کراچی کی تباہی کا ذمہ دار عوامی مینڈیٹ پرقابض ٹولہ ہے: سیف الدین ایڈوکیٹ
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
کراچی: شہرقائد میں بلدیاتی امور کے جائزے کے لیے ہفتہ وار جائزہ اجلاس اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈوکیٹ کی زیر صدارت میں ان کے چیمبر میں منعقد ہوا، اجلاس میں ڈپٹی پارلیمانی لیڈر قاضی صدر الدین، کوآر ڈی نیٹر نعمان الیاس، یوتھ اسپورٹس کوآر ڈ ی نیٹر تیمور احمد، شاہد فرمان، ابرار احمد، طلحہ خان شریک ہوئے۔ اجلاس میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر مبشر حافظ الحق حسن زئی بھی موجود تھے۔ اجلاس میں کراچی کے مختلف محکموں کی صورتحال اور ترقیاتی اسکیموں کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد اجلاس اس نتیجے پر پہنچا کہ کراچی کی تباہی و بربادی اور مسائل کی اصل جڑ عوام کی حقیقی مینڈیٹ کو جعل سازی سے تبدیل کر کے عوام کی رائے کے خلاف مسلط کردہ میئر اور وہ ٹاؤن و یوسی چیئر مین ہیں جن کو جیتے ہوئے نمائندوں کی جگہ زبردستی بیٹھا دیا گیا ہے،کراچی کا انتظام چلانے والوں کے پاس کوئی وژن ہے نہ صلاحیت، حکومت کی کرپشن اور نا اہلی پر وائٹ پیپر تیار کیا جائے گا۔ سیف الدین ایڈکیٹ نے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی ایک جونک ہے جو عوام کا خون چوس رہی ہے،16سال میں سندھ اور کراچی مزید پیچھے چلے گئے ہیں، ان تمام مسائل کا حل عوام کے منتخب کردہ جائز اور حقیقی نمائندوں کے سپرد شہر کے معاملات کرنا ہے، صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ موجودہ میئر اور جعلی چیئر مین مسلط کرنے والوں کو بھی اب عوام کومصیبت سے نکالنے کی سبیل کرنی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوری 2023کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے مسلط کردہ میئر کو اب دو سال گزر چکے ہیں، اس سے قبل وہ ڈیڑھ سال ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے، ان کے ماتحت ہر محکمہ کرپشن اور تباہی کا منظر پیش کر رہا ہے، واٹر کارپوریشن سے پانی کی لائنیں نہیں سنھبالی جا رہی، ہر ہفتے دو ہفتے میں کوئی نہ کوئی پانی کی لائین پھٹتی ہے اور شہر کو پانی کی سپلائی بند ہو جاتی ہے اور اس صورتحال میں سندھ حکومت و کے ایم سی کی طرف سے شہریوں کی داد رسی کا کوئی انتظام نہیں ہوتا بلکہ عوام کو ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ، 1.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہنا تھا کہ سیف الدین اجلاس میں گیا ہے
پڑھیں:
عوامی امنگوں اور جمہوریت کیلئے ہی سہی کیا جج آئین ری رائٹ کر سکتے ہیں: جسٹس علی مظہر
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے کہا ہے اکثریتی فیصلے کے ابتدائی پیراگراف کو پڑھ کر جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض ایسی آبزرویشن دی ہیں جو دیتے ہوئے حقائق مدنظر نہیں رکھے گئے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ کسی بھی فریق نے پی ٹی آئی کیلئے مخصوص نشستیں نہیں مانگیں۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا اس کا جواب اکثریتی فیصلے میں موجود ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جب سب کچھ عدالتی فیصلے میں ہے تو پھر ہم آپ کو کیوں سن رہے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا ایک امریکی جج نے ایک فیصلے میں کہا جو کیا گیا احمقانہ تھا لیکن غیر آئینی نہیں تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا یہ آپ اقلیتی فیصلے کے بارے میں کہہ رہے ہیں یا اکثریتی فیصلے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عوامی سطح پر کہا گیا اس فیصلے کے ذریعے آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے جہاں آئین واضح ہو وہاں ہٹ کر بات تحریر کرنا ایسے ہی ہے جیسے آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا ہو۔ جسٹس جمال نے کہا جمہوریت کو پھولنا پھلنا چاہیے، ہر شخص کی مرضی ہے چاہے تو آزاد رہے چاہے تو مرضی کی پارٹی میں جائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے مخصوص نشستوں کے فیصلے میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے پر بھی ٹھیک ٹھاک بحث کی گئی۔ مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے سے لگتا ہے، اکثریتی ججز پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ فیصل صدیقی نے کہا اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کے کردار اور جمہوریت پر بات کی گئی۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 225 کے ہوتے ہوئے کیا سپریم کورٹ کے آٹھ ججز عام انتخابات کے حقائق کا جائزہ لے سکتے تھے، ن لیگ کے امیدواروں کو سینٹ الیکشن میں آزاد قرار دیا گیا، بعد میں دوبارہ انہی امیدواروں نے فوری ن لیگ جوائن کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ الیکشن کمشن پر الزام لگا رہے ہیں، لیکن اپنی حماقتوں کو نہیں مان رہے، پی ٹی آئی میں اتنے بڑے بڑے وکلا تھے، قانونی ماہر بھی موجود تھے۔ فیصل صدیقی نے کہا ہم تسلیم کرتے ہیں ہم سے غلطیاں ہوئیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ملک کے بڑے بڑے نامور وکلا تو اس وقت الیکشن لڑ رہے تھے۔ جسٹس امین الدین نے کہا آپ کی جماعت کو تو زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا جج آئین کے سکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟۔ عوامی امنگوں اور جمہوریت کیلئے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا فیصلے میں تین دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے جیسا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ن لیگ کے وکیل سے استفسار کیا کہ ایک جماعت کے امیدواروں کو آزاد کیسے ڈیکلئیر کر دیا گیا؟۔ کیا آپ نے اپنی تحریری گزارشات میں اس کا جواب دیا ہے؟۔ وکیل نے کہا میں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا صاحبزادہ حامد رضا کی 2013 سے سیاسی جماعت موجود ہے، جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے، حامد رضا اپنی جماعت سے نہیں لڑے پھر پارلیمانی جماعت کیوں بنائی، مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے، ووٹ بنیادی حق نہیں ہے، ووٹ ڈالنے کا حق ایک خاص عمر کے بعد ملتا ہے۔ جسٹس جمال نے کہا 39 امیدواروں کی حد تک میں اور قاضی فائز عیسی بھی 8 ججز سے متفق تھے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے بھی کہا پی ٹی آئی نشستوں کی حقدار ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اقلیتی ججز نے انہی گرائونڈز پر پی ٹی آئی کو مانا جس پر اکثریتی ججز نے مانا تھا۔ جسٹس صلاح الدین نے کہا نظرثانی لانے والوں نے جس فیصلے کو چیلنج کیا اسے ہمارے سامنے پڑھا ہی نہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا اکثریتی ججز نے کہا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہئیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا آپ اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، وکیل نے جواب دیا ہمیں کوئی مسئلہ نہیں نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں یا ہمیں ایک ہی بات ہے۔ جسٹس جمال نے کہا آپ کی فلم تو پھر فلاپ ہوجائے گی۔ وکیل نے جواب دیا جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔ جسٹس جمال نے کہا جمہوریت کی بات کی گئی ہے، کیا امیدواروں کا اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں، کسی کو زبردستی دوسری جماعت میں شمولیت کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا، جو آزاد امیدوار کسی اور پارلیمانی جماعت میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کر دیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا فیصل صدیقی آپ بار بار پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس فیصلے کے بعد بھی جماعت تھی، اس معاملے پر پی ٹی آئی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں تھی، اگر غلط فہمی ہوتی وہ پارٹی سرٹیفکیٹ جاری نہ کرتے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 16 جون تک ملتوی کردی گئی۔