شہزاد احمد ‘ پچھلے برس ‘دفتر آئے تو اپنی کتاب دے گئے۔ عنوان دلچسپ تھا۔ ’’ریت سے روح تک‘‘۔ا سٹڈی میں لے کر آیا۔ اور پھر وہ کتابوں کے ہجوم میں گم ہو گئی۔ چند دن پہلے ‘ اسٹڈی میں بیٹھا ‘ کتابوںکو ترتیب سے رکھ رہا تھا کہ یہ کتاب دوبارہ نظر آئی۔ پڑھنی شروع کر دی۔ کمال نسخہ تصنیف کیا گیا ہے۔
شہزاد احمد نے واقعی بہاولپور کے متعلق لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ کمال تحریر، سادگی اور محبت سے مزین ‘ یہ کتاب بہر حال پڑھنے کے لائق ہے۔ دو تین دن میں ’’ریت سے روح تک‘‘ ختم کر ڈالی۔ پھر ارادہ کیا کہ اس تحریر کو تمام پڑھنے والوں کے سامنے رکھا جائے۔چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
برادرم حسن نثار نے اس کتاب کی بابت لکھا ہے: صحرا روح کی طرح پراسرار ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ دونوں ہم زاد تو نہیں؟ شہزاد احمد حمید شاید اسی سوال کے جواب کی تلاش میں اپنی آوارہ مزاج روح کے ساتھ صحرا کے سفر پر روانہ ہے۔ موضوع اور مصنف دونوں ہی خوب ہوں‘ خوبصورت ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔
مصنف لکھتا ہے۔’’محبت اور بھائی چارے کی ایسی فضا تھی کہ قیام پاکستان کے وقت بہاولپور ہندوستان کی واحد ریاست تھی جہاں کوئی بھی قتل نہ ہوا اور دنگا فساد نہ ہوئے۔ امیر بہاولپور سرصادق محمد خان عباسی نے لیز پر برطانوی حکومت سے ریل گاڑیاں حاصل کر کے لوگوں کو ہندوستان پہنچایا یا ہندوستان سے پاکستان لایا گیا۔
جب آخری امیر آف بہاولپور میجر جنرل سر محمد صادق خاں عباسی خامس کے والد کا انتقال ہوا تو وہ چار برس کے تھے۔ حکومت برطانیہ انھیں انگلینڈ لے گئی۔ وہ بکنگھم پیلس میں رہے۔ انھوں نے اور موجودہ ملکہ برطانیہ نے اکٹھے تربیت پائی۔ یہی وجہ ہے کہ نواب صادق کے انتقال پر پرنس فلپس بھی جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
عجائب گھر: عجائب گھر کی دیواروں پر لگی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بعض نایاب تصاویر بیتے سالوں کی کہانی ہی بیان نہیں کرتیں بلکہ ہماری تاریخ کا اہم ریکارڈ بھی ہیں۔ عجائب گھر کا یہ حصہ ہر خاص و عام کی توجہ کا حامل ہے۔ تحریک پاکستان کے نامور راہنماؤں ‘ اہم ملاقاتوں‘ فیصلہ ساز لمحوں کی یاد گار تصاویر آپ کو ماضی میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ بلیک اینڈ وائیٹ تصاویر میں جو جیسا ہے ویسا ہی نظر آتا ہے۔
کسی نے رنگین تصاویر کا ملمع نہیں اوڑھ رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد کی تصاویر میں نواب سرصادق محمد عباسی‘ پرنس فلپس (ملکہ برطانیہ کے شوہر) ‘ سابق گورنر پنجاب نواب محمد عباس خان عباسی‘ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو‘ بہاولپور ہاؤس دہلی ‘ نواب صادق عباسی کے بیٹے کی شادی کے موقع پر ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے آئے نوابوں کی یادگار تصاویر‘ صادق گڑھ پیلس کے مختلف کمروں اور مواقع کی نایاب تصاویر دیکھنے والے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس عجائب گھر کی خاص بات عجائب گھر کا وہ حصہ ہے جہاں چولستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے مقامی اسکولز اور کالجز کے بچوں کے بنائے ہوئے مختلف خاکے رکھے ہیں جو ان کی اپنے علاقے سے محبت کے آئینہ دار ہیں۔ یہ شاید دنیا کا واحد عجائب گھر ہے جس میں ایسی سہولت میسر ہے۔ اس گیلری کے قیام کا سہرا ڈائریکٹر میوزم حافظ حسین احمد مدنی کو جاتا ہے۔ جن کا کہنا ہے : ’’کہ ایسے مقابلے بچوں میں اپنی دھرتی اور ثقافت سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا پلیٹ فارم بھی ہیں‘‘۔
اچ شریف: ’’راجہ حود‘‘ کے صوبیدار چچ نے یہاں ایک بڑا تالاب اور قلعہ تعمیر کروایا تھا جس کے نشان بھی اب نہیں رہے۔ قدیم مندر اور مزارات یہاں کی عظمت کے گواہ ہیں۔ ابن بطوطہ اس شہر کا ذکر اپنے سفر نامے میں یوں کرتا ہے‘ ’’اچ دریائے سندھ کے کنارے واقع ایک بڑا اور خوبصورت شہر ہے۔ بازار عمدہ‘ مضبوط عمارتیں اور آب و ہوا صحت مند ہے‘‘۔ ان کا ایسا کہنا مبالغہ نہ تھا۔ آج بھی یہاں کی آب و ہوا عمدہ ہے گو ماحولیاتی آلودگی نے ادھر کا رخ کر لیا ہے۔ قدیم شہر ہونے کی وجہ سے مندروں‘ مزاروں اور مقبروں کے سلسلے دور تک پھیلے اس کی عظمت رفتہ کے گواہ ہیں۔ روایت کے مطابق ہندوؤں کی مشہور ’’اوشادیوی‘‘ کا مندر بھی یہیں تھا۔ یہ شہر اولیاء اکرام کا مسکن تھا۔
سرائیکی زبان: ہندوستان کی قدیم زبانوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ سرائیکی یہاں کی قدیم زبان ہے اگرچہ اس کا دائرہ اثر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس زبان کا اپنا ایک مخصوص خطہ بھی ہے جسے ’’سرزمین ملتان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وادی سندھ کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرزمین ملتان نے تہذیبی اور لسانی اعتبار سے ہمیشہ اپنی انفرادیت قائم رکھی ۔ زمانہ قدیم میں اس خطے کی زبان اتنی ترقی یافتہ تھی کہ اس میں تصنیف و تالیف کا کام آسانی کے ساتھ کیا جاتا تھا۔
ریگ وید کا شمار برصغیر کی قدیم کتابوں میں ہوتا ہے اس مذہبی کتاب کا بیشتر حصہ ملتان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تصنیف ہوا۔ آریاؤں کی آمد سے قبل یہاں دراوڑی تہذیب کے لوگ آباد تھے جو سنسکرت سے الگ کسی اور زبان میں بات کرتے تھے جو ہر لحاظ سے نہ صرف مکمل تھی بلکہ اس کا اپنا رسم الخط بھی تھا۔ (ڈکٹر وزیر آغا) ۔
لہٰذا جو لوگ سنسکرت کو سرائیکی زبان کا ماخذ قرار دیتے ہیں ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین لسانیات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ سرائیکی سنسکرت سے قدیم زبان ہے۔ اگر اس بحث کو سچ مان لیا جائے تو پھر سوال ہے کہ سرائیکی یہاں کی قدیم زبان ہے تو اس کا ماخذ کیا ہے؟ کچھ ماہر لسانیات ’’سریانی‘‘ زبان کی ایک شاخ’’اسور کی‘‘ کو سرائیکی زبان کا ماخذ قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ اسے ’’پساچی‘‘ زبان کی ایک قسم ’’وار چڈاپ بھرنش‘‘ کو اس کا ماخذ ٹھہراتے ہیں۔ (ماخذ ’نئے امکانات از ڈاکٹر شکیل پتافی)۔
آخری بات:کہنے کو یہ ریگ زار کے سفر کی کہانی ہے۔ یہ خواجہ فرید ؒ کی دھرتی ہے۔ یہ امن اور رواداری کی دنیا ہے۔ لوگوں کے لیے یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا شاید اور کچھ نہیں لیکن میں اپنی آنکھوں سے صحرا کا رومانس ‘ خاموش ہوا کی آواز‘ جرس (ٹل) کی موسیقی اور سب سے بڑھ کر چاندنی کو چھو آیا ہوں۔
ہر علاقے کی اپنی خوبصورتی ‘ کشش ہوتی ہے لیکن صحرا کی ایک سے زیادہ کششیں ہیں۔ ریت میں اللہ نے کیا جادو بھر دیا ہے کہ جو یہاں‘ آیا‘ آسانی سے واپس نہیں گیا۔ یہاں قلعے اب اکیلے کھڑے ہیں(انسان ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں) یہاں کے راستے گڈمڈ ہیں۔ یہاں کے درخت اور جڑی بوٹیاں بنا پانی ہی پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہاں کا صحرائی جہاز آج بھی آمدو رفت کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں کے مویشیوں کے گلے سے لٹکے ٹل موسیقی کا وہ راگ سناتے ہیں کہ آپ دم بخود ہو جائیں۔
آخر میں صرف یہ عرض کرونگا کہ شہزاد احمد نے بہاولپور کے متعلق ایسی نایاب کتاب لکھ ڈالی ہے جسے پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ انسان‘ ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چلتا جا رہا ہے ‘چلتا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عجائب گھر یہاں کی کی قدیم کی زبان کا ماخذ
پڑھیں:
جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔
یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔
یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔
حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔
علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔
معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔
یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔
کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔
شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔
ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔
اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔
یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔
بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ
شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا