شہزاد احمد ‘ پچھلے برس ‘دفتر آئے تو اپنی کتاب دے گئے۔ عنوان دلچسپ تھا۔ ’’ریت سے روح تک‘‘۔ا سٹڈی میں لے کر آیا۔ اور پھر وہ کتابوں کے ہجوم میں گم ہو گئی۔ چند دن پہلے ‘ اسٹڈی میں بیٹھا ‘ کتابوںکو ترتیب سے رکھ رہا تھا کہ یہ کتاب دوبارہ نظر آئی۔ پڑھنی شروع کر دی۔ کمال نسخہ تصنیف کیا گیا ہے۔
شہزاد احمد نے واقعی بہاولپور کے متعلق لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ کمال تحریر، سادگی اور محبت سے مزین ‘ یہ کتاب بہر حال پڑھنے کے لائق ہے۔ دو تین دن میں ’’ریت سے روح تک‘‘ ختم کر ڈالی۔ پھر ارادہ کیا کہ اس تحریر کو تمام پڑھنے والوں کے سامنے رکھا جائے۔چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔
برادرم حسن نثار نے اس کتاب کی بابت لکھا ہے: صحرا روح کی طرح پراسرار ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ دونوں ہم زاد تو نہیں؟ شہزاد احمد حمید شاید اسی سوال کے جواب کی تلاش میں اپنی آوارہ مزاج روح کے ساتھ صحرا کے سفر پر روانہ ہے۔ موضوع اور مصنف دونوں ہی خوب ہوں‘ خوبصورت ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔
مصنف لکھتا ہے۔’’محبت اور بھائی چارے کی ایسی فضا تھی کہ قیام پاکستان کے وقت بہاولپور ہندوستان کی واحد ریاست تھی جہاں کوئی بھی قتل نہ ہوا اور دنگا فساد نہ ہوئے۔ امیر بہاولپور سرصادق محمد خان عباسی نے لیز پر برطانوی حکومت سے ریل گاڑیاں حاصل کر کے لوگوں کو ہندوستان پہنچایا یا ہندوستان سے پاکستان لایا گیا۔
جب آخری امیر آف بہاولپور میجر جنرل سر محمد صادق خاں عباسی خامس کے والد کا انتقال ہوا تو وہ چار برس کے تھے۔ حکومت برطانیہ انھیں انگلینڈ لے گئی۔ وہ بکنگھم پیلس میں رہے۔ انھوں نے اور موجودہ ملکہ برطانیہ نے اکٹھے تربیت پائی۔ یہی وجہ ہے کہ نواب صادق کے انتقال پر پرنس فلپس بھی جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
عجائب گھر: عجائب گھر کی دیواروں پر لگی تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی بعض نایاب تصاویر بیتے سالوں کی کہانی ہی بیان نہیں کرتیں بلکہ ہماری تاریخ کا اہم ریکارڈ بھی ہیں۔ عجائب گھر کا یہ حصہ ہر خاص و عام کی توجہ کا حامل ہے۔ تحریک پاکستان کے نامور راہنماؤں ‘ اہم ملاقاتوں‘ فیصلہ ساز لمحوں کی یاد گار تصاویر آپ کو ماضی میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہیں۔ بلیک اینڈ وائیٹ تصاویر میں جو جیسا ہے ویسا ہی نظر آتا ہے۔
کسی نے رنگین تصاویر کا ملمع نہیں اوڑھ رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد کی تصاویر میں نواب سرصادق محمد عباسی‘ پرنس فلپس (ملکہ برطانیہ کے شوہر) ‘ سابق گورنر پنجاب نواب محمد عباس خان عباسی‘ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو‘ بہاولپور ہاؤس دہلی ‘ نواب صادق عباسی کے بیٹے کی شادی کے موقع پر ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے آئے نوابوں کی یادگار تصاویر‘ صادق گڑھ پیلس کے مختلف کمروں اور مواقع کی نایاب تصاویر دیکھنے والے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اس عجائب گھر کی خاص بات عجائب گھر کا وہ حصہ ہے جہاں چولستانی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے مقامی اسکولز اور کالجز کے بچوں کے بنائے ہوئے مختلف خاکے رکھے ہیں جو ان کی اپنے علاقے سے محبت کے آئینہ دار ہیں۔ یہ شاید دنیا کا واحد عجائب گھر ہے جس میں ایسی سہولت میسر ہے۔ اس گیلری کے قیام کا سہرا ڈائریکٹر میوزم حافظ حسین احمد مدنی کو جاتا ہے۔ جن کا کہنا ہے : ’’کہ ایسے مقابلے بچوں میں اپنی دھرتی اور ثقافت سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا پلیٹ فارم بھی ہیں‘‘۔
اچ شریف: ’’راجہ حود‘‘ کے صوبیدار چچ نے یہاں ایک بڑا تالاب اور قلعہ تعمیر کروایا تھا جس کے نشان بھی اب نہیں رہے۔ قدیم مندر اور مزارات یہاں کی عظمت کے گواہ ہیں۔ ابن بطوطہ اس شہر کا ذکر اپنے سفر نامے میں یوں کرتا ہے‘ ’’اچ دریائے سندھ کے کنارے واقع ایک بڑا اور خوبصورت شہر ہے۔ بازار عمدہ‘ مضبوط عمارتیں اور آب و ہوا صحت مند ہے‘‘۔ ان کا ایسا کہنا مبالغہ نہ تھا۔ آج بھی یہاں کی آب و ہوا عمدہ ہے گو ماحولیاتی آلودگی نے ادھر کا رخ کر لیا ہے۔ قدیم شہر ہونے کی وجہ سے مندروں‘ مزاروں اور مقبروں کے سلسلے دور تک پھیلے اس کی عظمت رفتہ کے گواہ ہیں۔ روایت کے مطابق ہندوؤں کی مشہور ’’اوشادیوی‘‘ کا مندر بھی یہیں تھا۔ یہ شہر اولیاء اکرام کا مسکن تھا۔
سرائیکی زبان: ہندوستان کی قدیم زبانوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ سرائیکی یہاں کی قدیم زبان ہے اگرچہ اس کا دائرہ اثر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس زبان کا اپنا ایک مخصوص خطہ بھی ہے جسے ’’سرزمین ملتان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ وادی سندھ کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سرزمین ملتان نے تہذیبی اور لسانی اعتبار سے ہمیشہ اپنی انفرادیت قائم رکھی ۔ زمانہ قدیم میں اس خطے کی زبان اتنی ترقی یافتہ تھی کہ اس میں تصنیف و تالیف کا کام آسانی کے ساتھ کیا جاتا تھا۔
ریگ وید کا شمار برصغیر کی قدیم کتابوں میں ہوتا ہے اس مذہبی کتاب کا بیشتر حصہ ملتان اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں تصنیف ہوا۔ آریاؤں کی آمد سے قبل یہاں دراوڑی تہذیب کے لوگ آباد تھے جو سنسکرت سے الگ کسی اور زبان میں بات کرتے تھے جو ہر لحاظ سے نہ صرف مکمل تھی بلکہ اس کا اپنا رسم الخط بھی تھا۔ (ڈکٹر وزیر آغا) ۔
لہٰذا جو لوگ سنسکرت کو سرائیکی زبان کا ماخذ قرار دیتے ہیں ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین لسانیات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ سرائیکی سنسکرت سے قدیم زبان ہے۔ اگر اس بحث کو سچ مان لیا جائے تو پھر سوال ہے کہ سرائیکی یہاں کی قدیم زبان ہے تو اس کا ماخذ کیا ہے؟ کچھ ماہر لسانیات ’’سریانی‘‘ زبان کی ایک شاخ’’اسور کی‘‘ کو سرائیکی زبان کا ماخذ قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ اسے ’’پساچی‘‘ زبان کی ایک قسم ’’وار چڈاپ بھرنش‘‘ کو اس کا ماخذ ٹھہراتے ہیں۔ (ماخذ ’نئے امکانات از ڈاکٹر شکیل پتافی)۔
آخری بات:کہنے کو یہ ریگ زار کے سفر کی کہانی ہے۔ یہ خواجہ فرید ؒ کی دھرتی ہے۔ یہ امن اور رواداری کی دنیا ہے۔ لوگوں کے لیے یہاں ریت کے ٹیلوں کے سوا شاید اور کچھ نہیں لیکن میں اپنی آنکھوں سے صحرا کا رومانس ‘ خاموش ہوا کی آواز‘ جرس (ٹل) کی موسیقی اور سب سے بڑھ کر چاندنی کو چھو آیا ہوں۔
ہر علاقے کی اپنی خوبصورتی ‘ کشش ہوتی ہے لیکن صحرا کی ایک سے زیادہ کششیں ہیں۔ ریت میں اللہ نے کیا جادو بھر دیا ہے کہ جو یہاں‘ آیا‘ آسانی سے واپس نہیں گیا۔ یہاں قلعے اب اکیلے کھڑے ہیں(انسان ان کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں) یہاں کے راستے گڈمڈ ہیں۔ یہاں کے درخت اور جڑی بوٹیاں بنا پانی ہی پھوٹ پڑتی ہیں۔ یہاں کا صحرائی جہاز آج بھی آمدو رفت کا بڑا ذریعہ ہے۔ یہاں کے مویشیوں کے گلے سے لٹکے ٹل موسیقی کا وہ راگ سناتے ہیں کہ آپ دم بخود ہو جائیں۔
آخر میں صرف یہ عرض کرونگا کہ شہزاد احمد نے بہاولپور کے متعلق ایسی نایاب کتاب لکھ ڈالی ہے جسے پڑھتے ہوئے ایسے لگتا ہے کہ انسان‘ ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں چلتا جا رہا ہے ‘چلتا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عجائب گھر یہاں کی کی قدیم کی زبان کا ماخذ
پڑھیں:
بارشیں اور حکومتی ذمے داری
گلگت، سوات، بونیر، جڑواں شہروں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے تباہی، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں میں بہہ کر 6 بچوں، باپ، بیٹی سمیت 16 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ کئی زخمی ہوگئے، بابو سر ٹاپ پرکئی سیاح پانی میں بہہ چکے ہیں، جن کی تلاش کے لیے ریسکیوکارروائیاں تاحال جاری ہیں۔
سڑک 15 مقامات سے بلاک ہے اور 4 اہم رابطہ پل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ پاک فوج نے اسکردو میں ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے 40 سے 50 گاڑیوں میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند سڑکیں کھول دیں۔
مون سون سیزن پاکستان کے لیے ایک اور تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک طرف بے رحم بارشیں برسیں، وہیں دوسری طرف انسانی غفلت، حکومتی لاپرواہی اور ادارہ جاتی کمزوری نے اس آفت کو ناقابلِ تلافی سانحے میں بدل دیا۔ خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی، وہ صرف موسمی یا فطری آفت نہیں، بلکہ ایک منظم حکومتی و انتظامی ناکامی کی داستان ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مون سون سیزن اب ایک قدرتی معمول سے بڑھ کر ایک انسانی بحران کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ اس بار جولائی میں ہونے والی ہلاکتیں، جن کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سیکڑوں تک جا پہنچی، صرف بارش یا سیلاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ ناقص انفرا اسٹرکچر، سیاحتی علاقوں میں انتظامی غفلت اور قبل از وقت انتباہی نظام کی غیر فعالیت کی علامت ہے۔
سیاح، جن میں مرد ، خواتین اور بچے شامل تھے، اپنی چھٹیوں کو خوشگوار بنانے کی امید لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں، مگر کمزور پُل، ندی نالوں کے قریب غیر محفوظ کیمپنگ اور مسلسل بارشوں کے باوجود حکومتی خاموشی ان کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیتی ہے۔یہ المیہ فقط چند علاقوں تک محدود نہیں۔ اسلام آباد جیسے دارالحکومت میں بھی نکاسیِ آب کا ناقص نظام عوامی زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔
راولپنڈی کا نالہ لئی ایک بار پھر خبروں میں ہے جہاں بارش کے بعد پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے اور حکومتی ادارے فقط ’’ الرٹ جاری‘‘ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات، جنھیں ملکی معیشت کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے، بدترین انفرا اسٹرکچر، بغیر پلاننگ کی تعمیرات اور غیر تربیت یافتہ مقامی انتظامیہ کی وجہ سے انسانی جانوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔
اگر ہم ان حادثات کا غیر جذباتی، حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاحتی علاقوں میں مون سون کے دوران بغیر کسی نگرانی کے عوام کو جانے کی اجازت دینا دانشمندی ہے؟ جب متعلقہ اداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کئی دن پہلے موصول ہو جاتی ہے، توکیا یہ اداروں کی ذمے داری نہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں میں سیاحت پر وقتی پابندی عائد کریں؟ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمیشہ ردعمل پر مبنی ہوتی ہے، پیشگی حکمتِ عملی کا فقدان ہمیں ہر بار انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بارشوں کا نظام غیر متوازن ہو چکا ہے، اور فلیش فلڈز اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ برساتی جھیلوں اور تالاب کا رجحان بھی ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ یہ اگر ہوں تو ان سے زیر زمین سطح آب، جو ہمارے شہری علاقوں میں تیزی سے نیچے جارہی ہے، اسے بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
ہمیں اپنے موسمیاتی پیٹرن کا عمیق مطالعہ کر کے ضرورت کے مطابق منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں سیکڑوں جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے اور اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ بارش سے ہونے والے حادثات کو دیکھا جائے تو ان میں انتظامی سے زیادہ انسانی غفلت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے مون سون سے قبل احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر شہریوں کی جانب سے حکومتی ہدایات کو نظر اندازکیا جاتا ہے، اگر عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑنے کے بجائے اپنے تئیں بھی برسات کے موسم میں تھوڑی سی احتیاط کریں تو بارشوں سے ہونیوالے جانی نقصان کی شرح کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں حالیہ اموات صرف قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، ناقص شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ تھیں۔ ہم نے اپنے قدرتی نالوں پر تجاوزات قائم کیں، درخت کاٹ کر عمارتیں بنائیں، کھلی زمینوں کو سیمنٹ اور تارکول میں بدل دیا اور بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بند کردیا۔ جب پانی کا راستہ بند ہوتا ہے تو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور پھر اس کی راہ میں جو بھی آئے، وہ تباہی کی زد میں آ جاتا ہے۔اس المیے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے عوام کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں شعور دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
پارلیمان کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر باقاعدہ قانون سازی کرے، صوبائی اسمبلیاں اس کی توثیق کریں اور ہر سطح پر اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سانحات کے بعد بھی کوئی بڑی پالیسی تبدیلی یا سنجیدہ تجزیہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حادثات کے بعد چند روزہ اخباری بیانات، کچھ دکھاوے کی میٹنگز اور پھر حسبِ معمول خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ نہ ہی کوئی باقاعدہ انکوائری کی جاتی ہے، نہ ہی ذمے داران کا تعین ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، نئے موضوعات زیرِ بحث آجاتے ہیں اور پچھلے حادثات محض یاد داشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
شدید بارشیں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ سمجھی جا رہی ہیں، جو آنے والے وقت میں پاکستانیوں کی طرز زندگی کو بدل کر کے رکھ دے گی، اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک بڑی وجہ شمالی علاقوں، خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے کو قرار دیا جا رہا ہے، ایک وقت میں ان گلیشیئرزکی تعداد سات ہزار سے زیادہ بتائی جاتی تھی، لیکن ان کا غیر متوقع طور پر تیزی سے ختم ہونا پاکستان بھر میں بدلتے موسموں کا واضح ثبوت ہے۔ درختوں کی تیزی سے کٹائی اور ان کی جگہ نئے درخت نہ لگانے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے، ایک غیر یقینی مستقبل کی جھلک 2010 میں ہنزہ وادی میں عطا آباد جھیل کے قیام کے ساتھ دیکھی گئی۔سیاحت کو اگر محفوظ بنایا جانا ہے تو اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے تو مون سون سیزن کے دوران حساس علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جائے۔ اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے جس میں مقامی حکومت، پولیس، محکمہ موسمیات، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے باہم مربوط ہو کر فیصلے کریں۔ دوسرا، مقامی کمیونٹیز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ وہ خود بھی قدرتی آفات میں بروقت ردعمل دے سکیں، اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی حفاظت کر سکیں۔
تیسرا، سیاحوں کے لیے ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں سفر سے پہلے رجسٹریشن، راستوں کی معلومات اور خطرناک علاقوں سے اجتناب جیسی ہدایات لازمی ہوں۔ انفرا اسٹرکچرکی تعمیر میں پائیداری اور موسمی حالات کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ یہ بات اب بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ کمزور پل، ناقص سڑکیں اور غیر محفوظ ہوٹل یا کیمپنگ ایریاز حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر حکومت سیاحت کو معیشت کا انجن بنانا چاہتی ہے، تو اسے انفرا اسٹرکچر پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان میں شفافیت اور پائیداری کو یقینی بنایا جائے۔موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بھی ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کی تباہی اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات نے لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کی کمزوری میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو نہ صرف ایک جامع نیشنل کلائمیٹ ایڈاپٹیشن پالیسی کی ضرورت ہے بلکہ اس پالیسی کو ضلعی سطح تک نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی جان صرف ایک عدد نہیں، بلکہ ایک خاندان، ایک نسل اور ایک خواب کا نام ہوتی ہے۔
جب ایک سیاح کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے پیچھے رہ جانے والے افراد عمر بھر کے دکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر ایک جان بھی محفوظ کی جا سکتی ہو تو اس کے لیے اقدامات کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی اخلاقی ذمے داری ہے۔آخر میں، ہمیں بحیثیتِ قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم ہر سال مون سون میں سانحات کا سامنا کرنے کو اپنی تقدیر سمجھ چکے ہیں، یا ہم اس دائرے کو توڑ کر ایک ذمے دار، محفوظ اور منصوبہ بند معاشرہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا آغاز آج، ابھی اور یہیں سے ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات کو ہم نہیں روک سکتے، مگر اپنے رویوں، پالیسیوں اور ترجیحات کو ضرور بدل سکتے ہیں تاکہ قدرتی آفات سے جنم لینے والے مسائل پر جلد از جلد قابو پا سکیں۔