پاکستانی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم پاک میڈیا جرنلسٹس فورم انٹرنیشنل نے پیکا ایکٹ کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور مذمت کی ہے۔ 

فورم کے عہدیداران نے کہا کہ پیکا ایکٹ جمہوری اقدار کے منافی ہے اور ایسے قوانین کسی صورت قبول نہیں کیے جا سکتے۔

فورم کے صدر ڈاکٹر عبدالرحمان اسامہ اور چئیرمین چوہدری نورالحسن گجر کی جانب سے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ پیکا ایکٹ صحافیوں کی آزادی اور اظہارِ رائے کے بنیادی حق پر قدغن لگانے کی کوشش ہے، جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔ 

بیان میں مزید کہا گیا کہ صحافیوں کی آواز دبانے کی ہر کوشش ناکام بنائی جائے گی اور آزادی اظہارِ رائے کا مکمل احترام یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

فورم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پیکا ایکٹ کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور صحافیوں کو آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دینے کا حق دیا جائے۔

فورم عہدیداران نے کہا کہ آزادی صحافت کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے اور اسے محدود کرنے کی کوئی بھی کوشش عوام کے حق آگہی کے خلاف ہے۔

پاک میڈیا جرنلسٹس فورم نے صحافی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ متحد ہو کر آزادی صحافت کے تحفظ کےلیے اپنی آواز بلند کریں۔ بیان کے آخر میں حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ایسے قوانین سے گریز کرے جو جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے اصولوں کے منافی ہوں۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: پیکا ایکٹ

پڑھیں:

پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف

اسلام آباد(صغیر چوہدری )پاکستان سے افغان مہاجرین واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ اپریل سے ستمبر تک 554000 مہاجرین کو واپس بھیجا گیا ہے اور اگست 2025 میں 143000افغان پناہ گزین واپس بھیجے گئے
جبکہ صرف ستمبر 2025 کے پہلے ہفتے میں ایک لاکھ افغانیوں کو واپس بھجوایا گیا ہے ۔ پاکستان نے افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے واضح اور سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔دوسری جانب مجموعی طور پر 2023 سے اب تک تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ حکومت اس فیصلے کو قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دیتی ہے،جبکہ پی او آر کارڈز کے حامل افغان مہاجرین کی تعداد 15 لاکھ سے زائد ہے جن کی واپسی کا عمل جاری ہے لیکن سیکیورٹی ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اس،وقت غیر رجسٹرڈ افغانیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور وہ ملکی سلامتی کے لئے زیادہ خطرہ ہیں تاہم رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ تمام افغان مہاجرین کی واپسی اب ناگزیر ہے اور انہیں ہر حال میں واپس جانا ہے دوسری جانب ریاستی ادارے ان مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے دن رات کوشاں ہیں اور حکومت کا یہ ٹارگٹ ہے کہ رواں برس کے آخر تک تمام افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل مکمل کرلیا جائے ۔ تاہم ناقدین کے مطابق یہ اجتماعی سزا کے مترادف ہے کیونکہ ان میں سے بیشتر دہائیوں سے پاکستان میں آباد تھے۔دوسری جانب
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (UNHCR) نے افغانستان میں اپنے آٹھ امدادی مراکز بند کر دیے ہیں۔ ان مراکز کا بنیادی کام واپس آنے والے افغان مہاجرین کو رجسٹریشن، بایومیٹرک تصدیق اور فوری مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ ان مراکز کی۔بندش کی وجہ طالبان حکومت کی خواتین عملے پر ان مراکز میں کام کرنے پر پابندی بتائی گئی ہے جس کے باعث UNHCR نے کہا کہ وہ اپنی خدمات جاری نہیں رکھ سکتا۔ ان مراکز میں روزانہ سات ہزار افراد مدد کے لیے رجوع کرتے تھے، لیکن اب یہ سہولت دستیاب نہیں رہی۔ اس کے علاوہ مالی امداد اور فنڈز کے بحران کو بھی جواز بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ واپسی کرنے والے مہاجرین کو سب سے بڑا مسئلہ نقد امداد کی معطلی ہے۔ان تمام جواز کو بنیاد بنا کر UNHCR نے اعلان کیا ہے کہ فنڈز کی کمی اور طالبان کی سخت عدم تعاون کی پالیسی کی وجہ سے اب وہ لاکھوں افراد کو کیش اسسٹنس یعنی نقد رقم فراہم نہیں کر سکتا کیونکہ مختلف ڈونر ممالک نے بھی فنڈز روک دیے ہیں، جس کی وجہ سے صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے واضح کیا ہے کہ اگر اضافی وسائل فراہم نہ کیے گئے تو افغان مہاجرین کو بنیادی سہولیات دینا ناممکن ہو جائے گا۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ جو لوگ پاکستان اور ایران سے واپس جا رہے ہیں، ان کی اکثریت ایسے علاقوں میں آباد ہو رہی ہے جو حالیہ زلزلے سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ وہاں پہلے ہی رہائش، خوراک، صحت اور روزگار کی سہولیات محدود ہیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں، کیونکہ طالبان حکومت نے خواتین کی نقل و حرکت اور بنیادی خدمات تک رسائی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ دوسری جانب مہاجرین کی واپسی کا یہ معاملہ صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہا بلکہ یورپی ممالک بھی اپنے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے لیے طالبان حکومت سے براہِ راست رابطے کر رہے ہیں جس میں جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ جیسے ممالک شامل ہیں ۔ اس تمام تر صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ افغان مہاجرین کا بحران عالمی سطح پر نئی سفارتی اور سیاسی صف بندی پیدا کر رہا ہے جبکہ پاکستان کی زیرو ٹالرنس پالیسی، طالبان حکومت کی سختیاں اور عدم تعاون ۔ اقوام متحدہ کے ہاتھ کھڑے کر دینا اور فنڈز کا بحران یہ سب عوامل مل کر افغان مہاجرین کے لیے ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہے ہیں نتیجتا لاکھوں افراد غیر یقینی صورتحال، بنیادی سہولیات کی کمی اور سخت پالیسیوں کا شکار ہو کر مشکلات سے دوچار ہیں تاہم اسکی تمام تر ذمہ داری اب افغان حکومت اور اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دہائیوں تک لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی میزبانی پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لئے ممکن نہیں رہی

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی کا پنجاب میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالمی برادری سے مدد لینے کا مطالبہ
  • کرغیزستان: نئے میڈیا قانون کے تحت دو صحافیوں کو قید کی سزا
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • پاکستان بزنس فورم کا حکومت سے زرعی ریلیف پیکیج کی منظوری کا مطالبہ
  • مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات
  • پنجاب حکومت کا جی ایچ کیو حملہ کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس
  • پنجاب حکومت نے جی ایچ کیو حملے کیس کے جیل ٹرائل کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا
  • اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
  • حکومت کا 2600 ارب کے قرضے قبل از وقت واپس اور سود میں 850 ارب کی بچت کا دعویٰ
  • ایشیا کپ: آئی سی سی نے اینڈی پائیکرافٹ کی تبدیلی کا مطالبہ مسترد کردیا، بھارتی میڈیا