Express News:
2025-04-25@11:13:27 GMT

پاک امریکا تجارتی تعلقات

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے عہدہ صدارت کا حلف اٹھاتے ہی دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دنیا بھر سے تعلقات بہتر بنائیں گے۔ ہمیں اس بات کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے لیے امریکا سب سے بڑی تجارتی منڈی ہے۔ شاید کوئی برس ایسا گزرا ہو جب پاکستان کی برآمدات امریکا کے لیے بہت زیادہ ہو اور پاکستان کے لیے امریکی درآمدات کی مالیت ہمیشہ کم ہی رہی ہے۔

ہم ہر سال امریکا سے تجارت کرتے ہوئے توازن کو اپنے حق میں رکھتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری بھی ہوتی رہی ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد اپنا بہت کچھ ضایع کیا۔ ہزاروں جانیں گئیں، اربوں ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ امریکا سے ہمارے تعلقات کو اونچ نیچ کا سامنا کرنا پڑا، لیکن باہمی تجارتی تعلقات ہمارے حق میں ہی رہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کے لیے امریکا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بنا رہا۔ امریکا کے لیے ہماری برآمدات میں سالانہ اوسط اضافے کی بات کی جائے تو دس، گیارہ، بارہ فی صد تک رہی ہے۔ امریکا دنیا بھر سے تعلقات کو کس طرح سے بہتر بناتا ہے یہ اس کا معاملہ ہے لیکن ہم اپنی سیاسی و تجارتی شراکت داری کو کس طرح زیادہ بہتر بنا سکتے ہیں یہ دونوں ممالک کا مشترکہ معاملہ ہے۔

2023 سے اب ہم 2024 اور مالی سال 2025 کے نصف گزارنے کے بعد بھی اسی نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ امریکا کے لیے ہماری برآمدات 5 ارب ڈالر سے بڑھتے بڑھتے اب 7 ارب ڈالر تک کا سفر طے کرنے والے ہیں لیکن نئے امریکی صدرکی آمد کے بعد اپنی برآمدات کو 10 ارب ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔ یہ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم، پاکستان کے وہ تاجر جو امریکا سے بہترین تجارتی تعلقات رکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہماری برآمدات کی لاگت جوکہ گزشتہ دو دہائی سے اونچی اڑان کی زد میں آچکی ہے۔

امریکا کے لیے ہم اپنی برآمدات کا جائزہ لیں تو مالی سال 2024 کے جولائی تا جون 2024 تک پاکستان کی کل برآمدات میں امریکا کا حصہ 17.

25 فی صد تھا اور اس سے گزشتہ مالی سال میں یہ حصہ 18.67 فی صد تھا۔ اب رقم کی بات کر لیتے ہیں تو جولائی تا جون 2023 تک پاکستان نے امریکا کو 12 کھرب 80 ارب ساڑھے 65 کروڑ روپے کی برآمدات کی تھیں اور اس سے اگلے برس جولائی تا جون 2024 کے دوران 14 کھرب 96 ارب ساڑھے 34 کروڑ روپے کی برآمدات رہی۔ اب دیکھتے ہیں کہ تجارت میں ہم کتنے فائدے میں رہے ہیں تو بات یہ ہے کہ جولائی تا جون 2023 کی بات ہے جب کل امپورٹ میں امریکا کا حصہ 3.97 فی صد تھا اور 5 کھرب 34 ارب 25 کروڑ روپے کی درآمدات اور گزشتہ مالی سال جولائی تا جون 2024 کے دوران پاکستان کی کل امپورٹ میں امریکا کا شیئر 2.62 فی صد تھا اور 4 کھرب 4 ارب 87 کروڑ20 لاکھ روپے کی درآمدات بنتی ہیں۔

بس آپ دیکھیں جب اس قسم کی صورت حال چل رہی ہو تو ہمیں تو اپنا سیاسی و تجارتی مفاد دیکھنا پڑے گا۔ ہم اپنے تجارتی اور سیاسی مفاد کو اولین ترجیح دیں،کیونکہ اب عالمی سیاسی معیشت میں امریکا کو اب بدلا ہوا دیکھیں گے۔ اب اس میں پاکستان اپنے سیاسی، تجارتی، دفاعی اور دیگر مفادات کو زیادہ بہتر طریقے سے حاصل کرے گا۔

سب جانتے ہیں کہ بجلی کے نرخ جو ہم غریبوں کو جینے نہیں دے رہے اور تجارت کو پنپنے نہیں دے رہے، امریکا کے لیے ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات کا حصہ تقریباً نصف سے زیادہ رہا ہے۔ اب کئی سالوں سے آئی ٹی سیکٹر کی برآمدات بھی بڑھنے کی طرف رواں دواں ہے۔ امید ہے کہ اس سیکٹر میں ہماری برآمدات اب ایک ارب ڈالر سے دو ارب ڈالر اور پھر اس سے بھی زائد کا سفر جلد طے کر لے گی۔

نئے صدر کی آمد کے بعد پاکستانی حکام کو اپنی توجہ اس جانب مرکوز کرنا ہوگی کہ ہم کس طرح سے امریکی ٹیکنالوجی، زراعت کے میدان میں امریکی جدت و فنی مہارت کے علاوہ ہمیں مستقبل کے لیے پاکستان میں پانی کے ذخائر کو زیادہ وسیع بنانے کے لیے ہم امریکی تعاون کس طرح حاصل کر سکتے ہیں۔پانی ہو، توانائی ہو، زراعت ہو یا سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا انفارمیشن ٹیکنالوجی اور بہت سے شعبے ہیں کیا۔

ان میں ہم امریکی معاونت، امریکی سرمایہ کاری، امریکی تکنیک اور بہت کچھ پاکستان لا سکتے ہی۔ سب سے بڑھ کر ایسے معاملات جن کے ذریعے ہم اپنی زیادہ سے زیادہ ملازمتیں پیدا کر سکتے ہیں اور دنیا کو بھی فراہم کر سکیں اور امریکا کو بھی اپنی افرادی قوت برآمد کر سکیں۔ اس سے قبل امریکی سرمایہ کاری کے ذریعے منگلا، تربیلا اور دیگر ڈیمز کے لیے بھی معاونت حاصل کر چکے ہیں، لیکن اب بھی نصف سے کم پاکستان کا علاقہ بنجر بھی ہے ریتیلا بھی ہے، ریگستانی بھی ہے اور بے انتہا زرعی مسائل ہیں۔ بے روزگاری بھی ہے جنھیں ہم نے حل کرنا ہے۔

پاکستان ہر سال سیلاب سے متاثر ہوتا ہے۔ ہزاروں گاؤں، دیہات، وہاں رہنے والے افراد، لاکھوں مال مویشی، لاکھوں مکانات یکایک ڈھیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان سے بچنے کے لیے ہم نے اب تک کیا کوشش کی ہے؟ پاکستان نے بہت سے معاملات میں امریکا کے ساتھ تعاون کیا اور بدلے میں بہت کچھ کھویا لیکن اب ہم امریکا سے کیا کچھ اور کس طرح سے حاصل کر سکتے ہیں۔ نئی انتظامیہ کے ساتھ معاملات کو کیسے طے کر سکتے ہیں۔ ان تمام تر معاملات کو اچھی طرح سے زیر غور لانے کی ضرورت ہے،کیونکہ امریکا بھی اب دنیا سے معاملات طے کرنے جا رہا ہے۔

پاکستان کو عالمی موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ یہاں پر ہم اس بات پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ دیگر ممالک کی طرف زیادہ توجہ دے کر اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں دنیا کے ہر ملک کے ساتھ اپنے تعلقات اور تجارت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اس وقت دنیا میں ڈالر کی برتری ابھی بھی موجود ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی کی فوقیت اور اہمیت اپنی جگہ موجود ہے اور ہماری باہمی تجارت میں ہم فائدے میں ہی رہتے ہیں اور وہاں کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے ان سے استفادہ کرنا ہمارے نوجوانوں کا حق بھی ہے کہ ہم ان کے لیے کوشش کریں۔ دنیا کا ہر ملک سب سے پہلے اپنے مفاد کے بارے میں سوچتا ہے۔

اس پر عمل کرتا ہے، اس کے لیے کوشش کرتا ہے اور ہمیں ہر ملک سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے اپنی تجارت کو بڑھانے ان ممالک کی فنی استعداد سے خود کو فائدہ اٹھانے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے میں ان کی رہائی کے لیے بات کریں۔ امریکا سے تعلقات کو بہتر بنانے یا بڑھانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم اپنے مفادات کو پس پشت ڈال دیں۔ جیساکہ صدی کے آغاز میں ہم نے کیا۔ ہم جو کچھ بھی کریں صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانی عوام کے مفاد کے لیے کریں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکا کے لیے ہم ہماری برآمدات جولائی تا جون کر سکتے ہیں کی برآمدات میں امریکا پاکستان کے امریکا سے تعلقات کو فی صد تھا ان کے لیے مالی سال ارب ڈالر کے ساتھ روپے کی ہیں کہ ہے اور بھی ہے کے بعد

پڑھیں:

امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں۔

عالمی جریدے بلوم برگ کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم تعمیری انداز میں آگے بڑھیں گے، جلد ہی ایک سرکاری وفد امریکا جائے گا۔ ہم امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں: ریکوڈک منصوبے کے فوائد مقامی آبادی تک پہنچنے چاہیے، وزیرِ خزانہ

انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکا سے مزید کپاس اور سویا بین خریدنے کا خواہش مند ہے۔ اسی طرح غیر ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے پر بھی بات چیت جاری ہے تاکہ امریکی مصنوعات کے لیے پاکستانی منڈیوں کے دروازے کھل سکیں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ امریکی مصنوعات پر پاکستان میں کوئی غیر ضروری جانچ پڑتال یا رکاوٹیں ہیں تو اس کا جائزہ لینے کو بھی تیار ہیں۔ پاکستان میں امریکی فرموں کی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہیں گے۔

مزید پڑھیں: ملکی قرضوں میں کمی لانے کیلئے وزیرخزانہ کا اہم فیصلہ

محمد اورنگزیب نے انٹرویو میں مزید کہا کہ خصوصی طور پر کان کنی اور معدنیات کے نئے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ پاکستان معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنے کا خواہشمند ہے۔ ترقی کے سفر میں سرمایے کے حصول کے لیے عالمی مالیاتی منڈیوں سے رجوع کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خزانہ عالمی معاشی اجلاسوں میں شرکت کیلیے امریکا روانہ، اہم ملاقاتیں ہوں گی

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو معاشی اتار چڑھاؤ کے چکر سے نکالنا ہمارا نصب العین ہے۔ حکومت پاکستان کو مستحکم ترقی کے سفر پر گامزن کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

متعلقہ مضامین

  • شامی صدر احمد الشرع اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر آمادہ، امریکی رکن کانگریس
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر غور
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر سنجیدہ غور
  • امریکا کیساتھ بات چیت کا دروازہ مکمل طور پر کھلا ہے، چین
  • امریکا کیساتھ بات چیت کا دروازہ مکمل طور پر کھلا ہے؛ چین
  • چین نے امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات کیلئے رضامندی ظاہر کردی
  • حکومت امریکا سے تجارتی خسارے کو حل کرنے کیلئے بات چیت چاہتی ہے: وزیر خزانہ
  • ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ 34.37 فیصد بڑھ کر 8.467 ارب ڈالر ہو گیا
  • امریکا سے معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ
  • امریکا کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ