ڈاکٹر فوزیہ کا اپنی اسیر بہن کے نام خط
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی گزشتہ سال جب اپنی بہن سے ایف ایم سی کارسویل جیل میں ملاقات کر کے وطن واپس لوٹی تھیں تو انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ میں امریکہ اپنی بہن سے ملنے نہیں بلکہ اسے واپس وطن لانے کے لیے جانا چاہتی ہوں۔
گزشتہ برس ڈاکٹر عافیہ کی سزا کے خاتمے کے لیے امریکی صدر جوبائیڈن کے دفتر میں ان کے وکیل کلائیو اسمتھ نے Clemency Petition # C310439 دائر کی تھی۔ اس پٹیشن کی کامیابی کے لیے دنیا بھر میں موجود ڈاکٹر عافیہ کے لاکھوں سپورٹرز نے رضاکارانہ طور پر کئی ماہ تک دن رات انتھک محنت کی ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت دسمبر2023 میں ایک سرکاری وفد کو امریکہ روانہ ہونا تھا جس میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کوبھی شامل ہونا تھا۔ مگر ایک سازش کے تحت ان کو جانے سے روک دیا گیا ۔پھر اس وفد کو اس طرح بھیجا گیا کہ امریکی حکام سے ملاقاتیں نامکمل رہیں جس کے باعث 8 قیمتی دن ضائع ہوگئے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کئی ہفتوں کی تاخیر کے بعد12 جنوری 2024 کو امریکہ روانہ ہو سکیں۔ 19 جنوری کو اپنی بہن عافیہ سے جیل میں ایک اذیت ناک ملاقات کر کے واپس آنے کے بعدبھی انہوں نے پٹیشن کی منظوری کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ نئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے صرف چند منٹ قبل Clemency Petition کو منظور کرنے سے انکار کر دیا گیا ۔ ایک طویل عرصہ سے کہا جارہا ہے کہ عافیہ کی رہائی کی چابی اسلام آباد میں ہے اور رکاوٹ کہیں اور نہیں پاکستان میں ہے۔
پٹیشن کی نامنظوری کے بعد ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی جدوجہد اب ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کا کوئی سپورٹرپٹیشن کی نامنظوری سے مایوس نہیں ہوا ہے ، الحمدللہ۔ ہاں وہ افسردہ ضرور ہے اور اب وہ بہت کچھ جان بھی چکا ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اس موقع پر جس حوصلے کا مظاہرہ کیا اس نے ڈاکٹر عافیہ کے سپورٹرز کو ایک نیا عزم و حوصلہ عطا کردیا ہے۔ پٹیشن کی نامنظوری کے بعد انہوں نے اپنی اسیر بہن عافیہ کو ایک خط لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار جس طرح کیا ہے ، اس کا علم سارے پاکستان کو ہونا چاہئے۔
میری پیاری عافیہ السلام علیکم….
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ڈاکٹر عافیہ پٹیشن کی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
اُمت کی اصل شناخت ایثار اور صلہ رحمی ہے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صدر تحریک منہاج القرآن کا لاہور میں فکری نشست سے خطاب میں کہنا تھا کہ ایثار اسلامی معاشرے کے قیام کی بنیاد ہے، اسلام محض عبادات نہیں، معاشرتی فلاح و اخلاقی تطہیر کا نظام حیات ہے، امت کو اپنی روحانی میراث، ایثار و قربانی اور فلاحِ انسانیت کے جذبے کو مزید مستحکم کرنا ہوگا تاکہ امت اپنی اصل پہچان برقرار رکھ سکے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا ہے کہ امت مسلمہ کی اصل شناخت ایثار اور صلہ رحمی ہے، ایثار اور غم خواری اسلامی معاشرے کی بنیاد ہیں، دین اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو نہ صرف عبادات پر زور دیتا ہے بلکہ معاشرتی و اخلاقی اقدار کو بھی اعلیٰ مقام دیتا ہے، انہی اقدار میں دو بنیادی عناصر ایثار اور ہمدردی ہیں، امتِ مسلمہ کو اللہ رب العزت نے ایثار، قربانی اور ہمدردی جیسے اوصافِ حمیدہ سے خاص کیا ہے، جو نہ صرف انفرادی نیکی کا ذریعہ ہیں بلکہ اجتماعی فلاح اور اخروی نجات کی بھی ضمانت ہیں، اگر ہم ان صفات کو اپنا لیں تو نہ صرف دنیا میں امن اور خوشی حاصل ہوگی بلکہ آخرت میں بھی نجات کا باعث بنیں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں ایک فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
پروفیسرڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ اسلام کا تصورِ حیات محض عبادات تک محدود نہیں، بلکہ اس میں اخلاق، معاشرت، انسان دوستی، عدل اور فلاح عام کا جامع پیغام شامل ہے۔ جس دل میں بغض و حسد نہ ہو، جو ہاتھ ناداروں اور یتیموں کیلئے کھلے ہوں اور جس گھر میں رحمت اور شفقت کا ماحول ہو، وہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے محبوب قرار پاتے ہیں۔ انہی صفات سے مزین معاشرہ ہی جنت کا مستحق بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر کیے گئے تحقیقی جائزے یہ حقیقت سامنے لاتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ عطیات دینے والے مسلمان ہیں۔ اگرچہ مغرب میں یتیموں اور کمزور طبقات کی کفالت حکومتوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، لیکن مسلم دنیا کے 55 ممالک میں ایسی کوئی ریاستی سطح کی ضمانت موجود نہ ہونے کے باوجود امتِ مسلمہ کا جذبۂ خدمت و عطا کمزور نہیں پڑا۔
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسا نور اور اخلاص رکھا ہے کہ وہ محدود وسائل کے باوجود اپنے یتیم بھائیوں، بے سہارا بچوں اور محتاج طبقات کیلئے دامے، درمے، سخنے حاضر رہتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ منہاج القرآن کے زیراہتمام چلنے والے آغوش آرفن کیئر ہوم جیسے ادارے امت کے اسی جذبۂ ایثار اور کفالت کی زندہ مثالیں ہیں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دین صرف عقائد یا رسوم کا نام نہیں بلکہ ایک زندہ شعور اور کردار ہے جو فرد کو اپنے رب سے جوڑتا ہے اور مخلوقِ خدا کی خدمت کا داعی بناتا ہے۔ امت کو اپنی روحانی میراث، ایثار و قربانی اور فلاحِ انسانیت کے جذبے کو مزید مستحکم کرنا ہوگا تاکہ امت اپنی اصل پہچان برقرار رکھ سکے۔