بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیوں کیا؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
لاہور (نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کی وجہ بتادی۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل بانی پی ٹی آئی سےاڈیالہ جیل میں ملاقات ہوئی، ملاقات میںانہوں نے کہا حکومت کے پاس نہ اختیار ہے نہ مذاکرات کامیابی میں انکی مرضی، حکومت کی نیت ٹھیک نہیں اس لئے میں مذاکرات کو ختم کرتا ہوں۔
علی ظفر نے بتایا کہ انہوں نے ہدایت کی آگے جا کر سول ڈس اوبیڈیئنس کی تحریک شروع ہو گی اور کہا تمام ہاؤسز میں بھی احتجاج کریں،اپوزیشن کا کام ہے جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو وہاں آواز اٹھائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی اس کی اجازت نہیں تو واک آوٹ ہی ہو گا، پیکا قانون میں ایسی شقیں ہیں جوآزادی اظہاررائےکو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
پیکا قانون پر بیرسٹر علی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھاتی اور کوئی دستاویزسامنے آتا، جس طرح چھپا کر ترامیم کی جا رہی ہے یہ ظاہر ہے آئینی حق کونقصان پہنچایاجا رہا ہے۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ چاہے کوئی بھی حکومت ہو، کسی دوسرے ملک کو اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی دنیا میں کہیں بھی ہوتو ہر ملک اسکے خلاف کھڑا ہوگا، پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پرمختلف ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
مزیدپڑھیں:توشہ خانہ کیس : آصف زرداری اور نواز شریف بڑی مشکل میں پھنس گئے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بیرسٹر علی علی ظفر نے
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔