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کر لیا ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس منصور شاہ نے کہا احسن بھون نے کہا جوڈیشل ا رڈر توہین عدالت سپریم کورٹ ججز کمیٹی نے کہا کہ چیف جسٹس کمیٹی کو نے کہا ا فل کورٹ

پڑھیں:

پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے  سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔

حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔

حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے،  ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ  قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان  نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔

اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنا تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اسلام آباد بار کونسل
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کا جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
  • جسٹس سرفراز ڈوگر کیخلاف شکایت، ایمان مزاری نے اضافی دستاویزات جمع کرادیں
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
  • پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ