WE News:
2025-06-09@13:41:06 GMT

جانیے کہ عالمی ادارہ صحت کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

جانیے کہ عالمی ادارہ صحت کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟

19 ویں صدی کے وسط میں جب طاعون، ہیضے اور زرد بخار نے نوصنعتی و باہم مربوط ہوتی دنیا کو لپیٹ میں لیا تو صحت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی طریقہ کار کی لازمی ضرورت بالآخر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے قیام پر منتج ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: سالانہ 13 لاکھ لوگ کس وجہ سے مر رہے ہیں؟ عالمی ادارہ صحت کا انکشاف

1851 میں معالجین، سائنس دان، ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم فرانس کے دارالحکومت میں منعقدہ ‘حفظان صحت’ کی بین الاقوامی کانفرنس میں جمع ہوئے جو اس ادارے کے قیام کا نقطہ آغاز تھی۔

صحت کے لیے اقوام متحدہ کے اس عالمی ادارے نے 1948 میں اپنے قیام کے بعد دنیا بھرکے لوگوں کی بہبود کے لیے کام کیا ہے جو طبی سائنس کی تجربہ گاہوں سے لے کر میدان ہائے جنگ تک پھیلا ہوا ہے، یہ ادارہ سائنس سے رہنمائی اور 194 رکن ممالک سے مالی مدد اور تعاون لیتا ہے جن میں امریکا بھی شامل ہے جس نے گزشتہ سوموار کو اس کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

‘ڈبلیو ایچ او’ نے دنیا کے لیے کیا کچھ کیا ہے؟ اس سوال کا مختصر جواب ‘بہت کچھ’ ہو گا۔ ادارہ اس وقت اپنے ارکان کے ساتھ 150 سے زیادہ جگہوں پر طبی خدمات مہیا کر رہا ہے اور اس نے صحت عامہ کے حوالے سے کئی سنگ ہائے میل عبور کیے ہیں۔

ہنگامی حالات میں امدادی اقدامات

بحرانوں، مسلح تنازعات، بیماریاں پھیلنے کے خطرات اور موسمیاتی تبدیلی تک بہت سے مسائل کی موجودگی میں ‘ڈبلیو ایچ او’ نے غزہ سے سے لے کر سوڈان اور یوکرین تک جاری جنگوں سے متاثرہ لوگوں کو امراض سے بچاؤ کی ویکسین اور دوردراز یا خطرناک علاقوں میں طبی سازوسامان پہنچایا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا کی قریباً ایک تہائی آبادی جسمانی سرگرمیوں سے دور ہے، عالمی ادارہ صحت کا انتباہ

اس وقت طبی نظام کو غیرمعمولی خطرات کا سامنا ہے۔ ‘ڈبلیو ایچ او’ کے مطابق2023 کے دوران 19 ممالک اور علاقوں میں طبی کارکنوں، مریضوں، اسپتالوں، صحت کے مراکز اور ایمبولینس گاڑیوں پر 1200 حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 700 ہلاکتیں ہوئیں اور تقریباً  1200 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

درحقیقت ‘ڈبلیو ایچ او’ کی طبی ٹیمیں وہاں بھی مدد پہنچاتی ہیں جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔ وہ زخمی مریضوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالتی اور طبی مراکز میں ضروری سازوسامان اور خدمات فراہم کرتی ہیں۔

ستمبر 2024 میں بنائی گئی زیرنظر ویڈیو میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کی ٹیمیں جنگ زدہ اور زیرمحاصرہ غزہ میں بچوں کو پولیو ویکسین پلاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اقدام علاقے میں 25 سال کے بعد پولیو وائرس سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا۔

طبی بحرانوں پر قابو پانے کی کوششیں

ہر دن اور رات ‘ڈبلیو ایچ او’ کے ماہرین کی ٹیمیں سائنسی تحقیق سمیت ہزاروں معلومات اور بیماریوں کی نگرانی سے متعلق رپورٹوں کا تجزیہ کرتی اور ایوین فلو سے لے کر کووڈ۔19 تک صحت عامہ کو لاحق بہت سے خطرات اور بیماریوں کے پھیلاؤ کی علامات کو جانچتی ہیں۔

‘ڈبلیو ایچ او’ متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے، ان کی نشاندہی اور ان کا قلع قمع کرنے اور ضروری طبی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے متحرک رہتا ہے۔ اس میں اسپتالوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے اقدامات بھی شامل ہیں جہاں بچوں کی پیدائش سے لے کر جنگ میں زخمی ہونے والوں کے علاج اور طبی کارکنوں کی تربیت تک بہت سے کام کیے جاتے ہیں۔

بیماریوں کا خاتمہ

صحت عامہ سے متعلق درست پالیسیوں کی موجودگی میں بہت سی بیماریوں کا خاتمہ ہونے کو ہے جن میں نظر انداز شدہ وبائی امراض اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں، جنسی طور پر منتقل ہونے والے امراض اور ماؤں سے بچوں کو منتقل ہونے والے عوارض شامل ہیں جن کی ویکسین کے ذریعے روک تھام ممکن ہے۔

‘ڈبلیو ایچ او’ ضروری ادویات اور طبی سازوسامان کی فراہمی کے علاوہ جہاں ممکن ہو وہاں بیماریوں کی تشخیص کی سہولیات کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

2024 میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کے ارکان نے عالمگیر صحت عامہ کو لاحق ان بڑے مسائل پر قابو پانے کے ضمن میں متعدد سنگ ہائے میل عبور کیے۔ سات ممالک (برازیل، چاڈ، انڈیا، اردن، پاکستان، ٹیمور لیستے اور ویت نام) نے اپنے ہاں جزام اور آنکھ کی بیماری تراقوما سمیت گرم علاقوں میں پھیلنے والے متعدد امراض کا خاتمہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: دُنیا کو خسرے کے شدید خطرے کا سامنا، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کردیا

برازیل، جمیکا اور سینیٹ ونسینٹ اینڈ گرینیڈینز میں ماؤں سے بچوں کو ایچ آئی وی اور آتشک کی منتقلی پر قابو پا لیا گیا ہے جبکہ نمیبیا نے ماؤں سے بچوں کو ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس کی منتقلی کے خاتمے کا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

‘ڈبلیو ایچ او’ نے گزشتہ سات دہائیوں میں پولیو کے تقریباً خاتمے کا سنگ میل بھی عبور کر لیا ہے جبکہ اس کی کاوشوں سے دنیا نے 1980 میں خسرے پر قابو پا لیا تھا۔

مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل صحت

‘ڈبلیو ایچ او’ مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ڈیجیٹل صحت کے میدان میں بھی کام کر رہا ہے اور اس ٹیکنالوجی کو صحت کے لیے محفوظ و موثر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ادارے نے گزشتہ سال ایک نئی رہنمائی شائع کی تھی جس میں سرطان یا تپ دق جیسی بیماریوں کی تشخیص و علاج کے معاملے میں ضروری انضباطی ہدایات دی گئی ہیں۔ اس ضمن میں غیر اخلاقی طور پر مریضوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے کے عمل اور آن لائن طبی تحفظ کو لاحق خطرات روکنے اور تعصب یا غلط اطلاعات پر قابو پانے کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

موسمیاتی و طبی بحرانوں سے تحفظ

موسمیاتی مسائل سے منسلک طبی بحران دنیا میں 3.

5 ارب لوگوں یا تقریباً نصف انسانی آبادی کو متاثر کررہے ہیں۔

2023 میں شدید گرمی، موسمی شدت کے واقعات یا فضائی آلودگی سے ریکارڈ تعداد میں اموات ہوئیں جس سے طبی نظام اور کام کرنے والی آبادی پر شدید دباؤ آیا۔ ان کے نتیجے میں امریکہ کے مغربی ساحل پر جنگلوں کی آگ سے لے کر انڈونیشیا میں شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب تک کئی حوادث دیکھنے کو ملے۔

یہ بھی پڑھیں: گزشتہ ماہ کورونا وبا کے باعث 10 ہزار اموات ہوئیں، عالمی ادارہ صحت

‘ڈبلیو ایچ او’ صحت عامہ کو موسمیاتی تبدیلی کے وسیع تر اثرات سے صحت کو تحفظ دینے کے اقدامات کرتا چلا آیا ہے جن میں عدم تحفظ اور ترقیاتی منصوبوں کا تخمینہ لگانا بھی شامل ہے۔

ادارے نے شدید گرمی اور وبائی بیماریوں جیسے بڑے خطرات پر قابو پانے کے نظام بروئے کار لانے کے لیے کام کیا ہے پانی و خوراک جیسے اہم شعبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوششوں میں مدد فراہم کی ہے۔

تین ارب اہداف

‘ڈبلیو ایچ او’ وباؤں کی روک تھام، ان سے نمٹنے کی تیاری اور ان کا خاتمہ کرنے کے اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے ایک عالمی معاہدے کے لیے کوشاں ہے جو 1851 میں حفظان صحت کی بین الاقوامی کانفرنس کے عزائم سے ہم آہنگ ہو گا۔

ادارہ اپنے ‘تین ارب اہداف’ کو حاصل کرنے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ 2019 میں طے کردہ ان اہداف کی رو سے 2025 تک مزید ایک ارب لوگوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی دینا، مزید ایک ارب لوگوں کو ہنگامی طبی حالات میں بہتر تحفظ مہیا کرنا اور مزید ایک ارب لوگوں کو بہتر صحت اور بہبود کی فراہمی یقینی بنانا شامل ہے۔

ادارے کی قیادت

‘ڈبلیو ایچ او’ کا دفتر سوئزرلینڈ کے شہر جنیوا میں واقع ہے اور ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس اس کے سربراہ (ڈائریکٹر جنرل) ہیں۔25۔2024 میں ادارے کا منظور کردہ (دو سالہ) بجٹ 6.83 ارب ڈالر ہے۔ یہ وسائل اس کے ارکان اور عطیہ دہندگان مہیا کرتے ہیں۔

ادارے کا فیصلہ ساز شعبہ ‘عالمی طبی اسمبلی’ اس کے رکن ممالک پر مشتمل ہے جو ‘ڈبلیو ایچ او’ کی ترجیحات اور پالیسیاں طے کرنے کے لیے ہر سال اجلاس کرتے ہیں۔ ادارے کے ارکان طبی اہداف اور حکمت عملی کے بارے میں ایسے فیصلے لیتے ہیں جن کی بدولت انہیں اپنے ہاں صحت کے شعبے میں رہنمائی ملتی ہے اور ادارے کا سیکرٹریٹ دنیا بھر کے لوگوں کی بہتر صحت و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ ان میں بہتری کے مقصد سے کی جانے والی اصلاحات بھی شامل ہوتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اقوام متحدہ پولیو خسرہ ڈبلیو ایچ او عالمی ادارہ صحت

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ پولیو ڈبلیو ایچ او عالمی ادارہ صحت عالمی ادارہ صحت پر قابو پانے ڈبلیو ایچ او کے اقدامات ارب لوگوں لوگوں کو کا خاتمہ سے لے کر کرنے کے کو بہتر بچوں کو کے لیے ہے اور کام کر کیا ہے صحت کے

پڑھیں:

بیروزگار نوجوان جعلی نوکری کے لیے کمپنیوں کو یومیہ فیس کیوں دیتے ہیں؟

چین میں کچھ عرسے سے ایک عجیب و غریب رجحان  دیکھا جا رہا ہے جس کے تحت بیروزگار نوجوانوں کرائے کے دفاتر میں کام کرنے کا بہانہ کرنے کے لیے فیس ادا کرتے ہیں اور اس میں انہیں کوئی مالی فائدہ بھی نہیں ہوتا بلکہ الٹا پیسے بھرنے پڑتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 40 کروڑ سبسکرائبرز رکھنے والے یوٹیوبر ’مسٹر بیسٹ‘ شادی کے لیے پیسے ادھار لیں گے!

ایسے نوجوان کچھ جعلی کمپنیوں کو ادائیگی کرتے ہیں تاکہ وہ جھوٹ موٹ کی نوکری کرسکیں جس کے لیے انہیں 4 تا7 امریکی ڈالر روزانہ اس کمپنی کو دینے ہوتے ہیں۔

یہ کمپنیاں کسی کو بھی مختلف کام کرنے والے ماحول کا تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں اور ان کے لیے میزوں، لنچ کی سہولیات اور مفت وائی فائی بھی اہتمام بھی کرتی ہیں تاکہ انہیں ایک باقائدہ آفس کا ماحول مل سکے۔

یہی نہیں بلکہ وہ اپنے کلائنٹس کو اضافی ادائیگی پر فرضی کاموں اور جعلی مینیجرز تک بنادیتے ہیں۔ ان نام نہاد ملازمتیں فراہم کرنے والی کمپنیوں کی تعداد اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے تاکہ بے روزگار نوجوانوں کی ڈیمانڈ پوری کی جاسکے۔

مزید پڑھیے: سینکڑوں کلومیٹرز مفت میں بری، بحری اور فضائی سفر کرنے والا سیہ بالآخر پکڑا گیا

کوئی کام کرنے کا بہانہ کیوں کرے گا؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔ ایک ہسپانوی اخبار ایل پیس نے حال ہی میں اس عجیب و غریب بڑھتے ہوئے رجحان پر ایک مضمون لکھا اور درحقیقت کام کرنے والی ان کمپنیوں میں سے ایک کا دورہ کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ اسے کس چیز نے اتنا پرکشش بنا دیا ہے۔

اس کے کچھ نام نہاد ملازمین نے کہا کہ وہ صرف اس لیے وہاں ہیں کیوں کہ انہیں یہ آئیڈیا دلچسپ لگا۔ کچھ  نے کہا کہ گھر میں پڑے رہنے کی بجائے کم پیسوں پر یہاں آکر یہ ماحول انجوائے کرنے میں انہیں خوشی ملتی ہے۔ کچھ نے امید ظاہر کی کہ یہ تجربہ مستقبل قریب میں حقیقی ملازمت حاصل کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔

مارچ میں نوجوانوں ملک میں بیروزگاری کی شرح 16 سے 24 سال کی عمر کے لوگوں میں 16.5 فیصد اور 25 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں میں 7.2 فیصد تھی جو بیجنگ جیسے بڑے شہروں میں سستے دفاتر کی جگہ کی دستیابی کے ساتھ مل کر کام کی نقل کرنے کے اس غیر معمولی رجحان کی وجہ بنی۔

مزید پڑھیں: کیا بلیاں بو سونگھ کر مالک اور اجنبی میں فرق کرسکتی ہیں؟

اس طرح کی جگہیں کرایہ کے لیے ناقابل یقین حد تک سستی ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو گھومنے پھرنے کے خواہاں ہیں ان کے لیے وہ کیفے میں بیٹھنے سے زیادہ سستی پڑتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جعلی عہدے جعلی نوکری جھوٹ موٹ کی نوکری

متعلقہ مضامین

  • پشاور میں عید صفائی آپریشن تیسرے روز بھی جاری
  • مودی کے دور حکومت میں تمام آئینی ادارے یرغمال بنا لئے گئے، تیجسوی یادو
  • مشہور ٹاک ٹاکر کھابے لیم کو امریکا میں کیوں گرفتار کیا گیا؟
  • جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد ادارے میں کیا کچھ بدلا؟
  • کشمیر میں اگر سب کچھ معمول پر ہے تو جامع مسجد کیوں بند ہے، التجا مفتی
  • امریکہ کی ایران پر نئی پابندیاں، 10 افراد اور 27 ادارے بلیک لسٹ کردیئے
  • بیروزگار نوجوان جعلی نوکری کے لیے کمپنیوں کو یومیہ فیس کیوں دیتے ہیں؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • مشہد مقدس، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام تقریب 
  • گوجرانوالہ میں سلنڈر پھٹنے سے 3 بچوں سمیت 9 افراد جھلس گئے